جس طرح ہر ریاست کاایک بارڈر ہے اس طرح انسانوں کی
انفرادی اوراجتماعی آزادی کی بھی حدود مقررہیں ۔ہم علم سیاسیات کی روشنی
میں دیکھیں تو جہاں سے ایک انسان کی ناک شروع ہو وہاں دوسرے کی آزادی
کااختتام ہوجاتا ہے۔جو کام یااقدام کسی فرد واحد یا معاشرے کیلئے Shock)
(ـ"شوک "کاسبب ہو وہ عہدحاضر میں "شوق" ہرگزنہیں ہوسکتا۔ پتنگ سازوں، پتنگ
فروشوں اورپتنگ بازوں کواپنے نام نہادکاروبار یا شوق کی آڑمیں بیگناہ
شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جس سے کسی دوسرے کی
آزادی تودرکناربیش قیمت زندگی متاثر ہونے کاشدیدخطرہ ہواسے تفریح یاثقافت
کہنا بدترین جہالت ہے۔مہذب معاشروں میں پتنگ سازی نہیں بلکہ تن سازی کوفروغ
دیاجاتا،وہاں" پتنگ فروش" نہیں "سرفروش" ہیروز ہوتے ہیں ۔مثالی معاشرے
کانوجوان طبقہ نائٹ کلب نہیں بلکہ مختلف سپورٹس کلب اور باڈی بلڈنگ کلب
کواپنی صحتمند سرگرمیوں کامحورومرکز بناتا ہے ۔ راقم کے نزدیک میاں
شہبازشریف کاواحد مستحسن اقدام پتنگ سازی اورپتنگ بازی پرپابندی لگانا تھا
جو تبدیلی سرکار کے صوبائی وزیرفیاض الحسن چوہان کی عجلت ، شوخی اور شعبدہ
بازی کے نتیجہ میں نہ صرف پھر سے شروع ہوگئی بلکہ اس نے اب تک متعدد معصوم
بچوں اورمقامی مادرعلمی کے پروفیسر سمیت ہرعمر کے بیسیوں شہریوں کولقمہ اجل
بنادیاہے ۔جس تھانہ کی حدودمیں قاتل ڈور کسی بچے یا بڑے کوموت کے گھاٹ
اتاردے وہاں ایس ایچ اوکو ناحق معطل کردیا جاتا ہے لیکن آج تک کپتا ن نے
فیاض الحسن چوہان کوانصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیااورنہ کسی منتخب نمائندے کی
معطلی سننے میں آئی۔جس طرح ہسپتال میں ناقص صفائی پرمیڈیکل سپرنٹنڈنٹ
کومعطل کردیاجاتا ہے اس طرح آبایوں میں گندگی کے ڈھیر دیکھتے ہوئے مقامی
منتخب نمائندوں کیخلاف بھی ایکشن لیا جائے۔ جس معاشرے میں تجویزدینے کی
بجائے تنقیدکرنے کارواج ہووہاں اندھیرے اورانگارے راج کرتے ہیں،ہمارا
حکمران اورارباب اختیار طبقہ ڈنگ ٹپاؤ منصوبہ بندی کے تحت فیصلے کرتا ہے ،
سطحی سوچ کے ساتھ چیلنجزکامقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔کیا پتنگ سازی ،پتنگ
بازی ،منشیات فروشی، جسم فروشی، چوری،جعلی ادویات کی تیاری وتجارت ،جنسی
درندگی اوردوسری سماجی برائیوں کے آگے بندباندھنا صرف ایس ایچ اوسمیت تھانہ
میں تعینات دوسرے اہلکاروں کا درد سر یافر ض منصبی ہے ،منتخب نمائندے ،علماء
حضرات اوراساتذہ سمیت معاشرے کے دوسرے طبقات اپنا کرداراداکیوں نہیں
کرتے۔پولیس دستیاب وسائل کے ساتھ اپنے دائرہ کارمیں آنیوالے مسائل کوشکست
