ہینڈ آؤٹ

یہ ایک سرکاری ٹرم ہے جو اخبار کیلئے استعمال کی جاتی ہے انگریز کے دورسے چلے آرہے اس ہینڈ آؤٹ نے آج کسی دفتر اخبار ٹی وی ریڈیو دیگر ذرائع ابلاغ کا پیچھا نہیں چھوڑا وقت کے ساتھ ساتھ صحافیوں نے ہینڈ آؤٹ لینے سے انکار کر دیا یوں سمجھیں ہینڈ آؤٹ کے ذریعے دی جانے والی ٹریٹ اتنی کم ہوتی تھی کہ ہینڈ آؤٹ شوق سے لینے والوں کو بھی کئی بار مہنگا اس لئے پڑا ایک چائے کا کپ دو بسکٹ یا پھر سابقہ ادوار کی طرح میں پانچ سو کا نوٹ ایک عرصے تک ایسے ہینڈ آؤٹ جاری ہوتے رہے اور کافی قلمکاروں کو اس کی لت لگ گئی سرکار چاہتی بھی یہی ہے کہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کے منہ بند کر دیے جائیں کئی قسم کے ہینڈ آؤٹ ہوتے ہیں اور بعض اس کو پریس ریلیز کے نام سے بھی جانتے ہیں ہینڈ آؤٹ اور اور پریس ریلیز ایک ہیں یا دو بحث یہ نہیں ہے۔آج کے ہینڈ آؤٹ کا مطلب ہے جو دی گئی دستاویزات میں لکھا ہے وہی اخبارات شائع کرنے کے پابند بھی ہوں گے وقت کے ساتھ ساتھ اخبارات کے بنیادی قوانین میں ایک قانون بھی بنایا گیا کہ ہر اخبار ہینڈ آؤٹ جاری کرنے کا پابند ہو گا کافی عرصہ ہینڈ لفافے کی شکل میں تقسیم ہوتا رہا۔انگریزی زبان کے اس لفظ نے نہ صرف صحافیوں کوپریشان کیا رکھا ہے بلکہ سرکاری اداروں کے ان پڑھ کئی افسران کو بھی یہ نہیں معلوم کہ ہینڈآؤٹ ہے کیا ہر ضلع میں اخبارات سے لین دین کیلئے صحافیوں کی خاطر تواضع اور ان کو درپیش مسائل کے حل کیلئے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بنائے گئے جن کی ذمہ داریوں میں روزانہ کے اخبارات کے بل اور ان کی خاطر داری موجود ہے مگر کچھ اضلاع میں سرکارنے اپنے اچھے برے کاموں پر پردہ ڈالنے کیلئے صحافیوں کے درمیان سے کچھ صحافی بھرتی کر لئے وہ صحافی نہیں بلکہ اب سرکاری ملازم ہیں اور اپنے آقا کے سامنے اپنا ضمیر گروی رکھ کر چند ہزار روپے کماتے ہیں اس لئے جمعہ کے روز بازار بند کے ٹریفک کی روانی کے سیٹ بنا کر شائع کرنے کے پابند ہیں چلیں حضرات وہ تو ٹھہرے سرکاری ملازم ان کی مجبوری ہے جو سرکار حکم جاری کرے گی وہ انہیں پورا کرینگے۔ایسی بات نہیں صدیوں پہلے بھی ضمیر فروش صحافی پاکستان کا حصہ رہ چکے ہیں کالج کے دنوں میں جب ہمیں خدمت خلق کا شوق چڑھا تو صحافت کے شعبے کو جب چنا تو چند گھیانی صحافیوں نے پہلا سبق یاکہ َ
،،چاول کے پیالے پر نہیں بکنا،،
افسوس اس وقت میرے صبر کا پیمانہ توڑ چکا تھا جب معزز جج صاحب نے کہا وحید ڈوگر جیسے صحافی ٹاؤٹوں سے ملک بھرا پڑا ہے افسوس یہ نہیں کہ ایسے لوگوں کو ٹاؤٹ کیوں کہا جاتا ہے افسوس اس بات کا ہوتا ہے ایسے لوگوں کے ساتھ صحافت کا نام جڑ جاتا ہے اب تو میں روز ہی کہوں گا کہ صحافیوں سے ٹاؤٹ نکالنے جائیں اور صحافت کو کھلی فضاؤں میں سانس لینے دی جائے ہمارا دم گھٹنے لگا ہے۔میرا بھی یہی رونا ہے

بات کو سمجھ چکا تھا کہ گھیان کیا ہے کہ یہاں بھوک ہے سفر ہے تھکن ہے اور اعصاب شکن کام ہے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بکنا مگر اپنا ریٹ مناسب رکھنا اور میں مسکرا دیا کہ اب یہ دیکھنا ہے بکاؤ کون کون ہے پھر کیا ایک وقت آیا کہ میں پر خود بھی شک کرنے لگا کہ کہیں کوئی ہینڈ آؤٹ تو نہیں لے بیٹھا یاد کرنے پر بھی کوئی ایسا ہینڈآؤٹ سامنے نہیں آیا جو ہم نے وصول کیا ہو۔ملک کے آدھے سے زیادہ صحافی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ اس لئے ہینڈ آؤٹ بند ہو چکے ہیں وہ جو سرکار کی جانب سے ورکر صحافیوں کی مالی اعانت کی جاتی تھی بند ہو گئی جیسے کہ ہمارا ملک انقلابیوں سے بھرا پڑا ہے ہمارے ملک میں انقلاب صرف اس صورت میں آتا ہے جب کسی ادارے کو ٹھیکے پر دینا ہو یا پھر اس سے کسی اور نے اپنا حصہ وصول کرنا ہو۔باقی70سالوں سے پوری دنیا کے سامنے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا مگر آج تک ان کے گریبانوں کا تک ہاتھ نہیں ڈالا گیا آج تک کوئی عدالت ان لیٹروں کو سزا نہیں دے سکی تکلیف اس وقت شدید اسلئے ہوتی ہے کہ جب ایک رکشہ چلانے والا کہتا ہے کہ سینٹ کا الیکشن کیسے ہوتا ہے سب لوگ جانتے ہیں مگر اس بار تو کھل کرکمپنی سامنے آگئی کان پک چکے ہیں یہی جملے سن سن کر خرابی کون تلاش کرے گا ہمارے سیاستدان اپنے ہی اداروں کے خلاف عوام کی ذہن سازی کر رہے ہیں اور ذہن سازی میں آدھی صدی بیت گئی اب اس کا رسپانس ملنا شروع ہو چکا ہے دنیا کا ناکام ترین شخص بھی چائے کی دکان پر بیٹھ کر موبائل ہاتھ میں پکڑ پچاس روپے والا ماہانہ وٹس ایپ پیکج لگا کردنیا کو اپنے انگلیوں کے نیچے سمجھتا ہے بلکہ وہ اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کر تا چاہے اس کی بکواس کی اسے خود بھی سمجھ نہ آئی ہے۔اور وہ اس جملے کو سچ ثابت کرنے میں مبتلا ہوچکا ہے کہ دنیا میری انگلیوں پر ناچتی ہے۔اس کے دور کے تمام۔۔ادیب اتنے بونے ہیں کہ جناب جون نے کہاتھا دبئی جیسے مشاعرے میں کہ ان لوگوں میں ایک بونا شاعر ہوں،، خیر اس بات کی سمجھ کسے آئے آج شاعر کے ذہن پر تالے لگ چکے ہیں اسکی زبان میں میٹھاس کی بجائے منافقت کی بو آتی ہے صحافیوں کے پاس بیٹھنے سے خوف آتا ہے کہ ہماری کی تصویر بنا کر کوئی خبر نہ بنا لیں پچھلی تین دہائیوں سے مقامی۔ قومی صحافت کا حصہ رہ چکا ہوں اب بھی لگتا ہے اپنا فرض ادا نہیں کر سکے سلسلہ روکا نہیں ہینڈ آؤٹ آہستہ یاآہستہ ای میل پر آنے لگے وہ جو لفافے کی امید ہوتی تھی وہ بھی مر گئی اور کچھ لوگوں نے ہینڈآؤٹ جاری کر کے اپنا کام چلانا شروع رکھا اور کچھ با ضمیر ہینڈآؤٹ کو اپنی مرضی سے شائع کرتے اگر کوئی خبر ہوتی اشاعت ہوتی ورنہ ٹوکر ی میں پھینکنے سے کوئی نہیں روک سکتا میں جب بھی کبھی منیب الرحمن (مرحوم) ایڈیٹر صاحب کے کیمرے میں ان سے مشورہ لینے جاتا تو تو وہ ہینڈ آؤٹ پر چائے کا کپ رکھ دیتے ہینڈ آؤٹ کپ صاف کرنے کے کام آنے لگا میں نے ایک دن اس چیز کے خلاف بغاوت کی کہ جو لوگ اچھے ہیں جو اچھے کام کرتے ہیں جن کی کاکردگی تفصیل سے عوام کے سامنے پیش کرنا درکار ہے اور اہم صحافتی فریضہ بھی ہو صحافتی ذمہ داری کیسے پوری ہوگی جہاں اخبارت کے دفاتر میں ایسی صورت حال تھی قلم کی طاقت کا اندازہ حکومتوں کو چکا تھا ہر شہر سے ہینڈآؤٹ کے بر عکس خبر ملی سچی خبریں شائع ہونا شروع ہو گئیں سرکاری ملازمین کو عوام کی خدمت کرنا پڑی اپنے ٹھنڈے ٹھار کمروں سے نکل سڑکوں پر آنا پر ملک ترقی کی رہ پر چل پڑا۔۔مگر پھر کیا ہوا سیاست تو سیاست ہوتی پھر سیاست نے اپنی سیاست سے صحافت کی اعلیٰ ترین ڈگریاں لینے والوں کو اپنا ملازم رکھ لیا وہ پڑھا لکھا طقبہ اب اپنے ہی صحافی بھائیوں کے خلاف سخت ترین قانون سازیاں کروا رہے ہیں اور کیا؟؟ صحافیوں کو خریدنے کی بجائے انہوں اخبارات کے چیف ایڈیٹران اور مالکان کو ہی خرید لیا چند بڑے اداروں کو سفید ہاتھی بنا دیا گیا اب بھی کوئی صحافی اپنا شوق پورا کرنے چاہے تو کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کی کارستانیاں اسکینڈل اخبارات یا ٹی وی چینلز کو بھیجیں گے تو پہلا اعتراض ثبوت کمزور ہے فالو اپ کہاں خبر کہاں کرپشن کتنی ہوئی وغیر ہ وغیرہ پھر ایک دور آیا ہر جاہل آدمی کے پاس اپنا ڈیکلریشن ہے اور صحافت کی رہی سہی عزت ان لوگوں نے زندہ درگور کر دی پڑھے لکھے افراد بھی اب اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اور وہ منشیات فروشوں کے اشتہارت شائع کر کے اپنی پر امن روٹی کما رہے ہیں۔گزشتہ روز اعلیٰ عدلیہ کے ریمارکس تھے کہ موجودہ حکومت ملک کو گٹر کی طرف لے جا رہی ہے اور ہمارے حکمران ہیں ابھی تک الیکشن کے صدمے سے ہی باہر نہیں آئے جو جیتا وہ بھی پریشان ہے جو ہارا ہے وہ بھی پریشان ہے جانے کب ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو گا۔ آخرصحافیوں کے بچوں اور ان کی تعلیم کے بارے کون سوچے گا۔اگر عدلیہ نے اس پر ایکشن نہ لیا تو ملک میں آپ کو ہر جگہ وحیدر ڈوگر ہی نظر آئیں
ملک کے چوتھے ستون کو سہارے کی ضرورت ہے

 سیف علی عدیل
About the Author: سیف علی عدیل Read More Articles by سیف علی عدیل: 18 Articles with 23053 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.