کیوں کہہ گئی الوداع عائشہ !

‎پچھلے چار روز سے ایک دل و جان کو جھنجھوڑ دینے والی وڈیو پورے سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے اس پر پڑنے والی پہلی ہی نظر نے بری طرح سے چونکنے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ اور بےاختیار ذہن میں ایک پرانی یاد نئے سرے سے تازہ ہو گئی دونوں ہی واقعات میں ایک گونہ مماثلت پائی جاتی ہے ۔ پچھلے سال ماہ فروری کی 3 تاریخ کو ایک وڈیو منظر عام پر آئی تھی جو کہ ایک پاکستانی نوجوان صدام خان نے دوبئی میں اپنی خودکشی سے پندرہ منٹ قبل بنائی تھی ۔ شہر کی رونقوں سے دور کسی مضافاتی ویران مقام پر کھڑے وڈیو پیغام جاری کرتے اس بدنصیب محنت کش نوجوان کی بھی وہی کہانی تھی جو اپنوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہر مظلوم اور مجبور پردیسی کی ہوتی ہے ۔ جو اپنوں کو ایک خوشحال زندگی دینے کی خاطر پردیسوں کی خاک چھانتے ہیں سعودیہ اور امارات کے ریگزاروں میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں ۔ پیٹ بھر کر کھانا تک نہیں کھاتے نا ڈھنگ کے کپڑے پہنتے ہیں مشقتیں اذیتیں اور ذلتیں جھیل کر طرح طرح سے اپنے من کو مار کر اپنا آپ کچل کر اپنے گھر والوں کے مطالبات اور فرمائشیں پوری کرتے ہیں مگر وہ پھر بھی راضی نہیں ہوتے ان کی شکایات اور شکوک و شبہات ختم نہیں ہوتے ۔ تباہ حال شدت غم سے چور صدام خان نے اسی صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی زندگی ختم کر لی ۔

اور پورے ایک سال بعد گزشتہ فروری کی 28 تاریخ کو ایسی ہی ایک ہولناک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جو ایک بھارتی لڑکی عائشہ عارف نے 25 تاریخ کو سابرمتی ندی کے کنارے کھڑی اپنی خودکشی سے قبل بنائی ۔ نوجوان ہنس مکھ سی محض تئیس سالہ عائشہ عارف کی آنکھیں پرنم تھیں اور لب متبسم ۔ وہ بات کرتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو روکنے اپنے درد کو چھپانے اور خوب کھل کر مسکرانے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے ۔ اور اس کی وہی کہانی ہے جو آج پورے برصغیر پاک و ہند کی نوے فیصد بیاہتا و باکرہ لڑکیوں کی ہے یعنی جیہز کی وجہ سے شادی نہ ہونا اور شادی کے بعد کم جہیز کے طعنے ملنا ۔ اور کم جہیز کی وجہ سے لڑکیوں کو جلا کر یا کسی بھی طریقے سے انہیں جان سے مار دینے کے واقعات بھارت میں تواتر سے پیش آتے رہے ہیں ۔ اور عائشہ کو اتنا ستایا گیا کہ وہ اپنی جان خود اپنے ہاتھوں لینے پر مجبور ہو گئی ۔ اس بچی کی ڈھائی برس قبل اپنے ایک کزن عارف سے مرضی پسند اور دونوں خاندانوں کی بھرپور رضامندی سے شادی ہوئی تھی ۔ بچی کو اس کے سفیدپوش باپ نے اپنی بساط سے کچھ بڑھ کر ہی گھریلو سامان و اسباب دیا تھا مگر شادی کے دو چار ماہ بعد ہی سسرال والوں کے طعن و تشنیع اور رقوم کے تقاضے شروع ہو گئے تھے جو کہ مجبور باپ کسی طرح پورے بھی کرتا رہا مگر اس کے باوجود بچی سے بدسلوکی اور پھر مار پیٹ کا بھی سلسلہ جاری رہا ۔ حتیٰ کہ اس تشدد کے نتیجے میں اس کا ایک حمل بھی ضائع ہو گیا اور انہی وجوہات کی بناء پر عدالت میں مقدمہ بھی چل رہا تھا ۔ ایک بات جو سانحے کے پہلے روز ہی سامنے آ گئی تھی اور اب اس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے وہی ایک روایتی مثلث والی کہانی کہ عشق کسی سے اور شادی کسی اور سے ۔ عارف کے بھی کسی لڑکی سے مراسم تھے مگر اس نے شادی عائشہ سے کی اور اس دوسری لڑکی سے بھی بدستور رابطے میں رہا اور معاشقہ لڑاتا رہا اور ساتھ ہی عائشہ کو ذہنی و جسمانی دونوں طرح کے تشدد کا نشانہ بناتا رہا ۔ اسے گھر بھی بٹھا دیا مگر عائشہ اس کی محبت کو دل سے نہیں نکال سکی وہ اسی کے ساتھ اپنا گھر بسانا چاہتی تھی اور اس کے بغیر مر جانے کی بات کی تو عارف اس کی التجا کو کسی خاطر میں نہیں لایا بلکہ اسے اکسایا کہ وہ بیشک مر جائے مگر مرنے سے پہلے ایک وڈیو ضرور بنائے تاکہ اس کی گردن پھنسنے سے بچ جائے ۔
‎پھر عائشہ نے ایسا ہی کیا اس کے بعد اس کی اپنے ماں باپ سے بات چیت کی جو آڈیو ٹیپ ہے وہ اس وڈیو سے بھی زیادہ دلدوز و دردناک ہے کلیجہ چیر دینے والی ہے اسے سن کر اپنے آنسو ضبط کرنا کوئی آسان بات نہیں ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عارف گرفتار ہو چکا ہے بلاشبہ وہ عائشہ کی خودکشی کا براہ راست ذمہ دار ہے اور اس کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں یہ گرفتاری اسی بناء پر عمل میں آ سکی ۔ اب مقدمہ چلے گا فیصلہ جو بھی ہو عائشہ تو واپس نہیں آ سکے گی مگر شاید کہ اس کی قربانی سے آئندہ اس قسم کے اندوہناک واقعات کی روک تھام کے لیے کچھ مؤثر اور ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جا سکیں ۔

