مکے سے ہجرت اور مدینے میں حکُومت !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی اٰیت 1 تا 8 ازقلم !! مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
سبحٰن
الذی اسرٰی بعبدہٖ
لیلا من المسجد الحرام
الی المسجد الاقصاالذی بٰرکنا
حولہ لنریہ من اٰیٰتنا انہ ھوالسمیع
البصیر 1 واٰتینا موسی الکتٰب وجعلنٰہ
ھدی لبنی اسراءیل الّا تتخذوامن دونی
وکیلا 2 ذریة من حملنا مع نوح انہ کان عبدا
شکورا 3 وقضینا الٰی بنی اسراءیل فی الکتٰب
لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علواکبیرا 4 فاذا
جآء وعداولٰہما بعثنا علیکم عبادالنااولی باس شدید فجاسوا
خلٰل الدیار وکان وعدا مفعولا 5 ثم رددنالکم الکرة علیھم وامددنٰکم
باموال و بنین وجعلنٰکم اکثر نفیرا 6 ان احسنتم احسنتم لانفسکم وان اساتم
فلھا فاذاجآء وعدالاٰخرة لیسوءٗوجوھکم ولیدخلواالمسجد کمادخلوہ اول مرة ولیتبروا
ماعلوا تتبیرا 7 عسٰی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا وجعلناجھنم للکٰفرین حصیرا 8
حرکت پزیر ھے وہ عالی مرتبت وجُود جو اپنے بندے کو ہمت و حوصلہ دینے کے لیۓ ایک شَب اُس مقام سے اُس کے ساتھ گیا جس جس مقام پر اُس کے بندے کے لیۓ اُس کے سامنے سرنگوں ہونے کی آزادی نہیں تھی اور اُس نے اپنے بندے کو اُس دُور دراز کے مقام تک پُہنچا دیا جہاں پر اُس کے بندے کے لیۓ اُس کے سامنے سرنگوں ہونے کی آزادی ہی آزادی تھی اور یہ اہتمام اِس لیۓ کیا گیا تھا تاکہ وہ اُس پُرامن مقام کے گردا گرد پھیلی ہوئی ھماری گوناگوں نعمتوں کا بچشمِ خود مُشاھدہ کر سکے اور ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ وہ عالی قدر وجُودِ موجُود اپنے بندوں کی صداۓ دل کو بھی سُنتا ھے اور اَحوالِ جان کو بھی دیکھتا ھے اور ھم نے مُوسٰی کو جو تحریری حکم نامہ دیا تھا اور جس کو یعقوب کی اولاد کے لیۓ قانونِ حیات بنایا تھا اُس قانونِ حیات کا بُنیادی پیغام یہ تھا کہ تُم لوگ میرے سوا کسی اور کو ہرگز ہرگز اپنا کارساز نہ بنانا ، ھم نے نُوح نام کے جس رہنماۓ ھدایت کو عالمی طُوفان کے زمانے میں انسانی ناؤ کا کھویا بنایا تھا وہ ھمارا بُہت ہی شکر گزار بندہ تھا اور ھم نے اولادِ یعقوب کو جو مُحولہ بالا تحریری قانون دیا تھا اُس میں یہ بھی صاف صاف لکھ دیا تھا کہ اگر تُم زمین میں دوبارہ فساد برپا کرو گے تو تُم زمین اور اہلِ زمین کے لیۓ ایک بہت بڑی تباہی کا باعث بن جاؤ گے ، پھر جب تُمہاری طرف سے ھمارے اُس قانونِ نافذہ کی پہلی خلاف ورزی کا عملی مظاہرہ ہوا تو ھم نے تُمہاری سرکوبی کے لیۓ اپنے وہ جنگ جُو میدان میں اُتار دیۓ جنہوں نے تُمہارے گھروں کے کونوں کُھدروں میں پھیل کر تُم پر ھماری سزا نافذ کی اور اللہ کا وہ عھد پُورا ہوکر رہا جس سے پہلے ہی تُم کو آگاہ کیا جاچکا تھا ، پھر ھم نے تُمہاری ذلّت بھری مظلومانہ زندگی پر ترس کھاتے ہوۓ تُم کو غالب آنے والوں پر غالب کر کے مال و اَولاد اور جَتھے جماعت کا مالک بنادیا ، ھمارا قانون یہ ھے کہ اگر تُم زمین میں اَچھے ہوتے ہو تو زمین میں تُمہارے لیۓ اَچھا ہی اَچھا ہوتا ھے اور اگر تُم زمین میں بُرے ہوتے ہو تو زمین میں بھی تُمہارے لیۓ بُرا ہی بُرا ہوتا ھے ، اِس لیۓ جب تُم نے دُوسری بار ھمارے قانون کو پامال کیا تو ھم نے اپنے وہ دُوسرے لَشکر تُم پر چڑھا دیۓ جنہوں نے مار مار کر تُمہارے حُلیۓ بگاڑ دیۓ اور وہ اللہ تعالٰی کے سامنے سرنگوں ہونے والی زمین ایسے ہی داخل ہو گۓ جس طرح پہلی بار داخل ہوۓ تھے اور پھر اُنہوں نے جس چیز کو تہس نہس کرنا چاہا اُسے تہس نہس کر کے رکھ دیا ، باور کیا جا سکتا ھے کہ تُمہارا پرورش کار تُم پر دوبارہ مہربانی کرے لیکن اگر تُم بُرے کاموں کا اعادہ کرتے رھے تو تُمہارے ساتھ دوبارہ وہی ہو گا جو اِس سے پہلے بھی دو بار ہو چکا ھے کیونکہ حق کا انکار کرنے والے ھماری سزا کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے !
حقیقتِ اَسرٰی و اَقصٰی !
اِس سُورت کا ایک معروف نام "سُورةُالاَسرٰی" ھے جس کو "سُورةُالاَسراء" بھی لکھا جاتا ھے اورجس کا مقصدی مفہوم اللہ تعالٰی کے کسی نبی و رسول کا اللہ تعالٰی کے ایک حُکم کے تحت ایک غیر محفوظ مقام سے نکل کر ایک محفوظ مقام پر جانا ہوتا ھے ، قُرآنِ کریم میں اِس کی جُملہ مثالوں میں سے پہلی مثال سُورةُ الحجر کی اٰیت 65 اور دُوسری مثال سُورَہِ ھُود کی اٰیت 81 ھے جس کے مضمونِ کلام { فاسرباھلک بقطع من الیل } کے مطابق لُوط علیہ السلام کا اللہ تعالٰی کے حُکم کے تحت اپنے اہل و عیال کے ساتھ عذاب سے دوچار والی بستی کو چھوڑ کر عذاب سے محفوظ بستی میں جانا ھے ، اِس کی تیسری ، چوتھی اور پانچویں مثال سُورہِ طٰہٰ کی اٰیت 77 ، سُورةُالشعراء کی اٰیت 52 اور سُورةُ الدخان کی اٰیت 23 ھے جس کے مضمون { فاسرعبادی لیلا } کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام کا اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق اپنی قوم کو مصر کے غیر محفوظ شہر سے نکال کر دریا پار کرانا اور ایک محفوظ مقام تک پُہنچانا ھے اور اِس کی چھٹی مثال اِس سُورت کی پہلی اٰیت ھے جس میں سیدنا محمد علیہ السلام کی ہجرت کا بیان ھے اور آپ کی اِس ہجرت کے بارے میں یہ ارشاد فرمایاگیا ھے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندے کو شب کے ایک حصے میں مسجدِ حرام سے نکال کر دُور کی ایک مسجد تک لے گیا ، قُرآنِ کریم کے اِن سارے مقامات پر مادہ و مصدر "اسرٰی و لیل" بھی ایک ھے ، مضمون بھی ایک ھے اور مقصدِ مضمون بھی ایک ہی ھے ، فرق ھے تو صرف یہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے قُرآن کے