پاکستانی آم اپنے رنگ خوشبو اور
ذائقے کے لحاظ سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ گرمیوں (مئی، جون) کے موسم میں
آموں کا سیزن شروع ہوتے ہی بازاروں میں جیسے بہار آجاتی ہے۔ پھل فروخت کرنے
والی دکانوں اور ٹھیلوں پر مختلف اقسام کے آم انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجے
ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو بازار سے گزرنے والے ہر شخص کو اپنی جانب متوجہ کرتے
ہیں۔ آم کی ابتدا برما سے ہوئی جس کی کچھ اقسام ملایا میں بھی کاشت کی جاتی
ہیں اسی لیے ملایا کو آم کا بنیادی گھر کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں آم کی کاشت
مغلیہ دور حکومت میں شروع ہوئی۔ ایشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن،
ملائیشیا، سری لنکا، مصر، امریکہ، اسرائیل، فلوریڈا، برازیل اور ویسٹ انڈیز
میں بھی آم کی کاشت کی جاتی ہے، پاکستان میں دیگر پھلوں کی پیداوار دوسرے
نمبر پر ہے، مٹھاس اور بہترین ذائقے کے باعث آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا
جاتا ہے۔ وادی مہران کی خوبصورت سرزمین اور سندھ کا چوتھا بڑا شہر میرپور
خاص اپنی تہذیب‘ ثقافت اور آم کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک منفرد حیثیت
رکھتا ہے۔
میرپور خاص ضلع میں آم مئی کے ابتدائی دنوں میں مارکیٹ میں آجاتا ہے اور
اکتوبر کے آخر تک فروخت ہوتا ہے۔ آموں کی فصل مارکیٹوں میں آنے کے بعد گوشت،
سبزی، اور دیگر پھلوں کا استعمال کم ہو جاتا ہے۔ گھروں میں کچے آم سے تیار
کردہ اچار، چٹنی اور مربے کا استعمال بڑھ جاتا ہے، آموں کی دو سو سے زائد
اقسام ہیں مگر ان میں بیس اقسام کے آم کو تجارتی بنیاد پر کاشت کیا جاتا ہے
اور انہیں برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ آموں کی مشہور اقسام میں
سندھڑی، نیلم، چونسا، انور رٹول، دوسہری، بیگن پھلی، انفانسو، گلاب خاصہ،
زعفران، لنگڑا، سرولی، اور دیسی آم شامل ہیں۔ جن میں سندھڑی آم اپنی مٹھاس‘
خوشبو‘ وزن اور ذائقے کے اعتبار سے آموں کا شہنشاہ کہلاتا ہے۔ سندھڑی آم کی
تاریخ ایک سو سال پرانی ہے۔ جس کی ابتدا 1909ءمیں ہوئی۔ جب انڈیا کے شہر
مدراس سے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سندھڑی آم کے چار عدد پودے
منگوا کر دو پودے سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے والد اور سابقہ
ضلع ناظمہ ڈاکٹر صغریٰ جونیجو کے دادا جناب دین محمد جونیجو کو یے، دو پودے
زمیندار صمد کاجھیلو کو دیے۔ جس کے بعد اس آم کا نام سندھڑی رکھا گیا۔
آم گرمیوں کے موسم کا پھل ہے اور گرم ممالک کی پیداوار ہے۔ آم کے درخت کو
40 ڈگری فارن ہائیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ 370 ایکڑ اراضی پر سندھ ہارٹیکلچر
انسٹی ٹیوٹ میرپور خاص نے مختلف اقسام کے آم پر تحقیق اور پیوند کاری کر کے
125 سے زائد نئی اقسام مارکیٹ میں متعارف کرائی ہیں۔ آم کی دو اقسام ہوتی
ہیں جنہیں قلمی اور دوسرے کو دیسی کہا جاتا ہے قلمی آموں میں بھورا،
سندھڑی، کالا سندھڑی، بنیگن پھلی، دوسہری، الفانسو، ثمر، بہشت، طوطا ہری،
سبز، انور رٹول، چونسہ، دل آرام، سرولی، ثریا، پونی، حبشی سرولی، لنگڑا،
دوسی ولین، کلکٹر، سورانیکا، بادام، نیلم، بھرگڑی، سفید الماس، زہرہ، شام
سندر، سیاہ مائل، زعفران، جبل پوری، جاگیردار شہنشاہ، انمول اور دیگر شامل
ہیں۔ جب کہ دیسی آم میں پتاشہ، لڈو، گلاب جامن، سفید گولا، سبز گولا اور
سندوری وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ میں قلمی آم کے باغات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
قلمی آم دیسی آم کے مقابلے میں بڑے خوبصورت اور ذائقہ دار ہوتے ہیں۔ میر
پور خاص میں آموں کی بہترین پیداوار حاصل کرنے والے کا چیلو فارم، نواز