نہیں دے سکتی ۔ کیا پتنگ سازوں ،پتنگ فروشوں اورپتنگ بازوں کیخلاف بیانات ،نام
نہاداقدامات، کریک ڈاؤن ،مقدمات ،گرفتاری اوردوسرے روزرہائی سے قاتل ڈور
پھرنے سے دلخراش اموات کا سلسلہ تھم جائے گا،تومیراجواب ہے ہرگز نہیں
کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مکالمے کی بجائے اپنی ناکامی کاملبہ دوسروں
پرگرانا ہمارا کلچر بن گیا ہے۔جوخودکچھ نہیں کرتے وہ اداروں اورمحکموں
کوتجاویز تودے سکتے ہیں،اداروں اور معاشرے کے مختلف کرداروں کے مابین
مکالمے اور مشاورت سے ہرطرح کے معاشرتی مسائل کاپائیدارحل تلاش کیاجاسکتا
ہے ۔سی سی پی اولاہور غلام محمودڈوگر،آر پی اوسرگودھا اشفاق احمدخان،آرپی
اوفیصل آباد رفعت مختارراجا ،ڈی آئی جی آپریشنز لاہورساجدکیانی،ایس ایس پی
آپریشنزلاہور احسن سیف اﷲ،ڈی پی اوسرگودھا چوہدری ذوالفقار،ڈی پی اوخوشاب
محمدنوید اوردوسرے شہروں کے آر پی اوز یاڈی پی اوز پتنگ بازی اورپتنگ سازی
کے مستقل سدباب کیلئے معاشرے کے مختلف طبقات سے مشاورت اوراپنے مشاہدات کی
روشنی میں دوررس اصلاحات کریں۔
ماضی میں لاہورکے سابقہ انتھک س سی پی او کیپٹن (ر)محمد امین وینس اور
سابقہ مستعد سی ٹی او لاہور طیب حفیظ چیمہ کے دورمیں راقم نے اپنے کالم میں
نوجوانوں کو ون ویلنگ سے روکنے کیلئے چند اہم تجاویز دیں توان کی روشنی میں
اس وقت ون ویلنگ کرنیوالے نوجوانوں کے ماں باپ کوسی سی پی اولاہورآفس میں
مدعو اوران کے ساتھ مکالمے کااہتمام کیا گیاتھا ،اس اقدام سے ون ویلنگ کے
خطرناک رجحان میں خاطر خواہ حدتک کمی آئی تھی۔اب لاہور بھر میں شاہراہوں
پرگاڑیوں کی آمدورفت میں تعطل اورون ویلنگ دیکھتے ہوئے مجھے یہ شہرایک
پروفیشنل سی ٹی او سے محروم لگتا ہے۔لاہور کوکیپٹن (ر)لیاقت علی ملک اور
طیب حفیظ چیمہ کی طرح ایک مستعد ،متحرک اورانتھک سی ٹی او کی ضرورت ہے ۔کالم
کے مرکزی موضوع کی طرف واپس آتے ہیں،کوئی ایس ایچ او اپنے ساتھی مٹھی بھر
اہلکاروں کی مدد سے پتنگ سازی اورپتنگ بازی کاباب اوردوسری سماج دشمن
سرگرمیوں کاناطقہ بندنہیں کرسکتا۔راقم کے نزدیک پتنگ سازی روزگار اورپتنگ
بازی شوق نہیں بلکہ یہ اب شہریوں کیلئے جان کی بازی ہے۔میں "ڈور"کونہیں
بلکہ اسے بنانے اوراس کی مدد سے پتنگ اڑانے والے کرداروں کودرندوں سے بدتر
،قاتل اورانہیں تختہ دار کامستحق سمجھتا ہوں کیونکہ قاتل" ڈور" کے "ڈر" نے
شہروں اورشہریوں کے قلوب میں دہشت کاماحول پیداکردیا ہے۔ارباب اقتدار کا
پولیس کو" قاتل ڈور" کیخلاف" ڈومور"کہنا کافی نہیں ،اس سلسلہ میں منتخب
نمائندوں سمیت دوسرے محکموں سے بھی کام لیا جائے۔میں سمجھتاہوں پتنگ بازی
کے نتیجہ میں قیمتی انسانی جانوں کاضیاع کوئی حادثہ نہیں بلکہ یہ قتل عمد
ہے لہٰذاء ایس ایچ اوحضرات نامعلوم پتنگ سازوں کیخلاف اقدام قتل جبکہ پتنگ
بازوں کیخلاف قتل اوردہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کریں اورجہاں
کوئی پتنگ ساز،پتنگ فروش اور پتنگ بازگرفتارہوں توانہیں ان مقدمات میں
نامزد کرتے ہوئے شامل تفتیش کیاجائے ۔ جس عمارت میں پتنگ سازی اورجس چھت
پرپتنگ بازی ہوان کے مالکان اورہمسایوں کوبھی مقدمات میں نامزد اورگرفتار
کرناہوگاکیونکہ جوشہری پتنگ سازوں ،پتنگ فروشوں اورپتنگ بازو ں کیخلاف
پولیس کومعلومات فراہم نہیں کرتے وہ بھی ان مجرمانہ سرگرمیوں کے سہولت کار
اورقابل گرفت ہیں۔جوشہری اپنے ہمسایہ کے ساتھ معمولی تناؤ یاتصادم پرپولیس
سے رجوع کرسکتا ہے وہ اپنے پڑوس میں ہونیوالی پتنگ سازی ،پتنگ بازی یادوسری
مجرمانہ سرگرمیوں کے سدباب کیلئے سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کیوں نہیں
کرتا ۔
ڈورتیزدھاربلکہ دودھاری تلوار کی مانند ہے۔ اپنے نام نہاد شوق کیلئے اس
کااستعمال کرنیوالے ایک طرف بیگناہ موٹرسائیکل سواروں کے گلے کاٹ اوردوسری
طرف پتنگوں اورگڈیوں کے پیچھے دوڑتے بچوں کومار رہے ہیں۔ قاتل ڈور نے
موٹرسائیکل سواروں میں شدیدڈرپیدابلکہ انہیں دہشت زدہ کردیا ہے اسلئے پتنگ
سازی اورپتنگ بازی کودہشت گردی قراردیااورپتنگ بازوں کے ساتھ دہشت گردوں کی
طرح برتاؤ کیاجائے ۔ کہاجاتا ہے جس مقتول کاقاتل نامعلوم ہواس کاقاتل
حکمران ہوتا ہے ،میں کہتاہوں ڈور سے قتل ہونیوالے شہریوں کاقاتل پورامعاشرہ
ہے ، ہرکام اداروں اورسرکاری اہلکاروں پرنہیں چھوڑاجاسکتا۔جس طرح اگرکوئی
معمولی چوررنگے ہاتھوں شہریوں کے قابوآجائے تووہ اس پر تشدد اورپھر پولیس
کے سپردکرتے ہیں تواس طرح پتنگ سازوں ،پتنگ فروشوں ،پتنگ بازوں ،منشیات
فروشوں ،گرانفروشوں اورقومی سیاست میں سرگرم ضمیرفروشوں کامحاصرہ اورمحاسبہ
کیوں نہیں کرسکتے۔شہری سماج دشمن عناصر پرتشدد کئے بغیر انہیں قانون کی
گرفت میں دینے کیلئے اپناکلیدی کرداراداکریں ۔ہمارا معاشرہ مردہ ، منافق
اورفاسق ہے کیونکہ زندہ معاشروں میں انسان ڈور سے نہیں مرتے،ہم ڈور سے
ہونیوالی اموات پرپولیس کوگالیاں دیتے ہیں مگر ہم میں سے اپنے اپنے گریبان
میں کوئی نہیں جھانکتا۔ ہم اپنے پیاروں کی موت پرتوزاروقطارروتے بلکہ ماتم
کرتے ہیں لیکن دوسروں کادرد محسوس نہیں کرتے ۔چشم تصور سے اس ماں کاچہرہ
