بزرگوں کی عزت کا رخصت ہونا معاشرے کی تباہی کا ایک اہم سبب ہے

معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لانے کے چند خاص اسباب

دسمبر 1975: فجر کا وقت اماں نے آواز دی بیٹا اٹھو نماز پڑھ لو اور کالج کی تیاری کرو۔ فجر کا وقت نکلا جا رہا ہے اٹھ جاو۔ آواز آئی اٹھتا ہوں اماں سردی بہت ہے اٹھا نہیں جا رہا۔ اماں کی آواز آئی اٹھ جاو ورنہ ابا کو بھیجتی ہوں، اور ابا کا نام سنتے ہی ساری سردی رفو چکر ہوگئی۔ اور احمد میاں منٹوں میں تیار ہوکر اماں ابا کے ساتھ ناشتہ کر کے کالج روانہ۔ اور یوں اماں ابا نے دعاوں کے سائے میں احمد میاں کو گھر سے رخصت کیا۔

دسمبر 2019: ممی کی آواز آئی علی بیٹھا اٹھ جائیے کالج جانا ہے،چلو شاباش جلدی سے اٹھو دیر ہو جائے گی۔ ممی رک جائیں آپ تو پیچھے پڑ جاتی ہے مجھے پتہ ہے مجھے کب کالج جانا ہے کب نہیں۔ ڈیڈی کی آواز آئی علی بیٹا اٹھ کیوں نہیں رہے دیر ہو رہی ہے، تمھاری ممی پریشان ہو رہی ہیں۔ علی جنون اور غصے کی حالت میں کیا مصیبت ہے آپ لوگ تو مجھے بچہ سمجھتے ہیں ایک بات کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں۔ کہا بھی ہے کہ مجھے معلوم ہے مجھے کب کیا کرنا ہے کب کالج جانا ہے، میری نیند خراب کر دی۔ ڈیڈی نے الجھ کر کہا یہ کس طرح بات کر رہے ہو علی۔ فورا ہی ممی نے علی کا ساتھ دیا اور کہا کیا سنئے آپ بھی نا بچوں کو سمجھانے لگتے ہیں، جانے دیجئے علی بڑا ہوگیا ہے سمجھدار ہے اسے ہم سے زیادہ پتہ ہے آپ خاموش رہئے ورنہ وہ اور غصہ کرے گا اور یوں بیچارے ڈیڈی نظریں جھکا کر خاموش ہوگئے۔ اور علی غصے میں بغیر ناشتہ کیئے کالج روانہ۔

یہ ہے اماں ابا سے ممی ڈیڈی تک کا سفر جسکی چھوٹی سی جھلک اوپر بیان کی گئی۔ بات کچھ یوں ہے کہ کسی بھی انسان کی کامیابی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے ایک آسکے ماں باپ کی تربیت اور دوسرا اسکی تعلیم ۔اچھی تعلیم ملنے سے انسان ڈاکڑ انجینئر تو بن جاتا ہے مگر اچھی تربیت نا ہونے سے وہی انسان معاشرے کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ معاشرے کی تباہی کا ایک اہم سبب بزرگوں کی عزت کا رخصت ہوجانا ہے۔ آج کی اس تیز رفتار دنیا میں ہم ٹیکنولوجی کو اس کا قصور وار مانتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہر بدلتے زمانے کے ساتھ نت نئی ایجادات ہوتی رہی ہیں، لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں بڑی تیزی سے بدلنے والی چیزوں میں جو چیز بدلی وہ ہیں *روئیے*۔ جبکہ بدلتے رویوں کا الیکٹرونک میڈیا اور ٹیکنولوجی سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں۔ رویوں کا تعلق تو دراصل ہم ہی سے ہے۔ہم نے جہاں نئی ٹیکنولوجی کو بچوں سے آشنا کروایا وہیں ہماری نئی نسل کو اپنے بزرگ کم عقل لگنے لگے۔ انھیں لگا ہمارے بزرگ تو پرانے زمانے کے لوگ ہیں انھیں بھلا کیا معلوم آج کی دنیا کا قطع نظر اس کے کہ انہیں بزرگوں نے ہمیں ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا ہمیں اس قابل کیا کہ ہم آج کی دنیا کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور نئی ٹیکنولوجی کے شانہ بشانہ چل سکیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بزرگوں نے بھی آج کی نسل کے آگے ہار مان لی، معذرت کے ساتھ خاص طور پر *ماں* نے جو ہر لمحہ بچوں کی غلط طرف داری کرتی ہیں اور اکثر گھر کے بزرگوں کو بچوں سے ڈر کر خاموش کروا دیتی ہیں، اصل میں یہی معاشرے کی تباہی کا اصل سبب ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جہاں ہم بچوں کو نئی ٹیکنولوجی سیکھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں، وہیں ہمیں ان کو بزرگوں کی اہمیت اور انکی کی قربانیوں کا بھی احساس دلانا ہوگا انکو احساس دلانا ہوگا کہ بزرگ ٹیکنولوجی میں نا سہی پر تجربے میں ان سے کہیں زیادہ آگے ہیں۔معاشرے کی تباہی کے ذمےدار دراصل ہم خود ہیں، اسکے لئے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا بچپن ہی سے بچوں کے دل و دماغ میں یہ بات ڈالنا ہوگی کی چاہے کچھ بھی ہو بزرگوں کی عزت اور ادب ہر حال میں کریں، موازنہ کیا جائے تو پرانے وقتوں میں تنگدستی ہونے کے باوجود گھروں میں سکون تھا، کیونکہ گھروں میں والدین اور بزرگوں کی عزت کی جاتی تھی اور اسی وجہ سے گھروں میں برکتیں اترتی تھیں۔ آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زندگیوں میں ہلچل سی ہے۔ غور کیجئے سکون کی کمی کی اصل وجہ بزرگوں کے احترام میں کمی ہے۔ آج معاشرے بزرگوں کی عزت نا ہونے کی جس تباہی کا شکار ہے اگر یہی حال رہا تو مستقبل میں شاید ہمیں بھی کسی *اولڈ ایج ہوم* میں جگہ نا ملے۔بچے چاہے کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں وہ، جتنے بھی بڑے عہدے پر فائز ہوجائیں بزرگوں کا ادب اور عزت کرنا انکی زندگی کا لازمی جز ہونا چاہئے، بزرگ چاہے اپنے گھر کے ہوں یا راہ چلتے مل جائیں، احترام لازم ہے۔ معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لئے ہم سب کو مل کر اس پر کام کرنا ہوگا اور بزرگوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ بزرگوں کی باتوں کو غور سے سننے انکی باتیں حکمت اور دانائی سے بھری ہوتی ہیں۔جاتے جاتے بس ایک بات بزرگ ہمارا سرمایہ ہیں انکی قدر کیجئے انکے لئے دعا کیجئے.
رب الرحم هما كما ربياني صغيرا (القران)
 

Quart.ul.ain Moiz khan
About the Author: Quart.ul.ain Moiz khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.