آباد فارم، اسد جونیجو فارم، بھگیو فارم، گل محمد رند فارم، جاوید جونیجو
فارم، سید عنایت علی شاہ فارم، مصری فارم، گبول فارم، لغاری فارم اور
بھرگڑی فارم شامل ہیں ان فارم کے کاشتکاروں نے زراعت اور آموں کی نئی اقسام
دریافت کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
پاکستان کے تمام حکمران غیر ملکی سربراہاں سفارت کاروں، سیاست دانوں،
افسران اور لوگ اپنے دوست‘ احباب‘ عزیز و اقارب کو سندھڑی آم کا تحفہ ضرور
بھیجتے ہیں، آم جہاں لذیذ اور میٹھا ہوتا ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے اس میں
انسانوں کے لیے صحت کا راز بھی پوشیدہ رکھا ہے۔ آم میں وٹامن اے بی اور سی
کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کیلشیم، آئرن اور پوٹاشیم بھی
پائے جاتے ہیں آم سرطان اور دل کے مریضوں کے لیے بھی مفید جانا جاتا ہے لوگ
اپنے گھروں میں اچار اور مربہ وغیرہ بھی تیار کرتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی
قابل ذکر ہے کہ تحقیقی اداروں و کاشتکاروں کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے
بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور مقامی
مینگو فارم کے مالکان جن میں محمد عمر بھیگو، حاجی خیر محمد بھرگڑی و
عبدالغفور لاشاری نے آموں کے کچھ ایسے درخت کاشت کیے ہیں جو سال میں دو سے
تین بار فصل دیں گی، جس کے بعد آئندہ چند برسوں میں انشائ اللہ پورے سال آم
دستیاب ہو گا ان آموں کی اقسام کو صدا بہار، بارہ ماہی، مہران، بھرگڑی اور
سرخ طوطا پری کے نام دیے گئے ہیں۔
سندھ ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میرپور خاص کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ
ہم نے مہران آم کی قسم دریافت کی ہے جس کے درخت سے سال میں دو مرتبہ پہلے
ماہ فروری جون اور دوسری جون سے نومبر تک آم کی فصل دستیاب ہو گی، یہ ایک
قلمی آم ہے اور اس کا وزن 300 گرام تک ہو گا۔ آموں کی 4 نئی اقسام ابھی
سلیکشن کے آخری مرحلے میں ہیں ہم آموں کے ذائقے معیار اور رنگ کا مشاہدہ کر
رہے ہیں اگر اس کی خاصیت اچھی ہوتی ہے تو اسے کوئی نام دے کر متعارف کرا
دیا جاتا ہے انہوں نے بتایا کہ آموں کی فصل کو تین درجوں میں تقسیم کیا
جاتا ہے پہلے درجے کی فصل 15 اپریل سے 15 مئی تک دوسری 25 مئی سے 25 جون تک
اور آخری ورائٹی یکم جون سے ستمبر کے اختتام تک فصل دیتی ہے اسی طرح
کاشتکار عبدالغفور لاشاری جو آم کے پودوں کی نرسری بھی چلاتے ہیں نے بتایا
کہ 5 سال کی محنت اور تحقیق کے بعد آم کی اقسام سدا بہار اور بارہ ماہی
قلمی آم کی صورت میں دریافت کی ہے اس سے ہر چار ماہ بعد آم کی فصل دستیاب
ہو گی اس وقت سدا بہار آم کے تین درختوں پر پھل لگے ہیں اس کی قلم سے مزید
پودے تیار کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ بڑی تعداد میں پودے لگائے
جائیں اگر حکومت سرپرستی کرے تو سال بھر بڑے پیمانے پر آم دستیاب ہوں گے۔
رئیس خیرمحمد بھرگڑی و معروف کاشتکار عمر بھگیو نے بھی تحقیق اور پیوند
کاری کے بعد آم کی فصل بھرگڑی اور سرخ طوطا پری دریافت کی ہے۔ جس کی فصل
ماہ اکتوبر تک حاصل کی جا سکتی ہے کاشتکار آموں کی مزید اقسام دریافت کرنے
پودوں کی پیوند کاری کے ذریعے تجربات میں مصروف ہیں جس کے بہترین نتائج
حاصل ہو رہے ہیں اگر حکومت کی جانب سے آباد گاروں کی حوصلہ افزائی اور
سرپرستی حاصل ہو تو میرپورخاص ضلع میں آم کی پیداوار پورے سال حاصل کی جا
سکتی ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبہ میں پھلوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے اپنی
افادیت کے علاوہ نمکیات اور وٹامن کی وافر مقدار ہونے کے ساتھ ساتھ غلے سے
زیادہ طاقت فراہم کرتے ہیں بڑھتی آبادی اور عوام کی جانب سے متوازی غذا کی
جانب بڑھتے ہوئے رجحان نے پھلوں کی طلب میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
