آج مسلمانوں کے گھروں میں پیدا
ہونے والے رسمی مسلمان داڑھی مونڈا کر، شراب پی کر اورمغربی لباس زیب تن
کرکے اہل کفرکو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ وہ بنیاد پرست نہیں ہیں۔ وہ نماز،
روزہ، حج اور زکواة تک ترک کرکے خود کو روشن خیال بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تمام مسلمان ممالک میں اللہ کے قرآن کو قید کرکے مغربی نظام زندگی کو رواج
دیا جا رہا ہے۔ کتنے ہی مسلمان ممالک میں عورتوں کو نقاپ پہننے کی اجازت
نہیں۔ اسلامی مدارس قائم کرنے پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں جبکہ شراب نوشی،
بے حیائی، کرپشن، بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی کھلی چھٹی ہے۔ مسلمانوں
کا مقتدر ٹولہ استعماری ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تمام مسلم ممالک کے
سول اور فوجی عہدیدار، سیاستدان اور اشرافیہ کے لوگ اسلام بیزاری کا ثبوت
دے کر استعمار کے قریب ہونے کی فکر میں ہیں۔ الغرض مسلمان اشرافیہ کے لیے
اسلام سے وابستگی، قرآن سے تعلق اور محمد عربی ﷺ کی اطاعت زمانے میں ترقی
کرنے کے لیے سد راہ بنی ہوئی ہے اور وہ ہر ممکن طریقے سے اسلام سے لاتعلقی
کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
مغربی استعمار دنیا میں ابھرتے ہوئے اسلام سے خائف ہے اور دنیا کے کونے
کونے میں اسلام کے علمبرداروں کی تلاش اور بیخ کنی میں مصروف ہے۔ وہ اسلام
کو محض پوچا پاٹ کے مذہب کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن وہ امت
مسلمہ کے تصور اور سیاسی اسلام کو ایک منٹ کے لیے بھی قبول کرنے کو تیار
نہیں۔ افغانستان، الجزائر، فلسطین، ایران اور سوڈان میں اسلامی تحریکوں کے
احیاء نے اہل مغرب کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اسلام کا تصور امت دنیا بھر
کے مسلمانوں کو ایک قوم اور ایک امت خیال کرتا ہے جبکہ موجود استعماری نظام
نے انسانوں کو جغرافیائی حدود میں قید کر رکھا ہے اور مختلف ممالک کے
شہریوں کو صرف اس ملک تک قید کر رکھا ہے۔ ایک ملک کے شہریوں کا دوسرے ملک
کے شہریوں سے کوئی رشتہ اور تعلق قائم رہنے دیا۔ اسلام واحد دین ہے جو رنگ،
نسل اور جغرافیے کی امتیازی سرحدوں کو بے معنی سمجھتے ہوئے پوری دنیا کے
انسانوں کو ایک معاشرے کے فرد کے طور پر تصور کرتا ہے اور عقیدے کے بنیاد
پر انہیں بھائی، بھائی قرار دیتا ہے۔ یہ وہ تعلق ہے جو امریکہ، روس،
برطانیہ، الجزائر، ایران ،فلسطین اور ترکی کے انسانوں کو اخوت کے دیرپا
رشتے میں جوڑتا ہے۔ اسلامی کی عالمگیر اپروچ استعمار کو خوف سے مارے جا رہی
ہے۔مغرب مسلمانوں پر جس قدر ظلم کررہا ہے، اسلام اسی قدر زیادہ قوت سے
ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ماضی قریب میں جتنے مغربی لوگوں کو براہ راست
مسلمانوں سے معاملہ کرنے کا موقع ملا، وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ
سکے۔ جن میں بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔
آج کے کالم میں آپ کی ملاقات امریکی فوج کے ایک گارڈ ٹیری بروکس سے کروائی
جائے گی۔ جسے امریکہ نے 2003 میں گوانتے مالا میں مسلمان قیدوں کے کیمپ میں
ڈیوٹی لگائی۔ ٹیری بروکس نے جب گوانتے مالا میں قید القائدہ اور طالبان کے
لوگوں کو سخت ترین حالات میں مطمئن اور راضی دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کہ
اس جہنم میں جہاں امریکہ نے انہیں پریشان کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات
کیے ہوئے ہیں، وہ وہاں بھی پورے اطمینان سے ظلم اور جبر کا مقابلہ کر رہے
ہیں۔ استقامت کی اس حد کو دیکھنے کے بعد بروکس نے ان قیدیوں میں دلچسپی
لینا شروع کی اور گاہے گاہے ان کے قیدخانوں کے قریب جاکر بات چیت کرنے لگا۔
اس دوران الرشدی نامی ایک قیدی نمبر 590 سے میل ملاپ بڑھا ، جس کی وساطت سے