عائشہ کے اس اقدام پر افسوس تو بہت ہے مگر اس کی تائید کسی طور نہیں کی جا سکتی ابھی اس کے جانے کے نہیں بہت جینے کے دن تھے اس نے دل ہارنے کے بعد ہمت ہار جانے میں بھی بہت جلدی کی ۔ ایک مصدقہ لالچی خود غرض اور دغاباز شخص کی خاطر اپنے ماں باپ کی گود اجاڑ دی ۔ اس سے ان کی بےبسی اور ذلت سہی نہیں جا رہی تھی وہ تعلیم یافتہ تھی نوکری بھی کر رہی تھی ایسے گھٹیا ، غریب سسرال کے مال کے بھوکے شخص پر لعنت بھیج کر خود کو اور اپنے والدین کو اس اذیت سے آزاد کرتی نا کہ انہیں زندگی بھر کا صدمہ دے گئی ۔ عائشہ لڑنے کے لیے نہیں بنی تھی وہ ڈوب کر مرنے کے لیے بھی تو نہیں بنی تھی ۔ خودکشی مسائل کا حل نہیں ہوتا سب سے پہلے تو اس بات کا یقین ہونا چاہیئے کہ زندگی بہت قیمتی ہوتی ہے صرف ایکبار ملتی ہے ۔ مسائل ہوں تو انہیں سامنے لایا جائے اپنے حق کے لیے لڑا جائے پھر بھی بات نہ بنے تو راستے الگ کر لیے جائیں اس کے لیے ضروری ہے کہ طلاق کو گالی یا گناہ سمجھنے کے رجحان کا خاتمہ کیا جائے ۔ اور جو آپ کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے آپ بھی اسے زندہ رہ کر دکھایئے خود کو دو کوڑی کا کر کے اسے اس کے اہم ہونے کا احساس دلانے کے شوق پر قابو پانا سیکھئے ۔ ظلم و زیادتی کو سہتے چلے جانا یا ایک نام نہاد لنگڑے لولے رشتے کو نبھاتے گھسیٹتے چلے جانا کوئی خوبی یا ثواب کا کام نہیں ہے یہ صرف اپنی مجبوریوں کمزوریوں اور کوئی چارا موجود نہ ہونے کا ثبوت ہوتا ہے ۔ کسی بھی غیر ذمہ دار اور خود غرض شخص سے اندھی محبت کا پھل آپ کو ہمیشہ دھوکے اور ناقدری اور بےاعتنائی ہی کی شکل میں ملے گا ۔ پیار ہو یا ایثار اگر اس کا ٹھیکہ کسی ایک ہی فریق نے اٹھا رکھا ہو تو دوسری طرف سوائے بے حسی اور مطلب پرستی کے اور کچھ نہیں ہوتا ۔ عائشہ کی جان اتنی سستی تو نہ تھی مگر وہ کچھ سستے اور ندیدے لوگوں پر قربان ہو گئی ۔ اپنے فرض سے بےنیاز دھوکے باز اور شرم و غیرت سے عاری اس کا بھکاری خاوند ہرگز بھی عائشہ کی محبت اور رفاقت کے لائق نہیں تھا ۔ اس کے غریب باپ سے رقمیں بٹورتے ہوئے ڈوب کے تو اسے مرنا چاہیئے تھا مگر مرنا عائشہ کو پڑا ۔ مگر وہ جاتے جاتے بھی پورے سماج کو پانی پانی کر گئی ہے ۔ اللہ اس مظلوم بچی کی مغفرت فرمائے اور اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔

 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.