دیکھیں جس کااکلوتا بیٹا قاتل پتنگ بازوں نے چھین لیا ۔ماؤں کی گوداجاڑنے
والے دونوں جہانوں میں قابل رحم نہیں ہوسکتے ۔
وہ احباب جوپتنگ سازی کوسینکڑوں خاندانوں کاروزگار،پتنگ فروشی کومنفعت بخش
تجارت جبکہ پتنگ بازی کوثقافت وسیاحت قراردیتے ہیں ، ان کی خدمت میں عرض
ہے،"معیشت کیلئے معاشرت کوتختہ مشق نہیں بنایاجاسکتا"۔دنیا جہاں کے
زروجواہر ایک انسانی زندگی کی قیمت نہیں ہوسکتے۔ احباب "سادگی اورآسودگی"
سے بھرپوردور یادکریں جب پاکستان میں کئی دہائیوں تک کئی ملین خاندانوں
کاروزگار" تانگوں"اور"ریڑھوں"سے وابستہ تھا جو پک اپ اور"رکشوں" کی آمد سے
قصہ پارینہ بن گیا جبکہ ان خاندانوں نے کوئی نہ کوئی نیاکاروبار شروع
کرلیاکیونکہ نظام زندگی نہیں رکتا ۔موبائل فون کے جدیدنظام نے پاکستان کے
سرکاری محکمے پی ٹی سی ایل، سرکاری ڈاک خانوں اور ہزاروں فوٹوسٹوڈیو ز سمیت
کئی دوسرے روزگار پرشب خون ماردیا ،کئی ہنرمندوں کاچولہابجھادیا لیکن ان
خاندانوں میں کسی ایک نے بھی موبائل ٹیکنالوجی کی بندش کامطالبہ نہیں
کیا۔قاتل ڈورنے پتنگ سازی اورپتنگ باز ی کوجان کی بازی بنادیا ہے لہٰذاء
کوئی بیدار معاشرہ اس کامتحمل نہیں ہوسکتا۔راقم نے سابقہ آئی جی مشتاق
احمدسکھیرا کے دورمیں" ڈرون" ٹیکنالوجی کی مدد سے پتنگ بازوں کیخلافـ" کریک
ڈاؤن" کرنے کی تجویزپیش کی تھی جس پراس وقت ڈی پی آر نبیلہ غضنفر نے پنجاب
پولیس کی طرف سے اس آئیڈیا کوبہت سراہا تھا جبکہ لاہور کے سابقہ نیک نام ڈی
آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان نے بھی پتنگ بازی روکنے کیلئے ڈرون ٹیکنالوجی
استعمال کرنے کاعندیہ دیا تھا لیکن بوجوہ ابھی تک پولیس نے اسے نہیں
آزمایا۔پولیس حکام میڈیا اورسوشل میڈیا کی مدد سے شہریوں کو اپنے ٹول فری
نمبرز اور واٹس ایپ نمبرز دیں جہاں پتنگ سازوں اورپتنگ بازوں کی
ویڈیوزاوردوسری معلومات شیئر کی جاسکیں اور حکام تعاون کرنیوالے شہریوں کے
نام صیغہ رازمیں رکھیں۔یہ توراقم کاایک ناقص آئیڈیا ہے لیکن اگرشہرلاہور کے
فرض شناس سی سی پی او غلام محمودڈوگر اورآرپی اوسرگودھااشفاق احمدخان اپنے
اپنے دائرہ کارمیں آنیوالے شہروں میں پتنگ بازی ،منشیات کی تجارت،بچوں سمیت
خواتین پرجنسی تشددجبکہ بچوں کے اغواء سمیت دوسری خطرناک مجر مانہ سرگرمیوں
کے سدباب کیلئے قلم کاروں سمیت معاشرے کے مختلف سنجیدہ طبقات کے ساتھ
مکالمے کااہتمام کریں تویقینا مفیداورموثرتجاویزسے ان کیلئے فرض منصبی کی
بجاآوری سہل ہوسکتی ہے۔ سنجیدہ "مکالمے "سے ہمارے ہرطرح کے انفرادی
اوراجتماعی" معاملے "درست ہو سکتے ہیں۔
|