اﷲ تعالٰی نے اپنی تمام مخلوقات
میں افضلیت کا شرف انسان کو بخشا ہے اور یہ محض اس پاک ذات کا ہم پر احسان
عظیم اور عنایت خاصہ ہے، رب لم یزل نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب
دینے کے بعد یوں ہی کھلا، بے مہار نہیں چھوڑا بلکہ چند اوامر اور نواہی بھی
لازم کردیئے، اس لقب کے ہم صحیح معنوں میں مستحق اسی وقت ہوسکتے ہیں جب اس
کے بھیجے ہوئے رسول ۖ کی تصدیق مع اطاعت کریں۔ اس پاک ذات نے ہمیں مسلماں
کے نام سے موسوم کرکے وہ مہتم بالشان اور قیمتی چیز دی ہے جو زمین پر خدائی
کے دعویدار او رخود کو ''معبودالناس'' اور ''اناربکم الاعلی'' کہلوانے
والوں کو نہ دی۔
عرب کے تاریک، علاقی اور قبائلی تعصب کے شکار خطہ ارض پر جس ہستی نے اپنا
سکون ڈبوکر، اپنا خون بہا کر اس خطہ ارض کی تاریکی کو روشنی میں اور
علاقائی وقبائلی تعصب کو بھائی چارے اور اخلاق حسنہ میں تبدیل کر دیا، اسی
پر موقوف نہیں بلکہ تاقیامت کیلئے طرز انسانیت کی تشکیل بھی کی جو کہ دائمی
مثال ہے او روہ عظیم ہستی محمد عرب سید الکونین ۖ کی ہستی تھی۔ آپ ۖ نے
اپنے قول اور فعل میں ایسی مطابقت پیدا کی جس کی تعریف اﷲ تعالٰی نے قرآن
مجید میں یوں فرمائی ہے۔لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة (الآیة)
ترجمہ۔ تحقیق تمھارے لیے اﷲ کے رسول ۖ کی زندگی میں بہترین نمونہ (عمل) ہے۔
افسوس، صدافسوس! آج کے مسلمان نے اپنے محسن ۖ کو اور انکی تعلیمات کو جلد
ہی بھلا دیا، آپ ۖ کو پتھر مارے گئے سرتاپا خون میں لت پت ہوئے، آپ کے
راستے میں کانٹے بچھائے گئے، کوڑا کرکٹ ڈالا گیا، جانوروں کی اوجھڑیاں ڈالی
گئیں، شعب ابی طالب میں تین سال قطع تعلقی کا شکار کسمپرسی کی حالت میں
محصور رہے، دندان مبارک شہید ہوئے، چہرہ انور واطہر پر زخم آئے، اپنا وطن
چھوڑا، رشتہ دار چھوڑے، آخر کس کیلئے؟… فقط اس دین کیلئے جس کا جنازہ آج
ہمارے ہاتھوں نکل رہاہے۔ ہم صبح سے شام تک سیکڑوں ایسے کام کرتے ہیں جن سے
دین اسلام نے منع کیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں دین اسلام کی
قدرو منزلت باقی نہیں رہی۔
ایسی تکالیف جو پہاڑوں کو لرزا دیں، آمنہ کے لال، عبداﷲ کے دریتیم،
عبدالمطلب کے لاڈلے پوتے نے اپنے نرم ونازک رشک شمس وقمر بدن پر سہیں مقام
تدبر ہے کہ وہ عظیم، اعلٰی، ارفع، اتقی اور اجمل ہستی جس ہستی کے جسم اطہر
پر کانٹے کا چبھنا بھی ذات عرش بریں کو پسند نہیں، مگر دین کیلئے اتنی اور
ایسی ایسی تکالیف آپ ۖ نے برداشت کیں کہ جنہیں فرشتے بھی نہ دیکھ سکے،
آنکھیں اشکبار ہوئیں اور طائف سے آپکی واپسی پر نافرمانوں کو عذاب شدید
دینے کے لئے اجازت چاہی مگر آمنہ کا لال ہمت، صبر، استقامت اور استقلال کا
پہاڑ بن کر سب کچھ سہتا رہا او راپنے رب کی رضا پر ہردم راضی رہا۔
ذرا سوچئے تو صحیح، کیا صلہ دیا انکی قربانیوں کا آج کے مسلمانوں نے… کیا
ہی زبردست ان سے محبت کا ثبوت دیا…چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے محسن کی ہرہر
ادا کو اپنی زندگی کا جزو لازم بنا لیتے مگر ہم نے تو اسکی طرز زندگی کو
اپنے روزو شب میں لانے کی تکلیف تک گوارہ نہ کی۔
ھائے! اے مسلمانوں! تمہیں آمنہ کے لال، اﷲ کے محبوب، ساقی محشر، شافع روز
جزا ۖ کا طور طریقہ پسند نہ آیا، بلکہ انکے سادہ طرز زندگی کو جدید دور کی
بڑھتی ہوئی ترقی میں رکاوٹ گمان کیا (نعوذباﷲ) اس پر مستزاد اور جرم درجرم
یہ کہ پسند کیا بھی تو کس کے اطوار اور طرائق کو۔ انگریز کے اطوارو طرائق
کو۔
تم کو اسکی بنیان جو کہ کثرت استعمال سے کھل گئی ہو بطور بیگی پسند…اسکی
پینٹ جو کہ انکی قلت ثوب کا منہ بولتا ثبوت اور بے حیائی کا پرچار ہے وہ
پسند، حال تو یہ اور دعوے آپ ۖ کی محبت کے، آرزوئیں اور امیدیں روز محشر آپ
ۖ کی شفاعت کی۔ اسکی سنتوں کا جنازہ صبح وشام کے کھانے کی طرح معمول بن چکا
ہے۔ وہ سنت جسکی قیمت زمین وآسمان نہ بن سکیں تم اسکو اتنی حقیر سمجھتے ہو
کہ دو روپے کے بلیڈ سے صاف کرکے گٹر میں بہا دیتے ہو… سنت کی تمہارے ہاں
یہی قدرو منزلت ہے کہ سنت کہہ داڑھی کو ترک کر دیتے ہو!! جبکہ محمد عربی ۖ
