ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات
اگر برابری کی بنیاد پر ہوں تو نعمت ہے لیکن اگر یہی تعلقات حاکم اور محکوم
یا حکم اور بجا آوری کی بنیاد پر ہوں تو عذاب بن جاتے ہیں اور کمزور ملک
مزید خستہ حال اور مفلوک الحال ہوتا جاتا ہے۔ یہی حال پاک امریکہ تعلقات کا
ہے۔ اس وقت امریکہ نے پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے اور ہتک پر ہتک
اور مطالبوں پر مطالبوں میں مصروف ہے بلکہ پاکستان پر ہی کیا موقوف وہ پوری
دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے لیکن اسلامی دنیا اور خاص کر پاکستان اس کاہدف
ہیں۔ بش نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو اُسی وقت اُس نے اسے
صلیبی جنگ کہا۔ بعد کی تصحیح ان الفاظ کا مداوا نہیں کرسکتی تھی اور نہ عمل
سے ایسا کرنے کی کوشش کی گئی ۔انتہا پسندی اگر ہے تو سب سے زیادہ اسرئیل
میں ہے بھارت میں بے شمار تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف بر سرِپیکار ہیں یورپ
میں مسلمانوں کے مذہبی فرائض مثلاَ پردہ ہی کو لیجئے پر پابندیاں لگائی
گئیں جبکہ اسکے بر عکس مغربی میڈیا جتنا چیخے چلائے اور مسلمان ممالک خاص
کر پاکستان کو اقلیتوں کے لیے خطرناک قرار دے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ
کوئی عدالتی حکم ،کوئی حکومتی اقدام ایسا نہیں ہے جس کی رو سے وہ اپنا کوئی
مذہبی فریضہ پورا نہ کر سکتے ہوں یہی مغربی میڈیا جو خود کو انتہائی غیر
متعصب کہتا ہے انتہائی متعصب کردار ادا کرتا ہے، خود ہی سروے منعقد کرتا ہے
اور خود ہی نتائج مرتب کرتا ہے اور پوری دنیا میں پھیلا دیتا ہے اور پھر ہم
اسے اپنے ہر چینل سے دکھا دکھا کر اپنے عوام کے ذہن میں راسخ کر دیتے ہیں
دراصل مغربی میڈیا کا 95% حصہ یہودی اور خاص کر صیہو نیوں کے قبضے میں ہے
یوں مغرب مسلمانوں سے کئی گناہ زیادہ بنیاد پرست ہے جبکہ یہی وہ الزام ہے
جسے لے کر وہ افغا نستان کے راستے دراصل پاکستان پر حملہ آور ہے۔کہنے کو تو
امریکی فوج افغا نستان میں ہے لیکن اس کے اعلیٰ فوجی حکام اتنے ہی پاکستان
میں بھی پائے جاتے ہیں جتنے وہاں اور یہاں وہ صرف مطالبات لے کر آتے ہیں
لہٰذا حکومت سے درخواست ہے کہ کم از کم اس آمدورفت اور میل ملاقات کو محدود
کر دیا جائے۔ اس کے جتنے جاسوس حکومت اور آئی ایس آئی کے علم میں ہیں ان کو
واپس بھیج دیا جائے اور جو حکومت کے علم میں نہیں ہیں ان کا سراغ لگا یا
جائے۔ اس وقت پاکستان کو کچھ کڑوے گھونٹ پینے ہو نگے کیو نکہ پاکستان کی سا
لمیت اور اس کا وجود امریکی خواہشات سے زیادہ اہم ہے ۔یہ سوچنا کہ امریکہ
ہمارے ساتھ ہماری خدمات کے صلے میں رعایت کر رہا ہے نری حماقت ہے امریکہ
صرف ایک وجہ سے پیچھے ہے اور وہ ہے پاکستان کی ایٹمی قوت ابھی تک صرف ایٹمی
جنگ کے خدشے نے اسے محدود رکھا ہے رکا ہوا امریکہ اب بھی نہیں ہے۔ روزانہ
ڈرون حملے امریکی جارحیت ہی ہے جو ائیر چیف کے بیان کہ ہم ڈرون گرا سکتے
ہیں حکومت حکم دے کے باوجود جا ری ہیں۔ اس وقت یہ سمجھنا کہ ہم حالت جنگ
میں نہیں ہیں یا صرف طالبان ہمارے خلاف برسرپیکار ہیں بالکل غلط ہے سچ یہ
ہے کہ ہم کئی محاذوں پر بر سر پیکار ہیں اور ہر محاذ کا سرا امریکہ سے
ملتاہے بھارت اسرائیل اور نیٹو تو امریکی کارندے ہیں ہی اور پاکستان کے
خلاف اس جنگ میں امریکہ کے ہی دست راست ہیں لیکن دوسری طرف اُس کے جاسوس
اور دہشت گرد بھی ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں یہ سوچنا کہ غیر ملکی این جی اوز
کی نیندیں ہماری وجہ سے اڑی ہوئی ہیں اور وہ ہماری خدمت کے لیے ہی اس دنیا
