“ اوئے بات سن“ پاکستانیوں کی وہ کونسی 9 بری عادتیں ہیں جو ہم سب میں پائی جاتی جاتیں؟ جانیں اور خود کو بدلیں

image
 
پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ملک سے باہر جا کر بسنے کی خواہش رکھتی ہے۔ جس کی وجہ پوچھیں تو جواب یہ آتا ہے کہ یہاں تو ڈسپلن نہیں ہے، سڑکوں پر کچرا پھیلا ہوا ہے، عوام میں تعلیم اور شعور کا فقدان ہے۔ یہ شکایتیں کرتے لوگ بھول جاتے ہیں کہ ملک قوم سے بنتا ہے اور قوم عام لوگوں سے۔ دوسرے ممالک میں عوام قوانین کی پابندی کرتے ہیں، اچھی عادات اپناتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ملک ہمیں آئیڈیل نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان میں سب ڈسپلن اور اپنے لئے آسانی چاہتے تو ہیں مگر اچھے اصول اپنا کر خود کو بدلنا نہیں چاہتے۔ آج ہم بات کریں گے پاکستانیوں کی ان بری عادات کے بارے میں جو بحیثیت قوم ہماری بری شناخت بن چکی ہیں۔
 
1۔ وقت کی پابندی نا کرنا
بچوں کے اسکول کے اوقات ہوں یا دفتر کے یا پھر شادی بیاہ کی تقریب ہو، وقت کی پابندی کرنا لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو ایسا بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ “ارے وقت پر کون جاتا ہے، دیر سے جائیں گے تبھی تو ہماری قدر بڑھے گی“ ۔ یہ انتہائی غلط عادت ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ جو قومیں وقت کی پابندی کرتی ہیں وہی ترقی پاتی ہیں۔ سوئیٹزرلینڈ، جرمنی، ڈنمارک اور سب سے بڑھ کر جاپان ایسے ممالک ہیں جو وقت کی پابندی کی بدولت آج ترقی یافتہ ہیں۔
 
2- بے صبرا پن
قطار بنی ہے لیکن دھکم پیل جاری ہے، کوئی فون نہیں اٹھا رہا تو بجائے یہ سوچنے کہ ہوسکتا ہے وہ بیمار ہو یا سو رہا ہو، بار بار کال پر کال کیے جارہے ہیں، سگنل بند ہے لیکن سگنل توڑ کر آگے بڑھنا کوئی بڑی بات نہیں غرض ہر چیز ہر بات میں بے صبرا پن دکھانا ہماری قومی عادت بن چکا ہے۔ ہم جو کسی دوسرے ملک جا کر وہاں کے قوانین کی تعریف کرتے ہیں جانے یہاں کیوں ان کی پابندی نہیں کرتے-
 
3: مفت مشورے دینا
"ارے چھوڑو ڈاکٹر کو، بچے کو ذرا سا بخار ہی تو ہے اس کو فلاں دوا کھلاؤ ایک دن میں ٹھیک ہوجائے گا"، بیماری کوئی بھی ہو عیادت کے لئے آئے اکثر عزیز اسی طرح کے مفت مشورے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں یہ سوچے بغیر کے ان کے مشورے کسی کو نقصان بھی کرسکتے ہیں۔
 
image
 
3: عمر پر تنقید
" دادی نانی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں مگر فیشن دیکھو" اس طرح کے جملے ہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ ہیں۔ انسان کا لباس اور فیشن کرنا اس کی ذاتی پسند نا پسند پر منحصر ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کو ہماری پسند کے مطابق نہ جینے پر ان کو ٹوکیں۔ سوچیں اگر کوئی اور آپ کے لباس کا مذاق اڑائے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟
 
4: کچرا پھیلانا
عمر نے جوس پر کر اس کا ڈبا بغیر سوچے سمجھے گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ یہ وہی عمر صاحب ہیں جو دس سال امریکہ میں نہایت پابندی سے کچرا، کچرے دان میں ڈالتے تھے لیکن ملک واپس آتے ہی ان کی بری عادتیں واپس آنے میں دیر نہیں لگی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک کی شاہراہوں، سڑکوں کو گندا ہم خود کررہے ہوتے ہیں اور الزام ملک کو دیتے ہیں۔
 
5: دوسروں کے معاملات میں مداخلت
"ارے بیٹا اور کتنا پڑھو گی تمھاری شادی کی عمر تو نکل ہی گئی، تم کس شہزادے کا انتظار کررہی ہو آخر؟" محلے کی ایک خالہ نے میلاد میں آئی صبا کو ٹوکا۔ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے لوگوں کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کررہے ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ، پڑھے لکھے معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا اور اس قسم کی باتوں کو اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے۔
 
image
 
6: تقریب میں انتظامات پر نکتہ چینی
" کمال ہے فوٹوگرافی کا تو اتنا اہتمام ہے لیکن کھانے پر کوئی توجہ نہیں۔ دیکھو ذرا یہ کھیر ہے یا پانی"
اتنا ہی نہیں بلکہ کسی کی میت میں جا کر بھی کھانے سے بوٹیاں اس طرح تلاش کی جاتی ہیں جیسے اس سے پہلے یا بعد میں کھانا دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ کسی بھی جگہ جا کر انتظامات اور کھانے پینے میں میں میخ نکالنا انتہائی برا عمل ہے۔ شادی بیاہ میں گھر والے اپنی جمع پونجی لگا دیتے ہیں کسی تقریب کے لیے ایسے میں آپ کا ایک برا جملہ ان کا دل دکھا سکتا ہے-
 
7: چغلی، غیبت اور بہتان بازی
زبان کا چسکا لینے کی پاکستانیوں میں اتنی بری عادت پائی جاتی ہے کہ کسی جگہ دو یا دو سے زیادہ لوگ جمع ہوجائیں تو ممکن نہیں کسی کی برائی نہ ہو۔ غیبت کیے بغیر تو محفل ختم ہو ہی نہیں سکتی۔
 
8۔ پیچھے سے آواز دینا
“ اوئے بات سن “ یہ جملہ دن میں کئی بار ہمارے کانوں سے گزرتا ہے جب کہ کسی کو پیچھے سے آوازیں دے کر بلانا مہذب معاشروں میں برا سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں لوگوں کو اس بات کا شعور ہی نہیں کہ یہ کتنی بری بات ہے۔
 
image
 
9۔ ہارن بجانا
ٹریفک جام میں پھنسے ہوں یا گھر کے اندر سے کسی کو باہر بلانا ہو ہارن پہ ہارن دینا جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ دیگر ممالک میں بلاوجہ ہارن بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے ایک تو لوگوں کی نیند متاثر ہوتی ہے دوسرے اس سے شور کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
 
یہ ہماری ایسی بری عادتیں ہیں جو اب ہماری پہچان بن چکی ہیں۔ یہاں برائی کرنا اس لئے آسان ہے کیونکہ ہمیں غلط کام کرتے ہوئے شرمندگی اٹھانے کا خوف نہیں ہوتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ تو آئیے اب ان بری عادتوں کو ترک کرنے کا عزم کریں تاکہ پاکستانی عوام کہلانا ہمارے لئے فخر کی وجہ بن سکے۔
YOU MAY ALSO LIKE: