یہ ۹ ۱ویں صدی کے اوئل کی کہا نی
ہے جب امر یکی شہر وا شنگٹن کے ایک قصبے سپو کن میں ہنری جیکسن اسما رٹ نا
می شخص رہتا تھا ہنری جیکسن کے پا نچ بچے تھے اس کی بیوی چھٹے بچے کی ولا
دت کے دوران انتقال کر گئی ہنری جیکسن کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی یہ
سانحہ اس کے لیے قیا مت سے کم نہ تھا ا اس نے شادی نہ کر نے کا فیصلہ کیا
ااوربیوی کے بغیر زندگی کی گا ڑی کو کھینچنے کا فیصلہ کیا جو مشکل تھا بچوں
کی پرورش کی ذمہ داری خود نبھا نے لگا وہ بیک وقت ان بچوں کا با پ بھی تھا
اور ماں بھی ۔غم روز گا ر کے ساتھ ساتھ گھر میں کھا نا پکا نے سے لے کر
بچوں کے اسکول ہوم ورک تک تما م کا م کی دیکھ بھا ل خو دکر تا تھا ہم سب جا
نتے ہیں کہ ہما رے ہا ں تو ایسی بہت سی مثالیں ہیں لیکن مغربی معا شرے میں
ایسی مثالیں ایک عورت کے لیے مشکل کام ہے ا ور کہا ں! ایک مرد ان تما م کا
موں کا بیڑہ اٹھا ئے ایک اچھنبے کی با ت سمجھی جا تی ہے لو گ اسے بے وقوف
اور پا گل کا خطا ب دینے لگے لیکن مسٹر ہنری جیکسن ان سب با توں سے بے پروا
اپنے کاموں میں لگے رہے ان کے بچے بھی وا لد کی اس محبت کو قدر و منزلت کی
نگا ہ سے دیکھتے تھے ۔
ہنری کی بڑی بیٹی سنورا اسما رٹ ڈوڈ نے مدرز ڈے کے موقع پر جب لو گو ں کو
مدر ز ڈے جو ش عقیدت سے منا تے دیکھا تو اسکے ذہن میں یہ خیال جا گزین ہو ا
کہ جس طرح ایک ما ں دنیا کی تما م مشکلوں، مصیبتوں اور جھمیلوں سے بچا کر
اپنے بچوں کی پرورش کر تی ہے بلکل اسی طرح ان کے والد نے بھی ان تمام بہن
بھا ئیوں کی تعلیم تر بیت کی دوہری ذمہ داری نبھا ئی تھی سنورا ڈوڈ نے
فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے والد کی ان خدمات ،محبت و شفقت کے احترا م میں ہر
سال فا درز ڈے کا اہتمام کر ئے گی ۔سنورا ڈوڈ نے ۹۰۹۱ ءمیں دنیا کا پہلا فا
درز ڈے منا یا جس میں اس کے تما م بہن بھا ئیوں ، عز یز و اقار ب اور قصبے
کے تما م لو گو ں نے ایک ساتھ جمع ہو کر مسٹر اسپو کن کی خدما ت کو خراج
تحسین پیش کیا اس سے اگلے سال اسپو کن کے تما م گھروں میں یہ تہوار منا یا
گیا ۔ ڈوڈ کے اس اقدام کو مذ ہبی جماعتو ں کی حما یت بھی حا صل ہو ئی او ر
یہ جشن یو نا ئیٹیڈ میتھو ڈسٹ میں بھی ادا کی جا نے لگی ہو تے ہو تے جب یہ
خبر اامریکی اخبا روں کی زینت بنی تو اس اقدام کو تما م امر یکہ میں سراہا
جا نے لگا ۴۲۹۱ءمیں حکو مت وقت نے جو ن کے تیسرے اتوار کو فا درز ڈے منا نے
کا با ضا بطہ اعلا ن کر دیا اور ۶۶۹۱ءمیں صدر لندن بی جا نسن نے سر کا ری
طور پر ایک چھٹی کا اعلا ن کیا ۔ ۲۷۹۱ءمیں اس کو قانونی حیثیت دی گئی گلا ب
کے پھول کو اس دن کو کا خاص تحفہ قرار دیا گیا اس دن کی منا سبت سے ایک سال
سے اسی سال کے تما م بچے اپنے والد کو گلا ب کا پھول پیش کرتے ہیں جن کے
والد حیات نہیں وہ ان کی یا د میں اپنے کالر میں سفید گلا ب کا پھو ل لگا
تے ہیں ۔
