موت کی چار دن پہلے پیش گوئی، وائرلیس ہارٹ ریڈار سسٹم تیار

image
 
طبی شعبے کے جرمن محققین فالج یا دل کے دورے کے پیشگی انتباہ کے لیے ایک وائر لیس ریڈار سسٹم کا استعمال کر رہے ہیں، جو چار روز پہلے ہی موت کے وقت کی پیشگوئی بھی کر دیتا ہے۔
 
 ''اگر پانی کے جہاز کے مقام کا تعین، ہوائی جہاز کی اونچائی کا اندازہ اور ہائی وے پر تیز رفتاری سے دوڑنے والی گاڑیوں کو پکڑنے کے لیے ریڈار کا استعمال کیا جا سکتا ہے تو یقیناً اس ٹیکنالوجی کو میڈیکل کے شعبے میں بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔‘‘ انتہائی سادہ مگر متاثر کُن انداز میں ان خیالات کا اظہار کیا جرمن شہر ہیمبرگ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر الیگزانڈر کؤلپن نے۔ وہ کہتے ہیں،''ریڈیو سینسرز طبی معائنے کو زیادہ سے زیادہ آسان، محفوظ اور زیادہ موثر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
 
جرمن پروفیسر نے ایک دلچسپ مثال دیتے ہوئے کہا کہ گرچہ طبی مقاصد کے لیے ریڈار کے استعمال کا خیال کوئی نیا نہیں۔ انسانوں کی سانس لینے اور دل کی دھڑکن کا پتا لگانے کے علاوہ زندہ دفن کیے جانے والے افراد کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے ریڈار ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
 
جرمن محقق الیگزانڈر کؤلپن اور ان کی ٹیم یورپ بھر میں وہ پہلے محققین ہیں، جنہوں نے ایسا ریڈار سسٹم ایجاد کیا جسے طبی معائنے کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
 
ہائی فریکوینسی ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ میں ان کی ٹیم نے انتہائی حساس سینسرز تیار کیے ہیں۔ ان سے مریضوں کی دل کی دھڑکن اور سانس دونوں کا مسلسل تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
 
image
 
وائرلس کے بغیر 'وائٹلز‘ کی جانچ
روایتی الیکٹرو کاڈیو گرام (ای سی جی( کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن کا تعین الیکٹروڈز اور کیبلز کی مدد سے کیا جاتا ہے۔یہ مریضوں کا معائنہ کرنے والے آلات سے جُڑے ہوتے ہیں۔ ریڈار ٹیکنالوجی کے ساتھ مانیٹرنگ ریموٹ اور بغیر کسی رابطے کے ممکن ہوتی ہے۔
 
 پروفیسر الیگزانڈر کؤلپن مزید بتاتے ہیں،''ہمارے سینسرز برقی مقناطیسی لہروں کا اخراج کرتے ہیں، اس سے جسم میں ریفلیکشن پیدا ہوتی ہے۔ یعنی شریانوں میں بہنے والا خون پلس یا لہروں کی طرح گردش کرتا ہے، جو وائبریشن کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ہم سینسر سے اس کی پیمائش کرتے ہیں اور اس طرح قلبی نظام کے مختلف طبی پہلوؤں کا تعین کرتے ہیں۔‘‘
 
نوزائیدہ بچوں میں مرگی کی تشخیص
فی الحال اس تحقیقی منصوبے کی تمام تر توجہ بچوں کی طبی نگرانی پر مرکوز ہے۔ اس جرمن پروفیسر کا کہنا ہے،''ہم بنیادی طور پر مرگی کے دوروں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ مرگی جس کے پائے جانے کا پتا نہیں ہوتا لیکن یہ بچوں میں ہونے والی بیس فیصد اچانک اموات کی ذمہ دار ہوتی ہے۔‘‘ پروفیسر کؤلپن کہتے ہیں کہ نو زائیدہ بچوں میں مرگی کی تشخیص نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بچوں میں دماغی سطح میں تبدیلی ظاہر نہیں ہو سکتی۔ ان کے برین کی موٹر ابھی پوری طرح شعوری تبدیلی کی سطح کو نہیں پہنچی ہوتی ہے۔‘‘ سینسرز کے استعمال سے بچوں کی نقل و حرکت کو محدود کیے بغیر دور سے بھی ان کی نگرانی کی جا سکتی ہے اور فٹس یا مرگی کے دورے پڑنے کا پتا لگایا جا سکتا اور اس طرح اس کا بروقت علاج بھی ہو سکتا ہے۔
 
کووڈ انیس اور ریڈار ٹیکنالوجی
کووڈ انیس کے مریضوں کے لیے بھی ریڈار ٹیکنالوجی کا استعمال مفید ثابت ہوا ہے۔ پروفیسر کؤلپن کورونا وبا کے دور میں اس موضوع پر کی جانے والی ایک تحقیق میں بھی شامل رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''دل اور سانس کی حرکت کی پیمائش کے ساتھ ساتھ ہم دور سے درجہ حرارت کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ریڈار کے ذریعے کورونا وائرس کے کسی مریض میں انفیکشن کی شدت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور وہ بھی میڈیکل اسٹاف کے مریض کے ساتھ براہ راست رابطے کے بغیر۔ اس طرح طبی عملے کے اراکین انفیکشن سے محفوظ رہتے ہیں اور کووڈ انیس کے مریض کا معائنہ بھی ہو جاتا ہے۔
 
image
 
 موت کی پیشگوئی ممکن
اس نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے جو ہارٹ ریڈار سسٹم تیار کیا گیا ہے، اسے اب تک جرمن صوبے باویریا کے شہرارلانگن میں قائم خواتین کے ایک ہسپتال کے 'پیلی ئیٹو کیئر وارڈ‘( palliative) یا مریض کو موت سے پہلے سکون فراہم کرنے کے وارڈ میں استعمال کیا گیا ہے۔ ہارٹ ریڈار سسٹم اب موت سے چار دن پہلے یہ معلوم کر لیتا ہے کہ موت کس وقت آنے کو ہے۔
 
اس طرح مریضوں اور ان کے لواحقین کو پتا چل جاتا ہے کہ الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے۔
 
Partner Content: DW Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: