اسلامی جمہوریہ پاکستان ۔ عورت مارچ ۔بے حیائی پھیلانے والا دجالی فتنہ ؟

د

 اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں نفس سوختہ ء شام وسحر تازہ کریں
بر صغیرپاک وہند کے مسلمانوں نے سالوں تک اپنی جانی ومالی قربانیاں پیش کرکے یہ خطہ ارضی اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کے مطابق اور قرآنی تعلیمات سے حاصل کردہ ہدایات کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزاریں گے۔ اسوقت کے اکابر رہنماؤں نے یہ نعرے لگائے تھے کہ ہمارا طرز زندگی ،معاشرت ،معیشت، سیاست،رہن سہن ،بودوباش سب کچھ عین اسلامی تعلیمات اور ان روایات کے مطابق ہو گا جس کا نمونہ ہمارے پیارے رسول محمد ﷺ نے اپنی زندگی میں پیش کیا اور صحا بہ کرام رضوان اﷲ اجمعین اس پر عمل پیرا رہے ۔ اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کی بدولت اس مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معجزہ 27ویں ر مضان المبارک لیلۃالقدر کی رات 14اگست 1947ء کورونما ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خواہشات کے مطابق ایک الگ سر زمین عطا فرمائی۔ تاکہ ایک اﷲ کو ماننے والے توحید پرست مسلمان اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے کے مطابق یہاں کلمہ طیبہ کا نظام جاری کرسکیں۔تاریخی صفحات گواہ ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے بڑے کے اعتماد کے ساتھ وعدہ کرتے ہوئے یہ باتیں دہرائی تھیں کہ اس ملک میں قرآن مجیدکی تعلیمات پر مبنی ہی نظا م حکومت قائم کیا جائے گا۔ تصور پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال مرحوم کی تقریریں اور تحریریں تو اب تک گواہ ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے ا یک الگ ملک چاہتے تھے جس میں قرآن مجید کے نظام کی بجائے کسی بھی دوسرے نظام حکومت کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے ۔مگران عظیم رہنماؤں کی رحلت کے بعد اقتدارکے رسیا کچھ لبرل و سیکولر عناصر نے ملکی اقتدارپر قابض ہو کرمن مرضی کے نظام نافذ کرکے ملک چلانا شروع کردیا جس سے مغربی اوربھارتی ثقافت کو فروغ حاصل ہو ا ۔ اور ہماری معاشرتی، اسلامی و اخلاقی قدریں شدید متائثر ہوئیں مغربی افکار اور طرز زندگی اپنانے کا رجحان بڑھا اورنظام اسلام کے نفاذ کاخوا ب ادھورا رہ گیاجو ہنوزتشنہء تکمیل ہے اور سات عشرے گزارنے کے باوجود اس میں نفاذ دین اسلام کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہوسکا۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی سیکولر مغربی جمہوریت کے فریب کا شکار ہوکر رہ گئیں۔ اور اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیمات کیمطابق آئین سازی کرنے کی بجائے اس لادینیت کے حامل مغربی جمہوری نظام سے امیدیں وابستہ کرلیں۔ صالح قیادت نہ ہونے کے باعث ملک کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ موجودہ مغربی جمہوریت سے مطلوبہ نتائج کا حصول پیشاب کے تالاب سے مچھلیاں پکڑنے کے مترادف ہے ۔ جس مغربی جمہوریت سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں یہ مغربی نظام بدبودار ہوچکا ہے جس نے ہر ادارے کو کرپٹ کرکے رکھ دیاانتظامیہ ،عدلیہ، فوج،سول بیوروکریسی،صحافت سب ادارے اپنی حدود میں کام کرنے کی بجائے اپنے اپنے مفادات کے اسیر بن کر مخصوص ایجنڈے پر گامزن ہیں جس سے ملک ترقی معکوس کی شاہراہ پر گامزن ہے جو حصول پاکستان کے نصب العین نفاذ اسلام کے وعدے سے صریحاً متصادم نظرآتے ہیں ۔ قرب قیامت کی نشانیوں کے مطابق دجالی فتن کے دور کا آغاز ہو چکا ہے اور وطن عزیز سازشوں میں گھر چکا ہے۔ مغربی این جی اوز کی فنڈنگ اور سرپرستی میں مذہب بیزارمغربی ثقافت کی دلدادہ چند خواتین تنظیموں نے جسے لادینیت کے حامل مغربی ممالک کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر 8مارچ کے دن ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں عورت مارچ کے نام سے بظاہر مسلمان خواتین نے جس طرح سڑکوں پر نکل کر آزادی مارچ کے نام سے عریانی و فحاشی کے میلے سجائے وہ ہمارے اسلامی معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کا عکاس ہیں۔پلے کارڈ ز پربے ہودہ گھٹیا الفاظ میں تحریریں اور نعرے اور کھلے عام رقص مغربی وبھارتی ثقافت کا آئینہ دار تو ہو سکتا ہے مگراس کی مسلم معاشرے میں قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔ قرآنی تعلیمات سے نا بلد مغربی ثقافت کی رسیا ننگ دین چند عورتیں مغربی لادین بے حیا معاشرے کی برائیاں عام کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔میرا جسم میری مرضی۔ ایسے گھٹیا نعرے لگا کر سڑکوں پرعورت مارچ کرکے کونسی آزادی کی طلب گا رہیں وطن عزیز میں رہنے والی کروڑوں عفت مآب خواتین مائیں، بہنیں، بہو، بیٹیاں جو دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق حاصل شدہ حقوق سے پوری طرح مطمئن ہیں اوراسلامی طرز پر اپنے اپنے خاندان میں شہزادیوں ایسی پاکیزہ زندگیاں گزار رہی ہیں وہ انگشت بدنداں ہیں کہ یہ مغربی ثقافت ،عریانی وفحاشی کی رسیا چند عورتیں ایک مسلمان عورت کو آزادی کاکیساپیغام دینا چاہتی ہیں۔ کیاعورت مارچ میں حصہ لینے والی خواتین کسی مسلمان گھرانے کی بہو بیٹیاں کہلانے کی مستحق ہیں ۔؟ دین اسلام نے تو آغاز اسلام سے ہی عورت کو اسکی پیدائش کے ساتھ ہی ماں ،بہن، بیٹی کے مقدس رشتوں کے پہچان کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے وراثتی تک حقوق عطا کر دئے ہیں جس کا دیگر مذاہب میں تصور تک نہیں اور عورتوں کو مزید حقوق مانگنے کی ضرور ہی نہیں ۔یورپی معاشرے کی دلدادہ عورتوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ ایک ایسے معاشرے میں رہنا پسند کریں گی ۔ جس کے آوارہ مردوں نے عورتوں کو کمزور اور مظلوم سمجھ کر ان کا ہر لحاظ سے استحصال شروع کر رکھا ہے۔ جہاں خاندان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ماں ،باپ، بیٹی ایسے مقدس رشتوں کی پہچان تک بھول چکے ہیں اور مرد صرف اپنی جنسی ہوس وتسکین پوری کرنے تک محدود ہیں جبکہ بے چاری بنت حوا اپنی ضروریات پوری زندگی کرنے کے لئے کہیں ملازمت کرنے، کسی کلب میں ڈانسر بن کریا پھراپنی عزت کا سودا کرکے کسی قحبہ خاے میں بیٹھ کر شمع محفل بننے پر مجبور ہے۔ اس کے ساتھ ہی خدا بیزار، وحی دشمن مغربی طاقتیں ابلیسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے مختلف طریقوں سے ذریعے ہمارے اسلامی نظریات کوختم کرکے ہماری نوجوان نسل کے اخلاقیات کو تباہ کر رہے ہیں۔سوشل میڈیاکے ذریعے فحاشی اوربے حیائی کا سیلاب ا مڈ آیا ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ اس کی شدت میں روزافزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔گیمنگ انڈسٹری دجال کابڑا موئثر ہتھیا ر ہے ۔ایک اطلاع کے مطابق مغربی ممالک کی گیمنگ انڈسٹری ہرسال تقریباً 9ہزار گیمز بنا تی ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے طلباء وطالبات ہفتے میں اوسطاً13گھنٹے یہ گیمز کھیلتے ہیں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گیمز auto 5 کے ذریعے چوری شدہ ہوتی ہیں ۔ جس میں 80فی صد عریانیت ، بے حیائی ،جرائم، ڈرگ کے واقعات اور گرل فرینڈکے مرکزی کردار شامل ہوتے ہیں۔ ابلیس کے چیلے ہمارے نوجوانوں اور خصوصاً 12/14سالہ کم عمر بچوں کو اسلام سے متنفر اور برگشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ شعائر اسلامی بارے غلط توجیحات کا پروپیگنڈہ کرکے ہمارے نظریات واخلاقیات کو تباہ کر رہے ہیں ۔ اور ساتھ ہی ،قرآن،خانہ کعبہ،اور مسجد نبوی کے دروازوں کی تصاویرلگا کر دین اسلام کی د انستہ طور پر توہین کر تے نظرآتے ہیں یہ سب کچھ لاعلمی میں نہیں بلکہ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت دین اسلام کو نیچا دکھانے کیلئے ابلیس کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہے ہیں ۔ ایسی ہی ایک گیم میں مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کے درواز ے دکھائے گئے ہیں جن کو کھولنے کے ساتھ ہی دجال کی ایک آنکھ والی تصویر نظر آتی ہے جس کے پیچھے ابلیس کھڑا ہے، اس دروازے کو دکھانے کامقصدیہ ہے کہ یہ دروازے کھلنے کے پیچھے اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کی تعلیمات پر مبنی طرز معاشرت نہیں بلکہ شیاطین کا ایجنڈہ ہے اس طرح وہ غیرمحسوس انداز میں دین اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی سازش کرتے نظرآتے ہیں اور وہ ہزاروں ایسی دیگر ویڈیو گیمز بھی بنا کر مارکیٹ میں پھیلا چکے ہیں۔ دجالی فتنے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ہم سب کو اس سے بچنابچانا ہے۔دجال نے اپنا جال پھیلا دیا اب ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرکے اس سے محفوظ رہناہے۔ مگر ہم من حیث القوم اپنی اپنی لگن میں مست ہو کر ریت میں منہ چھپا ئے خاموش بنے بیٹھے ہیں۔ ابلیس کے نظریات کا حامل دجالی فتنہ تو اپنے شیطانی کھیل کا آغاز کر چکاہے ۔ایک ایسا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستا ن جو تائید ایزدی کے ساتھ دین اسلام کے عملی نفاذکیلئے نظریاتی طور پر وجود میں آیاتھا وہاں نفاذاسلام کا وعدہ پورا نہ ہوسکا اسکے ذمہ دار حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اس کے خواص وعام بھی ہیں جو اﷲ تعالیٰ کیساتھ کیا ہوا اپنا عہد بھول کر اپنی آخرت کے انجام سے بے خبر اپنی اپنی دنیا بنانے میں لگے ہیں ۔پچھلے تین چار سالوں سے بیحیائی پھیلانے کے ابلیسی ایجنڈے کوفروغ حاصل ہو رہا ہے ۔میرا جسم میری مرضی ایسے عورت مارچ اس کا حصہ ہیں۔ جو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جن کی حکومت دانستہ چشم پوشی کرکے اس قبیح فعل کوروکنے کی بجائے اسے مزیدبڑ ھانے میں معاون ثابت ہوئی ہے حکمران اﷲ تعالیٰ کے حضور معافی مانگیں۔اور عریانی وفحاشی کے مظاہروں کو روکنے کئے لئے عملی اقدامات کریں۔ وطن عزیز میں دین اسلام کے نفاذ کیلئے ہم نے اپنی ذمہ داریاں نہ نبھائیں اور اپنے کرتوت نہ بدلے توکچھ بعید نہیں کہ خالق کائنات کوئی اورقوم لے آئے جو اس کے پسندیدہ دین اسلام کو نافذ کرکے بازی لے جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

 

Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 16392 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.