چاند پر اڑنے والے انسان، چاند پر خلائی مخلوق کے ساتھ تجارت کرنے کا سترھویں صدی کا انوکھا منصوبہ

image
 
آج کے سیاست دان نے اچھا نہیں کیا۔ اپنی بڑھکوں سے سیاست کو بدنام کردیا۔ جسے ہمارے اسلاف نے اپنے عمل سے عبادت اور خدمت میں ڈھال دیا تھا اسے آج اس کے برعکس صرف منافقت اور ڈرامہ سمجھا جاتا ہے۔
 
سیاست کرنے والوں کی منفی روش کی وجہ سے اسے مغرب میں بھی گالی سمجھا جانے لگا ہے۔ لیکن ماضی میں نہ تو سیاست مشرق میں ایسی بدنام تھی، نہ ہی مغرب میں ایسا معاملہ تھا۔ اسی طرح کسی بڑے منصب پر فائز حاکمین بھی معزز اور نیک نام ہوا کرتے تھے۔ بڑی بڑی ہانک کر عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے اور اقتدارو عہدے کو طول دینے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے۔
 
برطانیہ میں اس عہد کا ایک نام اس حوالے سے دلچسپ ہے۔ اولیور کروم ول سترھویں صدی کا نام ہے، موصوف اور ان کے برادر نسبتی نے اتنی لمبی لمبی چھوڑی کہ بس اخیر ہی کردی۔ اس عہد کی تاریخ کے مطابق سولہیں صدی کی انگلستان میں ہونے والی خانہ جنگی، اس وقت کے بادشاہ چارلس اول کے قتل کے بعد اولیور کروم ول نے خود کو انگلستان کے مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا۔
 
image
 
اس نے دعویٰ کیا کہ وہ انگلستان، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ پر مشتمل دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) کا مسیحا ہوگا۔ تینوں کا دفاع مضبوط کرے گا۔
 
اولیور کروم ول کا سالہ جان ول کنز بھی اسی کے لب و لہجے میں بات کرتا۔یہ جدید طبیعیات (فزکس) کے بانی گیلیلیو گیلیلی کا عہد تھا جہاں اس جیسے قابل افراد کے بجائے سائنسی تحقیق و ترقی کے اداروں پر جان ول کنز جیسے افراد کی اجارہ داری تھی۔ جان ول کنز ان خیالات کا پرچار کرتا تھا کہ زمین کے گرد موجود سیاروں، ذیلی سیاروں پر خلائی مخلوق آباد ہے اور برطانیہ کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لئے ان کے ساتھ تجارت کی جاسکتی ہے۔
 
خود کو سائنسدان سمجھنے والے اس ٹولے کا دعویٰ تھا کہ وہ جلد ایسا جہاز تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے ذریعے چاند اور زمین کے درمیان سفر کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اب سے 400 سال پرانے دور میں ولکنز اور اس جیسے دوسرے افراد کی باتوں سے اس رجحان کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ چاند کے سفر کو بچوں کا کھیل سمجھتے تھے۔
 
ول کنز اس قسم کی باتیں کرتا تھا کہ زمین اور دوسرے سیاروں کے درمیان پھیلے خلا میں فرشتے موجود ہیں، سانس لیتے ہیں، لہٰذا جب کبھی انسان اس سفر پر نکلا تو وہ بھی خلا میں سانس لینے کا عادی ہوجائے گا۔
 
image
 
 یہ ساری باتیں اس دور میں کی گئیں جب انسان سڑک پر دوڑنے والی کاروں کی کھیپ متعارف نہیں کرا سکا تھا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ول کنز کے سائنسی افکار محض ڈھکوسلہ ثابت ہوئے تاہم اس کے تصورات ضرور قابل ذکر تھے، ان تخیلات کو پروان چڑھا کر بالآخر بنی نوع انسان 1969 میں اس قابل ہوسکا کہ اس نے چاند پر پہلا قدم رکھ دیا ۔
YOU MAY ALSO LIKE: