*شناخت دلبر*
*قسط 2*
ثنا نے حیرانگی سے انعم کی طرف دیکھا " بتاؤ نہ ثنا کیسی ہوں میں؟ بد کردار
ہوں کیا؟"
"نہیں میری جان! تم تو بہت اچھی لڑکی ہو ایک با کردار تم سے کس نے کہا تم
بد کردار ہو"
" نہیں تم جھوٹ بول رہی ہو وہ مجھے ابھی کہہ کر گئی ہے کہ میں اچھی لڑکی
نہیں ہوں" پھر انعم نے ساری بات بتا دی
"یار تمہیں سدرہ کا نہیں پتہ پورے کالج میں اس کی بدتمیز زبان مشہور ہے وہ
تو teachersکے ساتھ اتنی بد تمیزی کر جاتی ہے تم پریشان مت ہو وہ کونسا
کوئیprocter ہے"
" وہ کہہ رہی تھی میم زاہرہ کو بلانے جا رہی ہے"
ثنا کی انعم کی معصوم شکل دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئی
" تم ہنس رہی ہو؟"
" my dear cute friend
وہ خود میم زاہرہ سے اتنا ڈرتی ہے اور تمہارے لیے بلائے گی وہ بس خوامخواہ
ہر ایک کو تنگ کرتی ہے تم بے فکر رہواٹھو کنٹین چلتے ہیں"
"میرا نہیں دل کچھ کھانے کو تم جاؤ"
ثنا اٹھی ہاتھ پکڑ کے انعم کو اٹھایا اور ساتھ لیے چل دی
" میں بول رہی ہوں کہ میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ثنا نے بات کاٹی اور بولی" چپ کر کے چلو"
پھر وہ کنٹین چلیں گئیں انعم اب پریشان نہیں تھی اس کی دوست نے اس کا موڈ
ٹھیک کر دیا تھا
وقتی طور پر اس کا موڈ ٹھیک ہو گیا لیکن ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا
جب و گھر گئ تو کمرے میں جا کر سو گئی نہ uniform change کیا اور نہ ہی
socks وغیرہ۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی جب اس کی آنکھ کھلی اٹھ کر change
کیا اور بیٹھ گئی
اندر عجیب طرح کی بے سکونی چھائی ہوئی تھی" اتنی بات ہے تو نہیں جو میں
اتنا پریشان ہو گئی ہوں" وہ سوچنے لگی اور بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر ٹانگیں
سیدھی کیں۔ اتنے میں دروازے پر knock ہوا" آجائیں" جب دیکھا تو امی جان
ہاتھ میں دودھ کا گلاس لیے اندر آرہیں تھیں
" کیا ہوا میری بیٹی آج اتنا تھک گئی؟"
" جی امی جان ! کالج میں ہی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی"
" کیا ہوا؟" امی جان متفکر ہوئیں
انعم اپنی جان کو اتنا متفکر پا کر مسکرا دی " ذیادہ نہیں امی جان بس سر
میں pain تھی rest کیا ہے تو اب ٹھیک ہوں"
" ٹھیک ہے بیٹا جی یہ دودھ کا گلاس پی لیں بہتر feel کریں گی میں چلتی ہوں
تمہارے پاپا آنے والے ہوں گے ان کے لیے چائے بناؤں"
نعیمہ بیگم بولیں اور کیچن میں چلی گئیں
انعم نے دودھ پیا اور دوبارہ سوچنے لگ گئی" کیا میری سوچیں غلط ہیں؟ یا کام
غلط ہیں ؟ میں ایک ہمسفر کے آنے کے خواب ہی تو دیکھتی ہوں یہ غلط ہے کیا؟
میں تو کسی لڑکے سے بات بھی نہیں کرتی صرف ایک سوچ ہی ہوتی ہے کیا میں نہ
سوچا کروں؟ میں سوچنے سے بد کردار بن رہی ہوں؟ ٹھیک ہے میں آئندہ سے ایسا
کچھ بھی نہیں سوچوں گی۔ میں ایک با کردار لڑکی ہوں"
وہ سوچ ہی رہی تھی کہ عشاء کی آذان کی آواز آنے لگی
" میں آج سے نئے عزم کا آغاز کرتی ہوں" وہ اٹھی اس کے کانوں سے آواز ٹکرائی
*
*اللہ اکبر اللہ اکبر*
اس کے قد بیسن کی طرف بڑھ گئے
اس نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگ گئی نماز کے بعد انعم کے ہاتھ دعا کے لیے
اٹھے اور وہ رو دی کے کیا مانگے سب کچھ تو خدا نے اسے بن مانگے عطا کیا تھا