اسے اسلام کے بارے میں معلومات ہوئیں اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔ بروکس
نے تبدیلی مذہب کو راز میں رکھا لیکن اس دوران ایک امریکی آفیسر کو پتہ
چلا، تب سے امریکی حکام نے اس سے امتیازی سلوک روا رکھنا شروع کر دیا اور
اس کو واپس امریکہ بھیج دیا۔ امریکہ جانے سے پہلے ہی بروکس مصطفے عبداللہ
کے نام سے موسوم ہو چکا تھا۔ اس نے واپس امریکہ جاتے ہی آرمی کی نوکری سے
جان چھڑائی اور گوانتے مالا میں قید مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے
خلاف آواز بلند کرنے لگا۔
مئی 2011 میں مصطفے عبداللہ نے مکہ مکرمہ میں عمرہ کی سعادت حاصل کی اور
روزنامہ اوکاز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلام کی حقانیت سے آگاہ ہو
چکا ہوں، یہ سچا دین ہے اور اسی میں پوری انسانیت کی بقا اور سلامتی ہے۔ اس
نے اپنی زندگی گوانتے مالا میں قید مسلمانوں کی رہائی اور اسلام کی حقیقت
جاننے تک کے سفر کی روداد لکھنے پر صرف کرنے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں
اپنے تجربات منظر عام پر لانا چاہتا ہوں تاکہ دنیا اسلام کو امریکی نہیں
بلکہ اپنی آنکھ سے دیکھ سکے۔
آج دنیا میں دو طرح کے مسلمان چھٹ کر سامنے آرہے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو
پوری دنیا کے خوف سے بے نیاز ہوکر اسلامی کی حقانیت پر قائم ہے اور اس کے
غلبے کے لیے ہر جگہ اور ہر حال میں جدوجہد کر رہا ہے اور دوسرا گروہ جو
اسلام سے اپنی وابستگی سے بھی خائف ہے اور اسلام پسندی کی ہر علامت سے نجات
حاصل کرکے استعماری قوتوں کی اشیرباد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یقیناً جو لوگ
استعمار کو زندگی اور موت، نفع اور نقصان ، خوشی اور غم دینے کا مکلف
سمجھتے ہیں وہ ان کی تعبیداری کر رہے ہیں اور جو لوگ صرف اللہ کی ذات کو
نفع اور نقصان، زندگی اور موت، عزت اور ذلت دینے والا کارساز سمجھتے ہیں وہ
تمام دنیاوی خداوں سے انکار کر کے ، تمام خطرات کے بے خوف ہو کر اسلام کے
غلبے کے لیے کوشاں ہیں۔ یقیناً اسلام پوری دنیا پر اپنی حقانیت ثابت کرکے
رہے گا، یہی اللہ کا وعدہ ہے۔ اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک اسلام
پوری دنیا پر آشکار نہیں ہو جائے گا۔ وقت تیزی سے اس طرف جا رہا ہے۔ اہل
ایمان اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور نام نہاد مسلمان اسلام سے دوری اختیار
کر نے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔
اسلام جس تیزی سے دنیا میں اثرات مرتب کر رہا ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے
کہ اگلے چند سالوں میں اسلام عالمی طاقت کے طور پر ابھرے گا اور دنیا سے
ظلم اور جبر کے تمام نشانات مٹا کر انسانیت کو امن ، اخوت، بھائی چارے اور
حقیقی ترقی سے روشناس کرے گا۔ آئیے ہم عہد کریں کہ ہم جہاں کہیں بھی ہیں،
اللہ کی بندگی، محمد عربی ﷺ کی اطاعت اختیار کریں اور اپنی زندگیوں میں سے
دورنگی اور منافقت نکال کر قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے دنیا کے ہر ظالم
اور بدمعاش کے راستے کی دیوار بن جائیں۔ جب تک قرآن ہمارے ملک کا بالاتر
قانون نہیں بن جاتا تب تک نہ عزت ملے گی اور نہ روٹی۔ ہمارے سارے مسائل کا
حل قرآن کے منصفانہ نظام میں موجود ہے۔ آئیے....قرآن کی راہ میں رکاوٹ بننے
والوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور اپنے گھروں، مجلسوں،
عدالتوں، تعلیمی اداروں، مجالس قانون سازوں اور ایوان اقتدار میں قرآن کے
حکم کی بالادستی کی جدوجہد کا حصہ بن جائیں ، اسی میں ہم سب کی عافیت ہے
اور یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ قرآن کے علمبرداروں کے
ساتھ کھڑے ہیں یا قرآن کو قید کرنے والے بدبختوں کی صف میں گمراہی کا شکار
ہیں۔ |