رواں برس پاکستان اور چین سفارتی تعلقات کے قیام کی 70
ویں سالگرہ منا رہے ہیں اور ابھی حال ہی میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ نے
اس حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی اور سرگرمیوں کا باضابطہ افتتاح
کیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ جہاں دنیا کے نزدیک دونوں ممالک کی دوستی بے
مثال ہے وہاں پاکستان اور چین کی اعلیٰ قیادت بھی اسے ایک عظیم اسٹریٹجک
اثاثہ قرار دیتی ہے۔ان ستر برسوں میں مختلف آزمائشوں کا مل کر سامنا کرتے
ہوئےپاک۔چین دوستی بلاشبہ خلوص ، ہمدردی، اشتراک ،ہم آہنگی ، باہمی خیر
سگالی ، اعتماد ،احترام کے ایک ایسے مضبوط سانچے میں ڈھل چکی ہے جسے توڑا
نہیں جا سکتا ہے۔ پاکستان بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) کا ایک اہم
شراکت دار ہے اورچین پاک اقتصادی راہداری بی آر آئی کا ایک فلیگ شپ منصوبہ
ہے جو پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
سی پیک چین اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان اپنی ترقیاتی حکمت عملیوں میں
ہم آہنگی کے لئے ایک عمدہ مثال بن چکی ہے ۔ سی پیک کے تحت گوادر بندرگاہ کی
تعمیر و ترقی ، نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری ، توانائی اور صنعتی
تعاون کے فروغ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ تاحال سی پیک
کے تحت 70 ارلی ہارویسٹ منصوبوں میں سے 46 کی تکمیل ہو چکی ہے۔اب تک مجموعی
طور پر 25.4 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے ہے ۔ عوام سی پیک کے ثمرات
سے لطف اٹھا رہے ہیں ،توانائی کے منصوبوں کی بدولت بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر
قابو پانے میں مدد ملی ہے ،ملک بھر میں شاہراہوں کے نیٹ ورک سے نقل و حمل
کی بہتر سہولیات میسر آئی ہیں ،لاہور میں ٹرانسپورٹیشن کا جدید منصوبہ
میٹرو ٹرین سروس" اورنج لائن" فعال ہو چکی ہے ،روزگار کے 70ہزار سے زائد
مواقع میسر آئے ہیں ،ملک میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کیے جا رہے ہیں جبکہ
تجارت ، صحت ،تعلیم ،زراعت ،ٹیکنالوجی اور دیگر بے شمار شعبہ جات میں
تبادلہ و تعاون کو فروغ ملا ہے۔
ابھی حال ہی میں چین کے سالانہ "دو اجلاسوں" کے دوران اعلیٰ چینی قیادت کی
جانب سے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ بی آر آئی کی اعلیٰ
معیار کی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو
حالیہ عرصے میں وبا کے چیلنج اور عالمی معاشی کساد بازاری کے باوجود بی آر
آئی کے تحت نہ صرف انفراسڑکچر منصوبوں کی تعمیر کو آگے بڑھایا گیا ہے بلکہ
مختلف ممالک کے درمیان تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملا ہے۔دنیا
کے کئی ترقی پزیر ممالک، جہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر عوام کی بنیادی خواہش
تھی بی آر آئی کی بدولت اُن کے خوابوں کی تکمیل ہوئی ہے اور انہیں نقل و
حمل سمیت روزگار ، بہتر معیار زندگی میسر آیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی رائے
عامہ کے خیال میں چین دنیا کا ایک ایسا اہم ملک بن چکا ہے جس نے اقوام کو
جوڑنے ، رکاوٹوں کو ختم کرنے اور محدود وسائل کے حامل ممالک کو ترقی سے
ہمکنار کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
چین کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو مشترکہ عالمگیر ترقی
کا ایک زینہ ہے ،ترقیاتی ثمرات کو محض چند ممالک تک محدود نہیں ہونا چاہیے
بلکہ دنیا کے سبھی ممالک بالخصوص ترقی پزیر ممالک کو بھی ترقی اور خوشحالی
کے سفر میں ساتھ لے کر چلا جائے۔اسی نظریے کے تحت چین بی آر آئی کی اعلیٰ
معیار کی ترقی کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ بی آر آئی کو آگے بڑھاتے ہوئے چین نے
ہمیشہ مشترکہ مشاورت کے اصول کا احترام کیا ہے ، مشترکہ تعمیر کے اصول پر
عمل پیرا رہا ہے اور مشترکہ مفاد کے اصول کو ترجیح دی گئی ہے۔اس وقت چین
ایک نئے ترقیاتی نمونہ پر عمل پیرا ہے جس میں بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے
لئےبھی مزید بہتر راہیں تلاش کی جا رہی ہیں لہذا پاکستان سمیت بیلٹ اور روڈ
کے دیگر شراکت داروں کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ چین کے ترقیاتی
ثمرات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔ چین نے بھی حالیہ دو اجلاسوں کے
دوران اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ایک نئے عزم اور عمدہ لچکدار رویوں کے
ساتھ اعلی معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کو آگے بڑھانے کے لئے تمام متعلقہ
فریقین کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔
اعلیٰ معیار کے پیمانوں کا تذکرہ کیا جائے تو بلاشبہ اس میں تکنیکی جدت،
کھلے پن ،شفافیت،اشتراکی ترقی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ
چینی صدر شی جن پھنگ کے وژن کی روشنی میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو ایک
"گرین ترقیاتی" میکانزم میں ڈھالا جائے گا۔ ایسی ترقی کی جستجو کی جائے گی
جو سرسبز ، کم کاربن ، گردشی اور پائیدار کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو۔یہی
وجہ ہے کہ بی آر آئی کثیرالجہتی کی حمایت سمیت عالمی معاشی نمو کو فروغ
دینے میں معاونت کا ایک نیا اقدام ہے ۔ کووڈ۔19 اور عالمی معاشی گراوٹ کے
تناظر میں بی آر آئی نہ صرف خطرات سے نمٹنے کا ایک لچکدار مظہر ثابت ہو رہا
ہے بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن کر ابھرا ہے جہاں شراکت داروں کو انسداد وبا
، معاشی استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کے لئے معاونت فراہم کی جا رہی ہے ۔
یہ امید کی جا سکتی ہے کہ چین کے 14ویں پنج سالہ منصوبے اور 2035کے طویل
المدتی ترقیاتی اہداف کی روشنی میں بی آر آئی ، پاکستان سمیت چین کے دیگر
ہمسایہ ممالک کی ترقی و خوشحالی کے لیے نئے امکانات لائے گا اور چین نے جس
طرح ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے کرشماتی ترقی کی ہے باقی ممالک بھی چین
کے تجربے سے سیکھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھا سکیں گے۔
|