اچھا بھائی ،اچھے ماں باپ اچھی دوست اچھی دادی اچھا گھر۔ کیا کچھ نہیں تھا
اس کے پاس. کیا اس نے کبھی شکر کیا تھا بن مانگی عطا کردہ نعمتوں کا وہ
شرمندہ سی ہوئی اور سجدے میں جا کر رب سے معافی مانگنے لگی
دروازے پر کھڑا احسان اسے ہی دیکھ رہا تھا
انعم دروازہ بند کر نا بھول گئ تھی احسان دھیرے سے بولا " انعم!" انعم نے
سجدے سے سر اٹھایا اٹھی اور جائے نماز کی تہ لگا کر اسے table پر رکھا اور
بولی" السلام علیکم ! بھائی جان آئیے نہ بیٹھیے"
"واعلیکم السلام! آج تم نے نماز پڑھی مجھے یقین نہیں آرہا"
" جی بھائی جان ! اب میں کوشش کروں گی پانچوں نمازیں پڑھنے کی"
" سبحان اللہ ! آج دوپہر سے کمرے میں بند ہو خیریت تو ہے کوئیproblem ہے
توshare کرو ہو سکتا ہے تمہارا اکڑو بھائی تمہاریhelp کر سکے"
"نہیں بھائی جان بس طبیعت ٹھیک نہیں تھی اب ٹھیک ہوں آپ پریشان مت ہوں
please"
انعم کا دل کیا سب کچھ بتا دے پھر رک گئی
احسان کو لگا کہ بات کوئی اور ہے لیکن وہ اپنا وہم سمجھ کر اٹھ گیا" ٹھیک
ہے بہنا جی میٹ چلتا ہوں مجھے تھوڑا کام ہے جو کہ ابھی میں نے کرنا ہے"
"خدا خافظ بھائی جان"
جب احسان چلا گیا تو انعم پھر بیٹھ کر سوچنے لگی
" کیا میں اتنی بری ہوں کہ کسی اچھے کام میں میرا کوئی یقین ہی نہیں کرتا
آج کے بعد میں اچھی لڑکی بنوں گی انشاللہ"
////////////////////////////
مجھے کیا حق ہے کسی کو مطلبی ک ہوں
میں خود اپنے رب کو مصیبتوں میں یاد کرتی ہوں
دوسرے دن فجر کے وقت انعم کی آنکھ کھلی انعم نے سوچا " اج سے پہلے میں اس
وقت سوئی ہوئی ہوتی تھی " اس نے اپنے رب کو پکارا" اے خدا آپ کا شکریہ کہ
آپ نے مجھے راہنمائی عطا فرمائی میری ہمیشہ مدد فرمانا" انعم نے فجر کی
نماز ادا کی اور قرآن پاک پڑھنے لگی ایک ایک لفظ سے اسے سکون مل رہا تھا
پھر اس نے قرآن پاک کو الماری میں رکھا اور تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئی جب
کچھ روشنی پھیلنے لگی تو وہ اٹھ کر چھت پر آگئی اور صبح کے خوبصورت نظارے
سے لطف اندوز ہونے لگی
پرندوں کی چہچہاہٹ میں کھو سی گئی یکدم اس کے دل میں خیال آیا کیوں نہ میں
پرندوں کو دانہ ڈالوں ،پانی رکھوں ہو سکتا ہے ایسے وہ مجھے دعا دیں وہ
بھاگتی ہوئی کیچن کی جانب لپکی ، کیچن میں جا کر اس نے چیک کیاہاٹ پاٹ میں
رات کی روٹی پڑی تھی روٹی کو پلیٹ میں رکھ کر چھت پر آگئی روٹی کے چھوٹے
چھوٹے پیس کیے اور پلیٹ میں ڈال کر پلیٹ کو سائڈ پہ رکھ دیا ایک اور برتن
میں پانی ڈال کر ادھر ہی رکھ دیا اوع خود وہ دروازے کے پاس جا کر کھڑی
ہوگئی تھوڑی دیر بعد ایک چڑیا آئی اور پانی پی کر چلی گئی پھرگاہے بہ گاہے
مختلف پرندے آتے گئے روٹی کے ٹکڑوں کو کھاتے رہے پانی پیتے رہے اور اڑتے
گئے
انعم کو یہ سب دیکھ کر مسرت سی محسوس ہوئی اسے یہ سب دیکھ کر بہت مزا آرہا
تھا کچھ دیر ایسے ہی دیکھتی رہی پھر نیچے آگئی
نیچے آ کر جب اس نے کیچن میں امی جان کو کام میں مصروف دیکھا تو اسے دکھ
ہوا کہ وہ امی جان کی کاموں میں ذرا بھی مدد نہیں کرتی امی جان کی کمر
دروازے کی جانب تھی انعم نے جا کر امی جان کے گرد بانہیں ڈال کر ہلانا شروع
کر دیا
امی جان ایک دم سے ڈر گئیں اور ہنسنے لگ گئیں
انعم بھی ہنس دی
"مجھے ڈرا دیا"
"جی امی جانsorry" ( کان پکڑتے ہوئے) نعیمہ بیگم ہنس دیں" ارے چلو خیر ہے
اب بتاؤ کوئی کام تھا؟"
*جاری ہے*
م |