اعتکاف - فضیلت واہمیت اور احکام

”اعتکاف“لغوی اعتبارسے”ٹھہرنے “کوکہتے ہیں۔جبکہ اصطلاحِ شریعت(Tarm of Islamic)میں اعتکاف کامعنی ہے:مسجدمیں اور روزے کے ساتھ رہنا،جماع کوبالکل ترک کرنااوراللہ تعالیٰ سے تقرب اوراجروثواب کی نیت کرنااورجب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرعاًاعتکاف نہیں ہوگالیکن مسجدمیںرہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبارسے ہے۔ عورتوں کیلئے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھرمیںنماز کی مخصوص جگہ کویاکسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ہرمسجدمیں اعتکاف ہو سکتاہے،البتہ بعض علماءنے اعتکاف کیلئے ”جامع مسجد“کی شرط لگائی ہے۔(احکام القرآن:جلد1صفحہ242)

اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف!اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی بجالانے کاایک ایسامنفرد طریقہ ہے جس میںمسلمان دنیا سے بالکل لاتعلق اورالگ تھلگ ہوکراللہ تعالیٰ کے گھرمیںفقط اس کی ذات میںمتوجہ اورمستغرق ہوجاتاہے۔ اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کاذکربھی یوںبیان ہوا ہے۔ارشادِخداوندی ہے:
ترجمہ: ”اورہم نے حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہماالسلام کوتاکیدکی کہ میراگھر طواف کرنے والوں کیلئے،اعتکاف کرنے والوں کیلئے اوررکوع کرنے والوں کیلئے خوب صاف ستھرا رکھیں“۔(سورة البقرہ: آیت نمبر125)

یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیاءحضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کعبة اللہ کی تعمیرسے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے اعتکاف کیاجاتا تھا۔

اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضورسیدالانبیاءمحبوبِ کبریاحضرت محمدمصطفیﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیاہے اوراس کی بہت زیادہ تاکیدفرمائی ہے۔چنانچہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ بے شک حضورنبی کریمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاںتک کہ آپﷺخالق حقیقی سے جاملے۔پھرآپﷺکی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں“۔
(صحیح بخاری،صحیح مسلم)

دوحج اور دوعمروں کا ثواب
Oحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایاکہ:”جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیاتو گویاکہ اس نے دوحج اوردوعمرے ادا کئے ہوں“۔(شعب الایمان)
Oحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف(اعتکاف کرنے والے)کے بارے میںفرمایاکہ:”وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اورنیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جویہ تمام نیکیاں کرتاہو“۔(سنن ابن ماجہ،مشکوٰة )

اس حدیث مبارک سے معلوم ہواکہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اور گناہوں....مثلاًغیبت، چغلی، بری بات کرنے،سننے اوردیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتاہے،ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاںنہیں کرسکتامثلاً قبرستان کی زیارت، نمازِجنازہ کی ادائیگی،بیمارکی عیادت ومزاج پرسی اورماںباپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ لیکن اگرچہ وہ ان نیکیوں کوانجام نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالیٰ اسے یہ نیکیاں کئے بغیرہی ان تمام کااجرو ثواب عطافرمائے گا،کیونکہ معتکف اللہ کے پیارے رسول ﷺکی سنت مبارکہ ادا کررہاہے جودرحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت وفرمانبرداری ہے۔

اعتکاف کی غرض وغایت،شب قدرکی تلاش:
Oحضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا،پھردرمیانی عشرے میںبھی ترکی خیموںمیں اعتکاف فرمایاپھرخیمہ سے سراقدس نکال کرارشادفرمایاکہ: ”میں نے پہلے عشرے میں”شب قدر“کی تلاش میں اعتکاف کیاتھا پھر میںنے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیاپھرمیرے پاس ایک فرشتہ آیااورمجھ سے کہاکہ شب قدرآخری عشرے میں ہے،پس جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرتاتھاتو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہئے “۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم )

مندرجہ بالاحدیث مبارک سے معلوم ہواکہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت”شب ِقدر“کی تلاش وجستجوہے اوردرحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کوپانے کیلئے بہت مناسب ہے،کیونکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویاہوابھی ہوتب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتاہے ۔نیز اعتکاف میںچونکہ عبادت وریاضت اورذکروفکرکے علاوہ اورکوئی کام نہیں رہے گا،لہٰذا شب قدرکے قدردانوں کیلئے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺکامعمول بھی چونکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کا رہا ہے، اس لئے علمائِ کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔

اعتکاف کی روح اورحقیقت
اعتکاف کی اصل روح اورحقیقت یہ ہے کہ آپ کچھ مدت کیلئے دنیا کے ہرکام ومشغلہ اورکاروبارِ حیات سے کٹ کراپنے آپ کوصرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کیلئے وقف کردیں۔اہل وعیال اورگھربارچھوڑکراللہ کے گھرمیں گوشہ نشین ہو جائیں اورساراوقت اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اور اس کے ذکرو فکرمیں گزاریں۔ اعتکاف کاحاصل بھی یہ ہے کہ پوری زندگی ایسے سانچے میںڈھل جائے کہ اللہ تعالیٰ کواوراس کی بندگی کودنیاکی ہرچیز پرفوقیت اورترجیح حاصل ہو۔

اعتکاف کاپہلاحق یہ ہے کہ رمضان المبارک کے پورے آخری عشرے کااعتکاف کیاجائے۔سب سے افضل مسجدمیں اعتکاف کرے، مثلاً مسجدحرام،مسجد نبوی ﷺاورجامع مسجدوغیرہ۔ قرآن وحدیث کی تلاوت اورفقہ اسلامی وتاریخ اسلام کی کتابوں کامطالعہ کرے۔کثرت سے نوافل ادا کرے۔ اپنے تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں،ظاہروپوشیدہ گناہوںپرتوبہ واستغفارکرے اور زندگی بھرکی قضاءنمازیں پڑھتارہے اور صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرکے اپنے ربِّ کریم کوراضی کرنے کی کوشش کرتارہے۔

معتکف اگربہ نیت عبادت خاموش رہے یعنی خاموش رہنے کو ثواب سمجھے تویہ مکروہ ہے اوراگرچپ رہناثواب نہ سمجھے توکوئی حرج نہیں ہے اورفضول وبری باتوں سے پرہیزکرے تویہ مکروہ نہیںبلکہ اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔

جیساکہ ایک حدیث پاک میںحضوراکرمﷺکاارشاد ہے کہ: ”مسجد میںدنیاوی باتیں کرنانیکیوں کواس طرح ختم کردیتاہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے“۔(الحدیث)

معتکف کوچاہئے کہ وہ مدتِ اعتکاف کوآرام وسکون کاایک موقع سمجھ کر ضائع نہ کرے کہ دن رات صرف سوتاہی رہے یایوں ہی مسجدمیںٹہلتارہے بلکہ سونے اورآرام کرنے میں کم سے کم وقت ضائع کرے ....اور اعتکاف کے ایام کواپنی تربیت اورآئندہ زندگی کے سنہری اورخاص دن سمجھے.... اور عبادت وریاضت میں سخت محنت کرے....اس طرح کہ زیادہ سے زیادہ نمازیں خصوصاًاپنی قضاءنمازیںپڑھتارہے ....قرآن وحدیث کی تلاوت کرے.... درودوسلام کاوردکرتارہے ....اورفقہ و اسلامی کتابوں کامطالعہ کرتارہے۔

اعتکاف کرنے والادنیاکے مشاغل سے الگ ہوکرخودکو عبادت الٰہی کے سپردکردےتاہے اوراعتکاف کے ایام میںمعتکف بندہ فرشتوں کے مشابہ ہوجاتاہے، جواللہ تعالیٰ کی بالکل معصیت و نافرمانی نہیں کرتے بلکہ ہمہ وقت اللہ کے احکام پرعمل کرتے ہیں اور دن رات تسبیح وتحمیداورتہلیل وتمجید میںمشغول رہتے ہیں۔نمازی! نمازپڑھ کرچلے جاتے ہیںلیکن معتکف اللہ تعالیٰ کے گھرکو نہیںچھوڑتااوروہیں دھرنا مارکر بیٹھارہتاہے۔ پس اس کیلئے اللہ جل شانہ کی رحمتیں،نعمتیں،برکتیں،سعادتیں اورانعامات واحسانات بھی زیادہ متوقع ہیں۔(تفسیرتبیان القرآن:جلد1،صفحہ737)

اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
اوّل.... اعتکاف ِ واجب
دوم.... اعتکاف ِ سنت
سوم.... اعتکافِ مستحب

اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں اتنے دن کااعتکاف کروں گا اور اس کا وہ کام ہوگیا تویہ اعتکاف کرنا واجب ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہے ادائیگی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کیلئے روزہ بھی شرط ہے،بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔

اعتکاف سنت
اعتکاف ِسنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیاجاتاہے یعنی بیسویں رمضان کوسورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف)میں داخل ہو جائے اورتیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے کے بعد یا انتیسویں(29ویں)رمضان کو عید الفطر کاچاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے.... واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگرکسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے،مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔

اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یا رات میںمسجدمیں داخل ہو تواعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا،اعتکاف کاثواب پائے گا۔یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتاہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے،جب مسجد سے باہر نکلے گاتواعتکاف ِمستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔

مفسداتِ اعتکاف
Oاُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ.... اعتکاف کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ وہ(حالت ِاعتکاف میں)مریض کی عیادت کونہ جائے اورنہ ہی نمازِجنازہ میں شریک ہواورنہ ہی عورت کے ساتھ مباشرت وجماع کرے اورنہ کسی کام کیلئے نکلے سوائے ضروری (طبعی اورشرعی ) حاجتوں کے اور اعتکاف روزہ کے ساتھ ہی ہوتاہے اوراعتکاف ایسی مسجدمیں ہوتاہے،جہاںنماز باجماعت ہوتی ہو“۔(سنن ابی داﺅد،مشکوٰة المصابیح)

کسی شرعی عذرکے بغیرمسجدسے باہرنکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبرازکیلئے اورنمازِ جمعہ کیلئے جاناشرعی عذرہے....وضوکیلئے اور غسل جنابت کیلئے جانابھی عذرشرعی ہے....کھانے،پینے اورسونے کیلئے مسجدسے باہرجاناجائزنہیں ہے اوراگرکوئی مریض کی عیادت کیلئے یانمازِ جنازہ پڑھنے کیلئے مسجدسے باہرگیاتواس کااعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

اعتکاف کی قضا ء
فقیہ ا لامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ(متوفی1252ھ) لکھتے ہیں کہ: ”رمضان المبارک کے آخری عشرے کااعتکاف ہرچندکہ نفل(سنت مؤکدہ) ہے،لیکن شروع کرنے سے لازم ہو جاتاہے۔اگرکسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسدکردیاتوامام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضاءلازم ہے،جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اورامام محمدبن حسن شیبانی رحمة اللہ علیہماکے نزدیک اس پرصرف اسی ایک دن کی قضاءلازم ہے۔(ردالمحتار:131/2)

اعتکاف کی قضاءصرف قصداًوجان بوجھ کرہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگرکسی عذرکی وجہ سے اعتکاف چھوڑدیامثلاًعورت کوحیض یانفاس آگیا یاکسی پر جنون وبے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہوتواس پربھی قضاءلازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوںتوتمام کی قضاکی حاجت نہیںبلکہ صرف اتنے دنوں کی قضاکرے،اوراگرکل دن فوت ہوںتوپھرکل کی قضاءلازم ہے۔

بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ گرمیوں کے موسم میںدس دن بغیر غسل کے گزارناسخت تنگی کا باعث ہے۔ساراجسم پسینہ سے شرابورہوجاتا ہے اورگرمی وبدبوسے براحال ہوجاتاہے توکیااس صورت میںیہ ممکن ہے کہ بدن کوٹھنڈک پہنچانے کیلئے غسل کرلیا جائے،توعرض یہ ہے کہ جس طرح روزے میں ایک گھونٹ پانی پینے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے،اسی طرح اعتکاف میں ایک بار بھی بغیرحاجت انسانی اورضرورتِ شرعیہ(مثلاًنمازِ جمعہ پڑھنایااحتلام کے بعدغسل کرنا)کے نکلنے سے اعتکاف باطل ہو جاتاہے۔

دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کوسنت اعتکاف اوراس کی حقیقت اورروح پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اورہمیں اس کی بے حساب رحمتوں اور برکتوںسے فیض یاب فرمائے۔آمین
Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 195525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.