جدید افسانہ نگاروں میں نغمانہ شیخ کا مقام

جدید افسانہ نگاروں میں نغمانہ شیخ کا مقام
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
٭
نغمانہ شیخ کافی عرصہ سے افسانے لکھ رہی ہیں جو اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہے ہیں۔تا ہم ان کے افسانوں کا مجموعہ ”دھوپ میں جلتے خواب“ کے منصہ شہودپر آجانے کے بعد مہر ثبت ہوچکی کہ نغمانہ اردو ادب کی ایک معتبر افسان نگار ہیں۔ میں نے ان کے افسانے پڑھے اور وسوخ سے کہہ سکتا ہوں کہ نغمانہ کی سوچ و فکر میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد معاشرہ میں جس قسم کی واردادیں دیکھتی اور محسوس کرتی ہیں انہیں خوبصورت انداز سے قرطاس پر منتقل کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ایک حساس دل رکھنے والا، حالات اور واقعات کو حساسیت کے ترازوں میں تولنے والا ایک اچھا کہانی کار، ناول نگار، افسانہ نگار، منظرنامہ نگار ہوتا ہے۔نغمانہ میں یہ انفرادیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ نغمانہ کی کہانیاں جاندار ہوتی ہیں، انہیں کرداروں سے وہ ادا کروانا آتا ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے، وہ منظر نگاری کرتے ہوئے الفاظ کے تانے بانے حسین انداز سے بنتی ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں متعدد اچھے افسانے اپنے پڑھنے والوں کو دے سکیں گی۔
نغمانہ کے افسانوں میں انفرادیت ہے، جدت ہے، اچھوتا پن ہے۔ قاری کے لیے دلچسپی کا سامان ہے، بے ساختگی اوروہ سبق لیے ہوئے ہیں، افسانوں کے کردار اپنی اپنی جگہ متعین کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا ہر افسانہ مختلف موضوع لیے ہوئے ہوتا ہے۔ کہانی اور کردار، ماحول، حالات اور واقعات کا حسین امتزاج ہے، بات سے بات،واقعہ سے دوسرا واقعہ،کڑی سے کڑی، کہانی سے کہانی سامنے آتی چلی جاتی ہے۔ان کا اسلوب سادہ، جملوں میں بے ساختگی، فکر، خیال اور مثبت پیغام کا مربوط اظہار کرتی ہیں، وہ اپنی بات احسن طریقے سے قاری تک پہنچانے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ یہی کسی بھی افسانہ نگار کی اہم خوبی ہوتی ہے۔ افسانہ کیوں کہ کہانی کہنے کا فن ہے، معاشرہ اور کہانی باہم مربوط ہیں، چاہے قدیم نام کہانی کہا جائے یا نئے نام افسانہ یا افسانچہ کہا جائے۔نغمانہ میں کہانی کہنے کی حسساسیت ا ور صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور وہ ایک اچھی کہانی کار ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے افسانہ نگاری کے بنیادی ماخذ پر پورا اترتے ہیں۔
نغمانہ شیخ کے افسانے معاشرتی و سماجی موضوعات کا بھی احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے افسانہ نگاری میں جواساسی فکر کارفرما محسوس ہوتی ہے وہ دراصل انسانیت سے محبت اوراحساسات کا جذبہ ہے۔ اَن کے افسانوں میں ہمیں حرص و ہوس، بے ایمانی، ظلم و ستم اور جوڑ توڑ کی صورتحال پر دو ٹوک اظہار خیال ملتا ہے۔اردو افسانہ نگاروں ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اردو ادب کی اس صنف میں اپنا اپنا حصہ خوبصورتی سے ڈالاہے۔ جدید افسانہ نگاروں کی فہرست میں نغمانہ شیخ بجا طور پر اس فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز پاچکی ہیں۔
نغمانہ شیخ کو افسانہ نگاری کا فن آتا ہے۔ وہ افسانہ کی کاری گری، کہانی، پلاٹ اور کرداروں سے بخوبی واقف ہیں۔ادبی جریدے ”سیپ“ کی افسانہ نگار ہیں، نغمانہ کے افسانوں سے جرات مندی کا اظہار ہوتا ہے، ان کی تحریر میں طنزکاتڑکہ بھی ہے، دکھ، درد اور ان کا مداوا بھی، بے اطمینانی بھی، انصاف کی قدر بھی اور جذبات کی افزودگی بھی ہے۔نغمانہ شیخ نے اپنے بیشتر افسانوں کی بنیاد کرداروں اور ان کی نفسیات پر رکھی ہے۔نغمانہ شیخ کو بلاشبہ جرأت ِ اظہار کی افسانہ نگار ہیں۔ وہ اپنے موضوع کا سچائی سے مطالعہ کرتی ہیں اس پر خوب غور وفکر کرنے کے بعد اسے افسانہ کا روپ دیتیں ہیں۔ان کے افسانے سخن سازی اور اسلوب ِبیان کے اعتبار سے عمدہ افسانے ہیں وہ ایسے ہلکے پھلکے موضوعات کے ساتھ
مشکل موضوعات کو بھی اپنا موضوع بناتی ہیں۔نغمانہ شیخ کے افسانے معاشرتی و سماجی موضوعات کا بھی احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے افسانہ نگاری میں جواساسی فکر کارفرما ہے وہ دراصل انسانیت سے محبت اوراحساسات کا جذبہ ہے۔ اَن کے افسانوں میں ہمیں حرص و ہوس، بے ایمانی، ظلم و ستم اور جوڑ توڑ کی صورتحال پر دو ٹوک اظہار خیال ملتا ہے۔اردو افسانہ نگاروں ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اردو ادب کی اس صنف میں اپنا اپنا حصہ خوبصورتی سے ڈالاہے۔ جدید افسانہ نگاروں کی فہرست میں نغمانہ شیخ بجا طور پر اس فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز پاچکی ہیں۔
نغمانہ کے چند افسانوں میں ان کا ایک افسانہ ’کڑوا گھونٹ‘ ہے جس کا آغاز ہی ایک خاتون کی تیسری بار طلاق سے ہوتا ہے۔ جس میں نادیہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ میکے چلی جاتی ہے،عدت پوری ہونے کے بعد وہ ایک رسالے میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ نوکری اسے چھوڑنا پڑی، دوسری جگہ جاب بھی مل گئی، اسی دوران اس کا شوہر نرمی کا مظاہرہ کرتا ہے یہاں تک کہ دونوں پھر سے ایک ہوجانے پر اتفاق کرتے ہیں، نادیہ کوئی فتوہ لے آتی ہے، والدین کی ناراضگی پر وہ اطمینان سے بھر پور لہجے میں خود کلامی کرتے ہوئے بولی کہ”جب زندہ رہنے کے لیے حرام کاری کرنی ہی پڑے تو کیوں نہ عزت کے ساتھ ”حرام زندگی“ گزاری جائے“۔
افسانہ ”تنہائی“ میاں بیوی کے جھگڑے سے شروع ہوتا ہے، شوہر گھر چھوڑ کر باہر نکل جاتا، رات کی تاریکی اور اندھیرا،دور جاکر سنسان جگہ کسی دوسری عورت سے ٹکراؤہوجاتا ہے اور دونوں ساتھ چلنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خاتون سہیل کو اپنے گھر چلنے کی دعوت دیتی ہے وہ اس کے گھر بھی چلا جاتا ہے۔ عورت کا معاملہ بھی خوب تھا، شوہر ملک سے باہر، بچے ہاسٹل میں، دولت کی فراوانی، عالی شان گھر لیکن تنہائی سے وہ عورت پریشان، دونوں رات میں باتیں کرتے کرتے وہ کچھ کرگزرے جو نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن عورت اپنے کیے پر سہیل سے کہتی ہے کہ ’کوئی بات نہیں مگر میں خوش ہوں کہ ایک رات ہی سہی میں تنہا نہیں تھی میری وحشتوں کو سکون مل گیا‘۔ صبح ہوتے ہی سہیل کچھ بتاتا اس عورت نے سہیل کو اپنے گھر سے چلے جانے کے لیے کہا اور سہیل نے خاموشی سے اپنی راہ لی۔
افسانہ ”ونڈو شاپنگ‘‘ میں افسانہ نگار نے ایک کردار رشید سے زندگی کے بارے میں خوبصورت بات کہلوائی۔ رشید کہتا ہے”زندگی کو ٹھرے ہوئے پانی کی طرح مت گزارو کہ ٹھرا ہوا پانی سڑ جاتا ہے جس کو نہ تو پیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے ہاتھ منہ دھویا جاسکتا ہے۔ زندگی ارتقاء کا نام ہے اپنی بقا کا نام ہے ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے“۔
اسی طرح افسانہ ”انتہائے محبت“ دو محبت کرنے والوں وقاص اور حنا کی کہانی ہے جس میں وقاص نہ صرف حنا سے بے انتہا محبت کرتا ہے خاص طور پر اس کے لمبے بالوں کا عاشق ہوتا ہے۔ زندگی خوشگوار تھی، اللہ نے تین بیٹے عطا کیے تھے، گھر میں تین بہوؤں کاخوشگوار اضافہ ہوگیا تھا۔ گھر کے خوشگوار ماحول کو اچانک چھٹکا لگتا ہے اور ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں وقاص کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ افسانہ کا اختتام حنا کے اس جملے پر ہوتا ہے جس میں حنا اپنی ہیجانی کیفیت پر قابو پاکر دانت پیستے ہوئے کہتی ہے کہ ”میں نے یہی تو کہا ہے نا کہ مجھے اپنے بال کٹوانے ہیں کونکہ یہ مجھے وقاص کی جدائی کی طرح چھبتے ہیں“۔مختصر یہ کہ نغمانہ شیخ کے افسانے انسانی معاشرہ کی چھوٹی بڑی، اچھی اور منفی کہانیوں کے گردہی گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں عورت کی مظلومیت اور کہیں مرد کی زیادتی افسانہ کی اصل روح قرار پاتا ہے۔ (6فروری2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436534 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More