۔۔برائے نام۔۔

عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں آئے دن اصلاح معاشرے کے نام پر بڑے بڑے اجلاس کاا نعقاد کیا جارہا ہے جس میں خطاب و تبلیغ کیلئے بڑے بڑے علماءواکابرین کی شرکت ہوتی ہے،مبلغین و خطباءکے گروہ ان اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔اسٹیج سے لیکر کرسیوں تک کیلئے لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔دور دراز علاقوں سے آنے والے مبلغین کیلئے بڑے اچھے ہدیہ و زادِ راہ دی جاتی ہے۔جلسہ کے اختتام پر بڑی اچھی دعا بھی ہوتی ہے اور جلسہ میں شریک ہونے والے شرکائ کے تاثرات یہ ہوتے ہیں کہ بڑی اچھی دعا ہوئی،بڑا اچھا بیان دیا گیا،بہت اچھی بات کی گئی اور کل ملا کرجلسہ بھی بہت اچھا ہوا،لوگوں کی شرکت بھی ہزاروں میں تھی اور کھانا بھی بہت اچھا تھا۔یہ ہے ہمارے اصلاح معاشرہ کی حقیقت،لیکن ا ±س معاشرے کا کیا جو دین سے دور ہے جنہیں خوفِ خدا کا علم نہیں ہے،جنت وجہنم کی حقیقت کا علم نہیں ہے،ان کے نزدیک سود خوری گناہ نہیں ہے،زنا کرناان کے نزدیک عیب نہیں ہے کیونکہ یہ موجودہ معاشرے کا فیشن ہے،ٹیلی ویڑن میں دکھائے جانے والے سریلوں میں تویہی ہوتا ہے کہ” قبول ہے“ سریل میں زویا کے ایک دو نہیں تین چار مرد ہوتے ہی ہیںاور اس کے علاوہ ہر ایک لڑکی کے شوہر کے ساتھ ساتھ بوائے فرینڈس بھی ہوتے ہیں۔اب یہی نظام ہمارے معاشرے میں بھی لاگو ہورہا ہے۔معاشرے کی اصلاح کہاں ہورہی ہے اور کس کے درمیان ہورہی ہے اور اصلاح معاشرے کے اجلاس سے ہم اور آپ کیا سیکھ رہے ہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہورہا ہے۔جتنی برائیاں پڑھے لکھے طبقے میں ہیں اس سے کہیں بڑھ کر غریب ومزدور گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے یہاں ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا دین ان کے گھروں کی دہلیز تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ایوانوں و میدانوں میں منعقد کئے جانے والے اجلاس سے اصلاح معاشرا ممکن نہیں ہے بلکہ گھر گھر کی دہلیز تک پہنچ کر اصلاح کرنے سے تبدیلی آسکتی ہے۔بھلے یہ کام مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ہمارا مقصد بڑے بڑے اجلاس کا انعقاد کرنا نہ ہو بلکہ چھوٹی چھوٹی گلیوں میں دعوتِ حق و اصلاح کا کام ہونا چاہےے۔آج ہمارے مبلغین بھلے ہی کسی بھی مسلک یا مکتب سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ دعوت حق کیلئے مسجدوں کی دہلیزوں کوچھوڑ کر اسٹیجوں و کرسیوں سے نیچے اترکر دعوت حق کا پیغام دینا شروع کرینگے تو دین اسلام کا بہت کام ہوسکتا ہے اور معاشرہ کی اصلاح چاہتے ہیں وہ ممکن ہوسکتی ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اجلاس و جلسہ منعقد نہ کئے جائیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں حقیقت میں برائیوں کی جڑ تک پہنچنا چاہےے اور جب تک جڑ تک نہ پہنچاجائے اس وقت تک اصلاح معاشرہ ناممکن ہے۔آج نوجوان نسل میں جو برائیں پنپ رہی ہیں ان برائیوں کے تعلق سے سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوگی کہ نوجوانوں کو راہِ حق دکھانے میں ہم کس قدر کوتاہی برت رہے ہیں۔ایک دونہیں ایسے کئی معاملے ہیں جن پر فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔مغربیت و جدیدیت کے نام پر ہماری نسلیں تباہ وبرباد ہورہی ہیں،لیکن اس بربادی کی روک تھام کیلئے مسجدوں و اجلاس میں دئے جانے والے بیانات ناکافی ہیں۔اگر واقعی میں معاشرے میں اصلاح لانا ہوتو چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں دعوتی کام کیا جائے ،نوجوان لڑکیوں کیلئے دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے،کالجوں و روزگار میں مصروف نوجوانوں کو ان کے خالی وقت کے مطابق درس وتدریس کا انتظام کیا جائے تو ان سے یقینامثبت نتائج نظر آئینگے۔اس کیلئے ضروری نہیں کہ نوجوانوں کو گھر و مصروفیات سے الگ کرکے انہیں دور لے جایا جائے بلکہ انہیں ان کے اپنے محلوں میں تربیت کا کام کیا جائے۔اگر یہ کام اب نہیں کیا جائیگا تو کل بھی نہیں ہوگااور اصلاح معاشرہ کاکام براہ نام رہ جائیگا!۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.