تو کسی غیر مسلم کے چہرے کو بھی داڑھی کے بغیر دیکھنا تک پسند نہ فرماتے
(ایک مرتبہ حضور اکرم ۖ کے پاس کسی غیر مسلم بادشاہ کے دو قاصد آئے جنکی
داڑھیاں نہ تھیں تو آپ ۖ نے ان سے منہ پھیر لیا تھا) جب حضور اکرم ۖ غیر
مسلم کو بدون داڑھی دیکھنا پسند نہیں کرتے اور ان سے منہ پھیر لیا کرتے تھے
تو اگر روز قیامت ساقی محشر نے حوض کوثر بغیر داڑھی والے نام نہاد مسلمان
حضرات سے منہ موڑ لیا تو کس کی مجال کہ اﷲ تعالٰی کے دربار میں ان حضرات کی
سفارش کردے۔
اے دور جدید میں اغیار کے طریقوں کو ترقی کی معراج سمجھنے والے ترقی وتجدد
کے متوالے مسلماں! مُڑ کر تو دیکھ۔ کہیں تیری بے حسی، تیری غفلت تیری آخرت
کو خراب نہ کر ڈالے اور تو اس دن اشکبار نہ رہ جائے جس دن رب کائنات تجھ سے
تیرے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیں گے اور تو اپنی سیاہ کاریوں کو اس ذات
سے ذرہ بھر بھی چھپا نہ سکے گا۔ قبر میں تین سوالات ہونگے، ان میں سے ایک
سوال آپ ۖ کی تصویر دکھا کر شخصیت کی معرفت کے متعلق ہو گا اور وہی شخص آپ
ۖ کو پہچان پائے گا جس نے اپنی دنیاوی زندگی میں اپنی خواہشات کو محمد عربی
ۖ کے طرزو طریق حیات کی اک اک ادا پر فدا کیا ہو گا۔
نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا:لایؤمن احدکم حتی یکون ھواہ قبعاً لماجئت بہ
(الحدیث)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک اسکے
دل کی تمام خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں۔
مقام افسوس ہے کہ آج کے مسلمانوں نے عملاً شریعت محمدی ۖ کا گویا انکار
کردیا ہے آپ ۖ کی سنتوں کی پیروی کو چھوڑ کر من چاہی کرنے کو اپنا وطیرہ
بنالیا ہے، اسلام نے پردے کا حکم دیا ہے مگر اکثریت عریانی اور بے پردگی کو
ترقی سمجھتی ہے… اسلام نے سود کو حرام قرار دیا مگر آج کے مسلمان اس کو
معیشت کی خوشحالی کی سیڑھی کہتے ہیں… اسلام نے ناچ گانے سے منع کیا ہے مگر
آج اسلامی معاشرے کی نئی نسل موسیقی کی غذا سمجھتی ہے، حضور اکرم ۖ کے
ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ ''ناچ گانے اور اسکے سازو سامان کو ختم کرنے
کیلئے آیا ہوں، ایک طرف تو حضور اکرم ۖ کا یہ فرمان اور دوسری طرف مسلمان
دھڑ دھڑ ناچ گانے کے آلات خرید کر اپنے گھروں کی زینت بنا رہے ہیں۔
مسلمانوں ہوش کرو! ایک طرف محبت کے دعوے اور دوسری طرف محبوب کے مقصد بعثت
ونبوت کی اس قدر صریح مخالفت!! یہ تو دوگلی پالیسی ہے۔
میرے معزز مسلمان بھائیوں! اگر محمد عربی ۖ کی محبت کے دعویدار ہو، آپ ۖ سے
عشق کا دم بھرتے ہو، روزمحشر اس کی شفاعت چاہتے ہو تو ابوبکر صدیق جیسا
عاشق بن کر دکھا دو، حضرت عمر فاروق کی طرح دین کو عملاً نافذ کر کے دکھا
دو، حضرت عثمان ذوالنورین جیسا معاون بن کر دکھا دو، حضرت علی جیسا پاسبان
ملت بن کر دکھا دو، تم ان کی مثل پیش نہیں کرسکتے اور یقیناً نہیں کرسکتے۔
تو چلو نقل ہی کر کے دکھا دو۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ آج مسلمان دین پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے ہر
جگہ ذلیل وخوار ہیں۔ ہم نے آپ ۖ کی لائی ہوئی اسلامی تعلیمات کو بالائے طاق
رکھ دیا ہے اور دین پر چلنا ہمارے لیے بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ اقبال نے کیا
خوب کہا ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمانں ہوکر
ہم ذلیل وخوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
یہی وجہ ہے کہ آج ہماری حیثیت اقوام کفر کے آگے جوتی جتنی بھی نہیں رہی،
اگر اس تنزل اور قعر مذلت سے نکلتا ہے تو نسخہ واضح ہے کہ مسلمانوں! اﷲ کی
رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور دین اسلام پر عمل کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ
بنالو، کوئی وجہ نہیں کہ دوبارہ ہمیں اسلاف والی شان وشوکت، عزت ورفعت،
سطوت وحکومت اور اختیارو اقتدار حاصل نہ ہو۔
انداز بیاں گرچہ مرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات |