قیام پاکستان کے وقت امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ
روپے کے مقابلے میں تین پوئنٹ تین تھا جو کہ اب بڑھ کر ایک سو اٹھاسٹھ روپے
کا ہو گیا ہے۔اس کو یہاں تک پہنچنے میں تقریباً بہتر سال لگے ۔ موجودہ
حکومت کے وزیر اعظم عمران خان نے اٹھارہ اگست دو ہزاٹھارہ کو حلف اٹھایاتو
اس وقت ڈالر ایک سواٹھائیس روپے کا تھاجو کہ عرصہ ڈھائی سا ل میں روپے کی
قدرمزید بتیس روپے یعنی تئیس پوائنٹ آٹھ فیصدکم ہوئی ۔
اس سے پہلی حکومتوں نے ڈالر کی قیمت میں جو اضافہ کیا وہ کچھ اس طرح ہے!
قیام پاکستان کے بعد انیسوسنتالیس سے انیسوچون تک ڈالر تین پوائنٹ تین روپے
ہی کا رہا ، انیسو پچپن میں پوائنٹ چھ روپے کے اضافے کے ساتھ تین پوائنٹ
نوکا ہو گیا یعنی پندرہ پوا ئنٹ تین آٹھ فیصد اضافہ ہوا ۔انیسو چھپن میں
تین پوائنٹ نو سے چار پوائنٹ سات چھ روپے یعنی پوائنٹ آٹھ چھ روپے کااضافہ
ہوا اور اضافے کی شرح بائیس فیصد تھی۔
انیسو چھپن تا انیسو اکتہر ڈالر کی شرح مستحکم رہی ۔اس پندرہ سالہ دور جو
تقریباً مکمل طور پر آمریت پر مشتمل تھاحکومت وقت نے پاکستان کو دنیا کا
بہترین نہری نظام دیا جس کے تحت لنک نہریں اور ڈیم بنے جس میں منگلا ،تربیلا،
وارسک ،راول اورحب ڈیم، تونسہ ، گدو اور رسول بیراج بنائے گئے جس سے
پاکستان میں آبپاشی اور بجلی کا بہت بڑا مسلہ حل ہوا اور اس کے ثمرات
پاکستان کو آج تک مل رہے ہیں ۔ دارلحکومت اسلام آباد بنایا گیا جو کہ ایک
نئے شہر کے طور پر آباد کیا گیا ہری پور میں ٹیلیفون فیکٹری لگائی گئی
کراچی کنپ اٹیمی بجلی گھربنایا گیاصنعت کو فروغ ملا اس دور میں بڑے بڑے
وڈیروں کو کچھ نہی ملا تب مغربی پاکستان میں پپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان
میں عوامی لیگ بنی دونوں کے صدر وزیر اعظم بننا چاہتے تھے لیکن ملک ایک تھا
لہٰذا ملک کے دو حصے کیے گئے اور دونوں نے وزارت اعظمیٰ حاصل کی ۔
بھٹو صاحب نے بیس دسمبر انیسواکہتر کو وزارت عظمٰی سمبھالی اس وقت ڈالر چار
پوائنٹ سات چھ تھا بھٹو صاحب کی حکومت نے آتے ہی ڈالر نو پوائنٹ نو کر دیا
یعنی روپے کی قدر میں ایک سو دس پوائنٹ ا یک نوفیصد کمی کر دی بھٹوکی حکومت
کے دوران اور اس کے بعدانیسو بیاسی تک نو پوائنٹ نو ہی رہی ۔
ضیاء الحق صاحب کے دور میں انیسو بیاسی سے انیسواٹھاسی تک ڈالر کی قدر نو
پوئنٹ نو سے بڑھکر اٹھارہ رو پے ہوئی جو کہ اسی فیصد اضافہ ہے ۔
انیسوا ٹھاسی سے انیسو نوے تک محترمہ بے نظیر کی حکومت میں ڈالر کی قدر
روپے کے مقابلے میں اٹھارہ روپے سے اکیس پوائنٹ سات روپے ہوئی یو تین
پوائنٹ سا ت ر وپے اضافہ کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں کمی واقع ہوئی شرح
اضافہ بیس پوائنٹ پانچ فیصد رہا، انیسو نوے تا انیسو ترنوے ڈالر کے مقابلے
میں روپے کی قدر اکیس پوائنٹ سات سے اٹھائیس روپے اضافہ چھ پوائنٹ تین روپے
یعنی انتیس پوائنٹ صفر تین فیصد، انیس سو ترانوے تا ستانوے اٹھائیس سے
اکتالیس پوائنٹ ایک ایک یعنی تیرہ پوائنٹ ایک ایک روپے اضافہ یعنی چھیالیس
پوائنٹ آٹھ دو فیصد ۔
انیسوستانوے تا انیسو نناوے میں ڈالر کی شرح تبادلہ اکتالیس پوا ئنٹ ایک
ایک سے بڑھکر اکاون پوائنٹ نو روپے ہوئی اضافہ دس پوائنٹ سات نو روپے یعنی
چھبیس پوائنٹ دو چھ فیصد اضافہ ہوا ۔
انیسو نناوے تا دو ہزار سات اکاون پوئنٹ نو سے ساٹھ پوائنٹ آ ٹھ تین روپے(
یعنی آٹھ پوائنٹ تین روپے )سترہ پوائنٹ دو پانچ فیصد اضافہ ۔
دوہزار سات تا دو ہزارتیرہ پنتالیس پوائنٹ ایک سات روپے اضافہ یعنی
چوہترپوائنٹ دو پانچ فیصد
دو ہزار تیرہ تا دو ہزار اٹھارہ بائیس روپے اضافہ یعنی بیس پوائنٹ سات چار
فیصد ۔
روپے کی قدر میں سب سے زیادہ کمی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت بھٹو صاحب کی تھی جس میں ایک سو دس فیصد کمی کی
گئی۔دوسری حکومت بینظیرصاحبہ کے پہلے دور میں بیس پوائنٹ پانچ فیصد اور
دوسرے دور میں چھیالیس پوائنٹ آٹھ دو فیصد اضافہ ہوا ۔
نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت میں ڈالرکی قدر میں اضافہ انتیس پوائنٹ صفر
تین فیصد ،دوسری حکومت میں اضافہ چھبیس پوائنٹ دو چھ فیصد، تیسری حکومت میں
بیس پوائنٹ سات چار فیصد ۔
اگر آمریت دورکی بات کریں ، جنرل محمدایوب خاں صاحب کے دور میں ڈالر کی قدر
میں بیس پوائنٹ سات چھ فیصد اضافہ ہوا ، جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور حکومت
میں اسی فیصد اضافہ اور جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور حکومت میں سترہ پوائنٹ
دو پانچ فیصد اضافہ ہوا ۔
اسطرح اگر دیکھا جائے تو سولین حکومت نے کم مدت میں بہت زیادہ اضافہ کیا
اور سولین حکومت نے قرضہ بھی زیادہ لیا اگر ترقی کی رفتا ر دیکھی جائے تو
سولین حکومت قرض لینے میں آگے اور ترقی میں پیچھے ہی رہی فوجی حکومتوں میں
اگر کوئی خرابی ہوئی بھی اسکے ذمہ دار ہمارے ملک کے وڈیرے ہیں جن کو آمریت
دور میں جب کچھ نہ ملا تو ان لوگوں نے اپنے اثر ورثوخ استعمال کرتے ہوئے
خرابیا ں پیدا کیں ۔جس کی ایک تازہ مثال مولانا فضل الرحمٰن صاحب ہیں جو
مشرف صاحب کی حکومت سے لے نواز شریف صاحب کی حکومت تک حکو مت میں رہے
موجودہ حکومت میں ان کو کوئی عہدہ نہی ملا اب ان کا برا حال ہے کبھی زرداری
صاحب کبھی نواز شریف صاحب کے پاس اور جب بات بنتی نظر نہ آئے تو ملین مارچ
کے ذریعے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دیتے ہیں ۔
|