سندھ اور پنجاب آم کی کاشت کے لیے انتہائی اہم ہیں پاکستان کی آب و ہوا اور
زمین کی زرخیزی پھلوں کی بے شمار اقسام کی پیداوار کے لیے نہایت موزوں ہیں
پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام پھلوں میں ترشاوہ پھلوں کے بعد آم پیداوار
رقبہ اور کاشت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ترشاوہ پھل 192 ہزار ایکٹرز
رقبہ پر کاشت کیے جاتے ہیں اور ان کی پیداوار 2458 ہزار ٹن ہے جب کہ آم 156
ہزار ایکڑز رقبے پر کاشت کیے جاتے ہیں۔ آم کے درختوں کی درست طریقے سے
نگہداشت کھاد کا استعمال اور اسپرے وقت پر بوائی نہیں ہوتی درختوں سے پھل
اتارنے کے بعد نقصانات میں نامناسب طریقہ کار، پکنے سے پہلے ہی پھلوں کا
اتار لینا، معیاری ترسیل کی سہولیات کا فقدان اور پھل ذخیرہ کرنے کی
نامناسب سہولیات وہ عوامل ہیں جو کہ اندرون ملک اور برآمدی منڈیوں میں آم
کی زیادہ سے زیادہ فروخت میں رکاوٹ ہیں دنیا بھر میں آم کی پیداوار میں
ایشیا سرفہرست ہے۔ ایشیا بھر میں 20339 ہزار ٹن آم کی پیداوار ہوتی ہے جو
دنیا بھر کی کل پیداوار کا 77 فیصد ہے۔ 2005 ئ میں دنیا بھر میں آم کی
پیداوار کا تخمینہ 27966 ہزار ٹن لگایا گیا تھا آم کی پیداوار میں بھارت
پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد چائنا تھائی لینڈ اور میکسیکو کا نمبر ہے۔ دنیا
بھر میں 2004-05 میں آم کی برآمد کا کل تخمینہ 908 ہزار ٹن تھا پاکستان،
بھارت، میکسیکو اور برازیل کے بعد آم برآمد کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا
ملک شمار ہوتا ہے۔
خوش ذائقہ ہونے کے باعث پاکستانی آم دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں آم کی پیداوار میں پنجاب کا 67 فیصد حصہ ہے جب کہ سندھ کا حصہ
32 فیصد ہے۔ سندھ میں آم کو درختوں سے اتارنے کا عمل مئی کے آخری ہفتہ سے
شروع ہو کر اگست کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ سندھڑی آم سندھ کی پہچان ہے۔
جب کہ چونسا آم پنجاب میں پیدا ہوتا ہے اور آم کی یہ دونوں اقسام اپنی
بہترین قسم اور برآمدی مارکیٹ میں نمایاں خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ آم
کی فصل تیار ہونے کے بعد اس میں 30 سے 40 فیصد تک نقصانات کا سامنا کرنا
پڑتا ہے اور یہ نقصان بھی ناقص انتظامات کے سبب ہوتے ہیں ایک طرف تو آم کا
بہترین حالت میں رہنے کا عرصہ بہت کم ہوتا ہے دوسری طرف درجہ حرارت بھی 50
ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور پھر پھلوں کی حفاظت کے لیے سرد خانوں کا معقول
انتظام نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔ اندرون ملک مارکیٹوں میں آم وقتی طور پر
دستیاب ہوتا ہے۔ کیونکہ آم ذخیرہ کرنے کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث آم
کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں یا پھر انتہائی کم، بنیادی طور پر آم جلد
خراب ہونے والا پھل ہے۔ اور اس کا شمار خرید کرجلد استعمال کرنے والی اشیا
میں ہوتا ہے۔
آم کی زیادہ سے زیادہ برآمدات کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم سال رواں میں صرف 70
ہزار ٹن تک آم کی برآمد متوقع ہے جب کہ اس کے برعکس گزشتہ سال 8 ممالک کو
ایک لاکھ 20 ہزار ٹن آم برآمد کیا گیا۔ کسانوں نے بھی عدم تعاون پر آموں کی
نئی کاشتکاری ختم کر دی ہے۔ ساتھ ساتھ ایئر لائن اور شپنگ کمپنیوں کی جانب
سے فریٹ چارجز میں مسلسل اضافے کے باعث ایکسپورٹرز نے آم کی برآمدات میں
عدم دلچسپی ظاہر کی ہے کیونکہ فریٹ چارجز میں 20 ڈالر سے بڑھا کر 125 ڈالر
کرنے سے برآمدات میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت اپنے برآمد
کنندگان کو 30 فیصد تک سبسڈی فراہم کرتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں دو سال سے
سبسڈی بند ہے۔ |