باپ اپنے لہو سے اولاد کو معاشی تحفظ فراہم کرتا ہے

فادر ڈے کے حوالے سے ایک منفرد تحریر

تحریر : محمد اسلم لودھی
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی 19 جون کو دنیا بھر میں فادر ڈے ( والد کی یاد میں ) منایا جارہا ہے ۔یہ دن منانے کا خیال بھی 1910 میں ایک امریکی شہری کو ہی آیا تھا۔ جو اپنے والد کو بہت پیار کرتا تھا ۔ پھر رفتہ رفتہ یہ روایت کچھ اس طرح پختہ ہوگئی کہ اب یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے ۔اس سے انکار نہیں کہ جس طرح انسانی پیدائش اورتربیت کے اعتبار سے ماں کا کردار فراموش نہیں کیاجاسکتا اسی طرح باپ کی محبت ٬سرپرستی٬نگہداشت اور حفاظت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ انسانی حیات میں باپ وہ عظیم ہستی ہے جس کی انگلی تھام کر بچہ زمین پر چلنا سیکھتا ہے پھر باپ سے ملنے والا اعتماد ہی اسے دنیا بھر میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے ۔باپ صبح سے رات گئے تک کس کے لیے محنت مزدوری کرتا ہے اسے اپنی دو روٹیوں کی فکر نہیں ہوتی بلکہ بچوں کا روشن مستقبل آرام نہیں کرنے دیتا ۔پھر جب سارا دن کا تھکاماندہ باپ شام کو گھر لوٹتا ہے تو بچے کی ایک والہانہ مسکراہٹ دن بھر کی تھکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ باپ خود زمانے کی سختیاں اور پریشانیاں برداشت کرلیتا ہے لیکن وہ اپنے بچوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔ لیکن حالات نے جہاں دیگر انسانی رشتوں کے تقدس کو پامال کیا ہے وہاں بڑھاپے میں باپ بھی ایک کمتر اور غیر ضروری مخلوق بن کے رہ گیا ہے ۔ بدلتے ہوئے انسانی رویوں نے معاشرے کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب سکول ماسٹر کی نقل اتارتے ہوئے میری دونوں آنکھیں سوجھ گئی تھیں تو والد نے اپنی تکلیف کو محسوس کئے بغیر سردیوں کی سرد راتوں میں صرف میرے علاج کے لیے انتہائی تکلیف دہ سفر کیا تھا پھر جب بڑھاپے میں والد آنکھوں میں موتیا اترنے کی بنا پر آپریشن کے لیے سروسز ہسپتال میں داخل تھے تو سردیوں کی کتنی راتیں میں نے اپنے بیمار والد کی تیمار داری میں ہسپتال کے ننگے فرش پر گزار دیں اور شکوے کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ آیا ۔پھر زندگی کے آخری لمحات تک میں نے والد کی ہر وہ ضرورت کہے بغیر پوری کی کہ وہ مجھ سے بہت خوش تھے اسی خوشی کا اظہار ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی میری زندگی میں پہلے کی طرح موجود ہیں ان کا انتقال 19 جنوری 1994کو لاہور میں ہوا تھا ۔ان سترہ سالوں میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرا ہو جب ان کی یاد دامن گیر نہ ہوتی ہے ۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ والد ڈے منانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ہر دن کو ماں اور باپ کا دن قرار دے کر ان کی فرماں برداری کرتے ہوئے ہمیں ایسی مثال قائم کرنی چاہیئے کہ دیکھنے والے بھی رشک کرنے لگیں ۔میں سمجھتا ہوں والدین قدرت کا وہ انمول عطیہ ہیں جو سدا انسان کے ساتھ تو نہیں رہتے لیکن اگر وہ خوش ہوں تو ان کی دعائیں اپنے بچوں کے گرد حصار بنائے رکھتی ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ والدین جب بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کی اسی طرح نگہداشت کرو جس طرح بچپن میں وہ تمہاری کیاکرتے تھے ۔بزرگ یہ بھی کہتے ہیں کہ باپ کے سامنے اس طرح کھڑا ہوں جیسے بادشاہ کے سامنے غلام ۔ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی مجلس ہمایوں میں دوافراد داخل ہوئے نوجوان آپ ﷺ کے نزدیک جبکہ بڑی عمر کا شخص کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا آپ ﷺ نے نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا کہ یہ بزرگ آپ کے کیا لگتے ہیں نوجوان نے کہا یا رسول ﷺ وہ میرے والد ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تو تم ان کی طرف پیٹھ کر کے مت بیٹھو بلکہ ان کے برابر بھی نہ بیٹھا کرو ۔کاش ہم اپنی محبتوں کا رخ کسی اور جانب کرنے کی بجائے والدین کی طرف کرکے ہر روز فادر ڈے اور مدر ڈے کچھ اس طرح منا یا کریں کہ بڑھاپے اور بیمار ی کو بھول کر وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات سکون سے گزار لیں ۔ لرزتے اور کانپتے ہوئے ہاتھ جب دعا کے لیے اٹھتے ہیں تو رب کائنات کی رحمت بھی جوش آجاتی ہے اور گناہوں کے پہاڑ پلک جھپکتے میں غائب ہوجاتے ہیں وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کے والدین حیات ہیں ۔ لیکن والدین کی قدر و قیمت ان سے پوچھنی چاہیئے جن کے والد ین اس دنیا میں نہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے اگر اپنے والدین کو ہم نے مالی تحفظ اور ذاتی نگہداشت فراہم کردی تو کل ہم بھی اپنی اولاد سے کسی اچھے فعل کی توقع کرسکتے ہیں وگرنہ وہی ہوگا جو ہوتا آیا ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.