"23 مارچ 1940" کے دن مینار پاکستان پر جو قرارداد پیش کی
گئی,اس کے بارے میں تمام پاکستانیوں کو معلوم ہے اور ہم سالوں سے مطالعہ
پاکستان کی کتابوں میں سالوں سے پڑھتے آرہے ہیں کہ یہ قرارداد کس نے پیش کی
اور کیوں پیش کی گئی اور اس کا مقصد کیا تھا.
لیکن شاید ہم یہ بھول چکے ہیں کہ قرارداد پاکستان کا مقصد کیا تھا. کیا
واقعی ہمیں ایک آزاد ملک اس لیےچاہیے تھا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر ازادی کے ساتھ عمل کرسکیں یا ہمیں اللہ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے دین کے کے اصولوں سے
چھٹکارا حاصل کرنے کی آزادی چاہیے تھی.
اس دور میں جو کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے اس سے تو یہی
معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اب دین اسلام سے چھٹکارا چاہیے.
حقوق نسواں کے نام پر عورت مارچ کو ہی دیکھ لیجئے جو بے ہودہ نعرے, بے ہودہ
لباس, بے ہودہ پوسٹرز ہمیں وہاں دکھائی دیےاسے دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ یہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وہ سرزمین ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے بے شمار
قربانیاں دی گئیں.
عورتوں کے پوشیدہ مسائل کو سڑکوں پر نکل کر انتہائی بے ہودہ انداز سے بیان
کیا جا رہا ہے ایک پاکباز عورت جو اس سرزمین پاک میں رہتی ہے وہ یہ سب کچھ
دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے.
اسی طرح انکی نظر میں ایک بہادر عورت وہ ہے جب تک وہ اپنا دوپٹہ اتار کر
مردوں کی طرح ٹائر بدلے مردوں کی طرح کسی کھمبے پر چڑھ کر بجلی کے تاروں کو
درست کرے یا ہوٹلوں میں مردوں کو کھانا پیش کرے,بازاروں میں چیزیں بیچے تو
ہی وہ بہادر اور آزاد عورت ہوگی گی.اگر اس نے اپنے شوہر کے لیے اپنے باپ یا
بھائی کے لیے کھانا گرم کر دیا یا موزے ڈھونڈ کر نکال دیے تو وہ تو دنیا کی
سب سے کمزورترین عورت ہوگی.
ارض وطن میں اس بات کو فروغ دیا جارہا ہے کہ ہم جنس پرستی کرنے میں برائی
کیا ہے. پاکستان کی اساس جو قرأن پر ہے اور پاکستان کا قانون کیا اس بات کی
اجازت دیتا ہے کہ ہم جنس پرستی کو عام کیا جائے.
جب کہ یہی وہ سب سے بڑا گناہ ہے جس کی وجہ سے قوم لوط کی بستی کو زمین سے
اٹھا کر کر آسمان پر لے جاکر کر زمین میں دھنسا دیا گیا تھا کیا ہم بھی یہی
چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو.
پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں صرف یہی کہانیاں رہ گئی ہیں کہ بہن اپنی بہن کا
گھر توڑ رہی ہے,یہاں تک کہ ماسی کے اپنے صاحب کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں
وغیرہ.ہم اپنی نئ نسل کو کیا سکھا رہے ہیں؟
جو لوگ کسی معاشرے میں فحاشی و عریانی عام کرتے ہیں وہ اللہ کے عذاب کے
مستحق ہوتے ہیں اللہ کا فرمان ہے:
"بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں فحاشی کو عام کریں ان پر
لعنت کی گئی ہے دنیا اور آخرت میں اور انکے لیے دردناک عذاب ہے"
(سورہ نور:19) .
اگر عورت کی آزادی اور بہادری دیکھنی ہے تو چودہ سو سال پہلے کی ان صحابیات
کو دیکھیے جنہوں نے بہادری اور صبر کی بے شمار مثالیں قائم کیں
ام عمارہ رضی اللہ تعالئ عنہ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
دائیں,بائیں آگے پیچھے پردے میں رہ کر تلوار سے لڑتی
رہیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کا دن ان صحابیہ
کے نام کردیا.
حضرت ام سلیم رض کا صبر بھی عورتوں کے لیے مشعل راہ ہے ام سلیم رض کی اولاد
کی وفات ہوگئی اور ان کے شوہر جب سفر سے آئے تو انہوں نے کوئی گلہ نہیں کیا
بلکہ کہ ان کے سامنے کھانا پیش کیا اور رات بھر اپنے شوہر کو خوش کرنے میں
لگی رہیں اور صبحاپنے شوہر کو بتایا کہ ان کی اولاد وفات پا چکی ہے.
عورت کی اس سے بڑھ کر کر آزادی اور کیا ہوگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم حضرت عائشہ رض کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا کرتے تھے.
ایک بڑی اہم بات جو ایک پوسٹر پر آویزاں تھی کہ
"میں 9سال کی تھی وہ 50 سال کا تھا مجھے چپ کرادیا گیا اسکی آواز آج بھی
مسجد میں گونجتی ہے"
یہ مبہم بات کس کے لئے بولی گئ ہے یہ بات جس کے لیے کہی گئی اس 9 سال کی
بچی کو سامنے لایا جائےجس پر زیادتی ہوئ ہے.
جب ہر بات کھلم کھلا سڑکوں پر ہورہی ہے تو اسے کیوں مبہم رکھا جارہا ہے,اگر
وہ بچی سامنے نہیں آتی ہے تو ان مبہم الفاظ کا جو واضح مطلب نکل رہا ہے وہ
بلکل صاف ہے کہ یہ بات کس عظیم ہستیوں کے لیے کہی گئ,اس طرح کا آزادی رائے
کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے,کیا کافر مسلمانوں کے جزبات مجروح کرنے کے
لئےکافی نہی تھے کہ اب مسلمان اپنی آزاد سرزمین پر اپنے رسول ص توہین ہوتے
ہوئے برداشت کریں.
ہم نے نے 23 مارچ1940 کو جو قرارداد منظور کروائی تھی اس میں کیاعورتوں کو
اپنے باپ اپنے شوہر سے آزادی چاہیے تھی؟
آج عورتوں کا نعرہ یہ ہے کہ میرا جسم میری مرض, میں اپنے شوہر کا حق ادا
کروں یا نہ کروں ہی میرا اختیار ہے.اس طرح تو شوہر کی بھی مرضی ہے کہ وہ
دوسری,تیسری یا چوتھی شادی کرے.ہمارے معاشرے میں دوسری شادی کو کیوں گناہ
سمجھا جاتا ہے ہے جبکہ یہ تو جائز کام ہے,اورمرد کو اسکا اختیار دیا گیا
ہے.
اے ابن ادم تیرے اختیار میں کچھ نہیں ہے ہر چیز کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں
ہے میں اور اسی کی مرضی ہے سے دنیا کا نظام چل رہا ہے بحیثیت ایک مسلمان
اور ایک پاکستانی ہونے کے ہماری زندگی,موت ہر چیز اللہ کے لئے ہونی چاہیے
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
"کہہ دیجئے میری نماز میری قربانی میرا جینا اور میرا مرنا صرف اور صرف
اللہ ہی کے لیے ہے ".
(الانعام:162).
ایک مومن مرد ہو یا عورت وہ کوئی بھی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا جب تک
کہ اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول کسی چیز کااختیار نہ دیں. اگر عورت اپنے
بچوں کی اچھی پرورش اور تربیت کرتی ہے,اپنے شوہر کے گھر کی حفاظت کرتی ہے
تو یہ اسے اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ہے اور وہ اسے خوشی کے ساتھ
کرتی ہے,اور جنت کے حصول کے لیے کرتی ہے کیونکہ اسے پتا ہے ہے یہ دنیا ایک
قید خانہ ہے اصل کامیابی آخر ت کی ہے.
ایک مرد صبح سے رات تک جسمانی اور ذہنی محنت کرتا ہے اپنی اولاد کا اور
اپنے گھر والوں کا کا پیٹ پالنے کے لیے یہ حکم اسے اس کے رب نے دیا ہے اور
وہ اسے خوشی سےکرتا ہے جنت کے حصول کے لئے کرتا ہے.
ایک باپ ہی ہوتا ہےجو اپنی بیٹیوں کی زبان سے نکلی ہوئی ہر خواہش کو پورا
کرنے کے لئے لیے بے چین ہو جاتا ہے اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے لئے لیے پوری
زندگی تک و دو کرتا ہے انھیں اپنے گھر کا کرتا ہے.
کیوں کہ رسول اللہ ص کے فرمان کے مطابق جو شخص اپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت
کرتا ہے وہ رسول اللہ ص کے ساتھ جنت میں بہت قریب ہوگا
لیکن یہ ہیں ہم بیٹیاں ہیں ہیں جو کہہ رہی ہیں ہیں ہمیں والد سے آزادی
چاہیے کیا خدارا ریاست مدینہ میں ایسی سرمیوں پر ایسے ڈراموں اور اشتہارات
پر پابندی لگائ جائے جو فحاشی وعریانی کو عام کر رہے ,جب کسی قوم میں فحاشی
اور زنا عام ہوجاتا ہے تو اسپر اللہ کے عذابات وبائیں نازل.ہوتی ہیں ,اگر
اسطرح کی برائیوں کو نا روگا گیا تو اللہ نہ کرے کرونا جیسے عذابات ہم سے
نہی ٹلیں گے.
اللہ سے دعا ہے کہ ارض پاک کی حفاظت فرمائے اور جس دین کے نام پر یہ ملک
آزاد ہوا تھا ہو اس سرزمین پر نافظ بھی ہوجائے آمین.
|