میں جی رہے ہیں ایک اور دھوکہ ہے انہی این جی اوز میں خدمتگاروں کے روپ میں
ہمارے یہ دشمن ہمارے گھر میں بیٹھے اپنی حکومت کے لئے خدمات سرانجام دے رہے
ہیں اور ہم اُن کے ممنون ہو رہے ہیں یہی لوگ بڑی آسانی سے ہمارے لوگوں کو
خریدتے ہیں اور انہیں ہمارے خلاف ہی استعمال کر لیتے ہیں اور اِن لوگوں کی
غربت امریکہ کے لیے ایسا کرنے میں آسانی مہیا کر دیتی ہے امریکہ کسی ایک
محاذ پر ہم سے بر سر پیکار نہیں آج کل کی تازہ جنگ جو چھیڑی گئی ہے وہ پاک
فوج کے خلاف ہے اب جب آئی ایس آئی نے اپنے ہی پانچ شہریوں کو اسامہ کے بارے
میں امریکہ کے لیے مخبری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے تو امریکہ کو
اعتراض ہے امریکہ سے یہ پوچھا جائے کہ اپنا شہری جاسوس تو وہ چھڑا لے گئے
اب ہمارے معاملے میں مداخلت کا حق اُسے کس نے دیا ہے ابھی تو صرف اس کے کچھ
جاسوس گرفتار ہوئے ہیں کچھ اس کے اور کچھ ہمارے اپنے شہری ، ابھی تو دیکھنا
یہ ہے کہ اسکے مزید کتنے جاسوس پکڑے جاتے ہیں امریکہ حالات کو مسلسل خراب
کر رہا ہے اور اس نہج پر لانے کی پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ پاکستان پر
حملہ کرنے کا جواز ڈھونڈ سکے۔ ظاہر ہے کہ طاقت میں ہم امریکہ کا مقابلہ
نہیں کرسکتے کیونکہ اُس نے ہر زہر اپنے پاس جمع کر رکھا ہے تاکہ وہ اسے
دنیا کے کسی بھی ملک میں بسنے والے انسانوں کو دے کر اُن کی زمین پر قبضہ
کر سکے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس صرف ایک چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ امریکہ پر
واضح کر دے کہ اگر اس کے اوپر جنگ مسلط کی گئی تو پھر ایٹمی جنگ کو روکنا
اس کے لیے نا ممکن ہو جائے گا کیونکہ صرف یہی ایک قوت ہے جس نے ابھی تک
ہمیں دشمن کی کاری ضرب سے محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے
میزائل امریکہ تک ما ر نہیں کر سکتے لیکن یہ جنگ شا ید پھر دو ملکوں تک
محدود نہ رہے ۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت پاکستان کو سیا سی جوڑ توڑ سے فرصت پا
کر اپنی سفارتی جنگ پر بھی توجہ دینی چاہیے خاص کر اسلامی ملکوں کو یہ
احساس دلانا چاہیے کہ پاکستان کی سلامتی مسلم امہ کی طاقت کی سلامتی ہے
جتنا مضبوط کردار پاکستان نے عرب اسرائیل تنازعے میں ہمیشہ ادا کیا ہے ہم
بھی اُتنی ہی توقع رکھتے ہیں۔ چین کے ساتھ اپنے رابطوں کو مزید مضبوط کر نا
بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بیرونی اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنے اہم لوگوں کے
رابطوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور آئی ایس آئی اور فوج کو مسلسل تنقید کا
نشانہ بنانے والوں سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ اپنے اداروں کے خلاف یہ جنگ
لڑتے ہوئے بھارتی سفارت خانے میں حاضری چہ معنی دارد کیا وہا ںفیڈ ہونے کے
لیے جایا جاتا ہے یافیڈ بیک دینے کے لیے۔
ہمیں ایک چو مکھی لڑائی لڑنی ہے اور زور و شور سے لڑنی ہے کیونکہ یہ ہماری
بقا کی جنگ ہے اور بقا اور فنا کی اس جنگ میں اپنے ذاتی مفاد کو نہ صرف
پیچھے رکھ کر بلکہ دور پھینک کر ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہے کیونکہ یہی
آخری چارہ کار ہے جو ہمیں کامیابی اور بقا کی طرف لے جا سکتی ہے ہم نے عراق
، افغانستان اور پاکستان کا فرق خود بھی سمجھنا ہے اور امریکہ کو بھی
سمجھانا ہے ۔غزوہ تبوک کی طرح بغیر لڑے یا بدر کی طرح لڑ کر اپنے قوت
ایمانی اور غرور ملی کو ثابت کرنے کا اس سے بڑا موقع دوسرا نہیں ہوگا۔ |