یہ تو صرف ایک خا ندان کی کہا نی تھی لیکن اللہ تعا لیٰ نے ما ں با پ کے
دلو ں میں اولاد کے لیے جو بے غرض محبت رکھ دی ہے وہ کسی ملک ،قصبہ شہر کی
محتاج نہیں ۔ جس طر ح بر گد کا بیج جو خشخاش کے دانے سے چھو ٹا ہو تا ہے جب
وہ خود کو فنا کر تا ہے تو قدرت اس ایثار کو پسند کر تی ہے ا ور وہ کچھ عر
صے بعد ایک تنا ور درخت بن جا تا ہے اسی طر ح ایک با پ بھی زمانے کی سرد
گرم ، مشکلات سے گزرنے کے با وجو د طرز ایثار سے وا بستہ رہتا ہے اپنے بچوں
کے لیے سا ئبا ن تحفظ بنتا ہے ا س کی آ بیاری کے لیے دن رات ایک کر تا ہے
بناء کسی لا لچ کسی غرض کے اسے دنیا کی ہر خو شی فر اہم کر نے میں سار ی
زندگی جد وجہد کر تا ہے ایک با پ کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خو شی ہو گی کہ
وہ اپنی اولا د کی بہتر پر ورش کر کے اسے دنیا میں کا میا ب انسان کے روپ
میں دیکھے یہ فریضہ اللہ تعا لیٰ کی طرف سے تفویض ہو تا ہے اس لیے وہ
والدین کے دل میں اولاد کے لیے ایک خا ص محبت ڈالتی ہے۔ حدیث نبو یﷺ ہے کہ
” ما ں با پ اپنی اولا د کو جو کچھ دیتے ہیں اس میں سب سے بہتر تحفہ اچھی
تعلیم و تر بیت ہے “بچوں کی بہتر پرورش کر نا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس
سے عہدہ بر آ ہو نے کی ہر وا لد پو ری سعی کر تا ہے ۔حکیم بو علی سینا کا
قول ہے کہ” محبت کے لحا ظ سے ہر با پ حضرت یعقوب علیہ سلا م ہے“ ۔
میرے خیا ل میں جنہوں نے اپنی ساری زندگی ہما رے نا م کر دی ہو ان کے لیے
ایک دن ا ور خا ص کر والد کے لیے صر ف ایک دن مختص کر نا زیادتی کی با ت ہے
لیکن آج کے اس مصروف زندگی میں ایک دن صرف ایک ۹ ۱جون کو ہم خو د تھوڑی دیر
کو اکیلے بیٹھ کریہ تو سوچ سکتے ہیں کہ ہم اپنے والدین کو کیا وہ محبت عزت
اور مقا م دے رہے ہیں جس کے وہ حق دار ہیں ان کا اس طرح خیا ل رکھ رہیں ہیں
جس طرح انھوں نے ہمیں اپنا وقت اپنا سر ما یہ اپنی زندگی سب کچھ دیا ۔ہما
رے ملک میں ہنری جیکسن جیسے سینکڑوں والد ہو ں گے جن کی محبتوں، شفقتوں اور
قر با نیوں کا حساب نہیں لگا یا جا سکتا لیکن کیا اولا د بھی والدین کی عنا
یتوں کا جواب ان کو بڑھا پے میں اسی انداز سے دے سکی ہے افسوس تو اس با ت
کا ہے کہ یہ مسئلہ وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ گھمبیر ہو تا جا رہا ہے خا ندان
کے اندورونی رشتوں کو ان کے مطا بق حیثیت دینا ان سب کو ساتھ لے کر چلنا سب
سے مشکل ہو تا ہے اس لیے یہ کہنا آسان نہیں کہ پہلے کی نسبت اتنی آسانی سے
پے در پے رشتے کیو ں ٹو ٹتے جا رہے ہیں گھر سے شروع ہو نے والی ایک چھوٹی
سی غلطی سے معاشرے میں دیگر بر ائیا ں بھی بڑ ھتی جا رہی ہیں قرا ن کر یم
ہمیں ہر معاملہ میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اگر آج کے دن ہم اپنی غلطیوں
کو ما ن کر پشیما ن ہو کر والدین کی خوشی کا ساما ن پید اکر دیں تو ڈوڈ کی
طر ح اولا د کا تھو ڑا بہت حق تو ادا کر سکتے ہیں ۔۔۔ |