دہلی سے لیکر سعودی تک،ممبئی سے لیکر مدینہ تک جائزہ
لیاجائے تو اُمت مسلمہ کی رہنمائی کرنے والے علمائے دین جن میں سے علمائے
سو ہٹادیاجائےتو وہ علمائے حق ظلم وستم کا شکار ہورہے ہیں اور جن علماء سے
حق و باطل کی شناخت دنیا میں ہوسکتی ہے انہیں حق کہنے سے روکاجارہاہے۔گھوما
پھرا دیکھا جائے تو علمائے کرام کہیں حکومتوں کی دبائومیں ہیں تو کہیں
تنظیموں کے دبائومیں ہیں،تو کہیں پرمسجدوں کے معمولی اُن صدر وسکریٹری کے
ظلم و ستم کاشکارہیں جنہیں اسلام کے الف کے معنی تک معلوم نہیں ہیں۔ان
علمائے کرام کو توڑنے اور کمزور کرنے کیلئے بالکل وہی راہیں اختیارکی جارہی
ہیں جو ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی اپنے حریفوں کو توڑنے کیلئےاستعمال
کررہے ہیں۔جس طرح سے وزیر اعظم مودی کبھی ای ڈی چھاپے کرواتے ہیں تو کبھی
این آئی اے کے چھاپوں کے ذریعے سے اپنے ناقدین کو ضرب لگاتے ہیں۔بالکل اسی
طرح سے علمائے حق کا بھی یہی حال ہے۔وہ پوری زندگی سے حق کو سیکھنے اور
باطل کو زیر کرنے کیلئےلگادیتے ہیں ،لیکن ان کی مجال ہے کہ وہ مسجدوں
ومدرسوں میں کھڑے ہوکر حق کیلئے آواز اٹھائیں۔اگر یہ لوگ آواز اٹھانا
شروع کردیتے ہیں تو انہیں ان کے عہدوں سے برطرف کرنے کا سلسلہ شروع
کردیاجاتاہے۔ان مسلم علماء کے وجود کو ختم کرنے کیلئے نااہل ،لاعلم اور
جاہل قسم کے لوگ متحد ہوجاتے ہیں۔مسلسل یہ باتیں سامنے آرہی ہیںکہ سعودی
عرب جیسے اسلامی ملک میں حق کیلئے بات کرنے والے علماء کو یا تو نوکریوں
سےبرطرف کیاجارہاہے یا پھرجیلوں میں ٹھونسا جارہاہے۔مگر ہمارے ہندوستان کی
بات کی جائے تو علماء،موذنوں و مقرین کو باقاعدہ طور پرنوکریوں سے بے دخل
کیاجاتا ہے اورانہیں ڈرانے و دھمکانے کا سلسلہ بھی عا م ہوچکاہے۔عیسائیوں
میں پوپ کا مقام سب سے اعلیٰ ہوتاہے،حالانکہ یہ قوم اہل کتاب ہونے کے
باوجود اب باطل قوم میں شمار ہوتی ہے،باوجود اس کے اُن کے یہاں اُن کے
فادر،سسٹر،مدراور بردر جیسے راہبوں کی قدر منزلت ہے اورجس طرح سے ان کی قوم
میں انہیں قابل اطاعت ماناجاتاہے وہ نظام مسلمانوں میں بالکل بھی نہیں
ہے۔دوکوڑی کے مساجد کے ذمہ داران جنہیں نہ کلمہ کا طریقہ کا معلوم ہے نہ
طہارت کا طریقہ جانتے ہیں وہ لوگ علماء کے منصف بن گئےہیں،جس قوم میں اُن
کے مذہبی پیشوائوں اور اساتذہ کی عزت و احترام کرنے کا طریقہ نہ ہو وہ قوم
یقیناً زوال کی جانب جاتی ہے۔آج جس طرح سے علماء کو پیر کی جوتی سمجھ رکھے
ہیں وہ یقیناً مسلمانوں کیلئے افسوس کی بات ہے۔مسجدوں و مدرسوں میں خدمات
انجام دے رہے علماء کیلئے12-10 یا 20 ہزار روپیوں کی تنخواہ کا حساب ذمہ
داران مساجد و مدارس کیلئے بہت بڑی رقم دکھائی دیتی ہے،لیکن خود کیلئے
مہنگائی کے دور میں تنخواہوں کا اضافہ،آمدنی کے وسائل میں اضافہ کرنا
ضروری سمجھاجارہاہے۔انہیں اس بات کی حقیقت سمجھ ہی نہیں آرہی ہے کہ جیسا
پیٹ صدر کا ہوتاہے ،اُسی طرح کا پیٹ مولانا کا بھی ہوتاہے،سکریٹری کی بیوی
کی طرح،مولاناکی بیوی کے بھی خواہشات ہوتے ہیں،مسجدومدرسے کےکمیٹی کے ذمہ
داروں کے بچے بہترین اسکولوںمیں پڑھیںاور علماء واساتذہ کے بچے سرکاری
اسکولوںمیں پڑھیں،یہ کیسا انصاف ہے۔ہماری ضرورت ،ضرورت ہے،مولوی کی ضرورت
شریعت ہے۔اگر علماء،حفاظ و موذنین کی اسی طرح سے بے ادبی کی جائے تو
مسجدوںمیں اذان دینے سے لیکر امامت کرنے تک کیلئے بھی فاسقوں کا استعمال
کرنا پڑیگا۔جس طرح سے کچھ اسکولوں میں سائنس کے ٹیچر کو اردو پڑھانے کی ذمہ
داری بھی دی جاتی ہے،اسی طرح سے یہودی قرآن کی کچھ آیتیں پڑھ کر مسلمانوں
کی امامت کرینگےاور اُس وقت مسلمان اسے مجبوری کا نا م دینگےیا پھر کنارہ
کشی کرلیں گے۔ |