فروری سال کا وہ مہینہ ہے جس کی 21تاریخ کو دنیا بھر میں
زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔17 نومبر 1999ءمیں یونیسکو نے یہ دن منانے
کا اعلان کیا اور 2000ءسے یہ پوری دنیا میں منایا جارہا ہے۔2008ءمیں اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس حوالے سے قرارداد کی منظوری کے بعد اس سال کو
عالمی زبانوں کے سال کے طور پر منایا گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں
75 زبانیں ایسی ہیں جنہیں بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے جبکہ 8
زبانیں ایسی ہیں جنہیں بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو
دنیا کی مجموعی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا
استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 7
ہزار 4 سو 57 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 360 متروک ہوچکی ہیں۔
زبانوں سے متعلق تحقیق کرنے والی ایک ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کی قومی
زبان اردو ہے ‘ملک میں 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جس میں سے 66 زبانیں مقامی
اور 8 بین الاقوامی زبانیں ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری درسگاہوں میں 7 زبانیں
پڑھائی جاتی ہیں‘ 17 زبانیں ابھی پروان چڑھ رہی ہیں‘ 39 سے زائد بولی جاتی
ہیں‘ 9 زبانیں شکلات کا شکار ہیں جبکہ 2 معدوم ہورہی ہیں۔تحقیق کے مطابق
پاکستان کی قومی زبان تو اردو ہے لیکن اس کے بولنے والوں کی تعداد7.08فیصد
ہے۔ ملک میںپنجابی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جسے 38.78فیصد
پاکستانی بولتے ہیں جبکہ 14.57فیصد سندھی‘ 12.19 فیصد سرائیکی‘ 18.24 فیصد
پشتو‘.02 3 فیصد بلوچی‘ 2 فیصد ہندکو اور ایک فیصد افراد براہوی زبان بولتے
ہیں ۔
قومی و مادری زبان انسان کی شناخت‘ ابلاغ‘ تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ
ہوتی ہے ۔ زبان کے ناپید ہونے کیساتھ نہ صرف مختلف طرح کی ثقافتیں ختم
ہوجاتی ہیںبلکہ ان میں شامل مختلف روایات‘ منفرد انداز فکر اورمستقبل کے
بیش قیمت ذرائع بھی معدوم ہو جاتے ہیں ۔اس حقیقت کو نظرمیں رکھیں تو ہمیں
اندازہ ہوگا کہ ہم اپنی قومی اور مادری زبانوں کےساتھ کیا سلوک کررہے ہیں
اور ہم کس جانب جارہے ہیں ۔آج ہم انگریزی زبان کی چاہت میں کچھ اس طرح سے
مبتلا ہیں کہ نہ صرف قومی بلکہ مادری زبان بولنے میںبھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے
ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک کیفے میں ہونے والا واقعہ بھی اسی سلسلے
کی ایک کڑی ہے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انگریزی کو فراموش کر دیا جائے بلکہ فی
زمانہ اس کا سیکھنا بہت ضروری ہے لیکن ایک زبان کے طور پر۔ بچوں کو پہلی
جماعت سے ہی اردو کےساتھ انگریزی زبان سکھانے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن
اس کےساتھ ساتھ اپنی نئی نسل کو نہ صرف قومی بلکہ مادری زبانوں سے روشناس
کرایا جانا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
آج ہماری پوری قوم اپنی زبان کے حوالے سے شدید احساس کمتری کا شکار ہے ‘اس
سوچ کو بدلنے ہوگا‘ہمیں خود کو اس زعم سے آزاد کرنا ہو گا کہ جسے انگریزی
لکھنی اور بولنی آتی ہے صرف وہ قابل ہے۔ قابلیت کا معیار انسان کا کام ہونا
چاہئے نہ کہ کسی ایک خاص زبان سے شناسائی اور اس میں مہارت ہونا۔ہمیں قومی
زبان کو اس کا جائز مقام دیتے ہوئے اپنی مادری زبانوں کو عزت دینا بھی
سیکھنا ہوگا۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے اس وقت تک اسلام آباد کیفے جیسے
واقعات ہوتے رہیں گے۔ |