پانچ مقامات پر تو اپنے دو نبیوں کو غیر محفوظ بستی کو چھوڑ کر ایک محفوظ بستی میں جانے کا حُکم دیا ھے اور اِس چَھٹے مقام پر اپنے نبی اور اپنے رسول کو ایک غیر محفوظ مقام سے نکال کر ایک محفوظ مقام پر پُہنچانے کے عمل کو اپنا عمل قرار دیا ھے ، اِس سُورت کا دُوسرا معروف نام "بنی اسرائیل" ھے جو بنی اسرائیل کے اُن حالات کی نمائندگی کرنے والا نام ھے جو اِس سُورت میں بیان پوۓ ہیں ، اِس سُورت میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو اپنے ذاتی عمل سے جس غیر محفوظ مقام سے نکالنے کا ذکر کیا ھے وہ مسجدِ حرام ھے جو مکے میں ھے اور اُس وقت اُس پر شرک و جہالت کی ایک سیاہ شب نے اپنے سیاہ پر کُچھ اِِس طور پر پھیلاۓ ہوۓ تھے کہ توحید کی روشنی کا وہاں پر پھیلنا ایک کارِ دُشوار ہو چکا تھا اور اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو اِس مقام سے نکالنے کے بعد جس مقام پر پُہنچانے کا ذکر کیا ھے وہ مسجدِ اَقصا ھے جس کا معنٰی وہ مسجد ھے جو مسجدِ حرام سے ایک دُور دراز کی مسجد ھے ، اِس حرفِ "اقصا" بمعنی دُور سے قُرآنِ کریم کی مُراد کیا ھے اِس کو قُرآنِ کریم نے سُورةُالاَنفال کی اٰیت 42 میں جنگِ بدر کی مُتحارب اَفواج کے مقامِ جنگ کے حوالے سے اِس طرح بیان کیا ھے کہ { اذانتم بالعدوة الدنیا وھم بالعدوة القصوٰی والرکب اسفل منکم } یعنی آغازِ جنگ سے پہلے تُم میدانِ جنگ کے آس پاس کے جن دو کناروں پر موجُود تھے اُن میں سے پاس والے ایک کنارے پر تُم کھڑے تھے اور دُور والے دُوسرے کنارے پر تُمہارے دُشمن کھڑے تھے اور جس مُسافر قافلے پر تُمہاری نظر اَٹکی ہوئی تھی وہ اُس گھاٹی کے نیچے موجُود تھا جس گھاٹی کے اُوپر تُم موجُود تھے ، قُرآن کے اِس بیان سے معلوم ہوتا ھے کہ "اقصٰی" اور "قصوٰی" دونوں ہی اسماۓ تفضیل ہیں اور دونوں ہی ایک دُور دراز مقام کا مفہوم فراہم کرتے ہیں لیکن وہ دونوں دُور دراز کا جو مفہوم فراہم کرتے ہیں وہ چالیس دن کی محدُود دُوری یازمین و آسمان کی لامحدُود دُوری نہیں بلکہ مُطلقا ایک دُوری ھے جو اتنی دُوری بھی ہو سکتی ھے کہ جس دُوری پر موجُود لوگ ایک دُوسرے کو دیکھ سکیں اور اِتنی دُوری بھی ہو سکتی ھے کی جس دُوری کو وہ اپنی آنکھوں سے تو نہ دیکھ سکیں لیکن بتانے والے کے بتانے سے اُس دُوری کی کمی بیشی کا کُچھ نہ کُچھ اَندازہ لگا سکیں ، اگر وہ اُس دُوری کا اَندازہ ہی نہ لگا سکیں تو پھر اُن کو بتانے کا کوئی مقصد ہی نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالٰی کا کلام بہر حال بامقصد و با معنی ہوتا ھے ، بے مقصد و بے معنی ہر گز نہیں ہوتا ، اسمِ تفضیل اقصٰی کو الف مقصورہ اَبقٰی و اَتقٰی ، اَحوٰی و اَعمٰی ، اَدنٰی و اَعلٰی ، اَشقٰی و اَقوٰی ، اَخفٰی و اَوحٰی ، اَولٰی و اَعطٰی اور اَطغٰی وغیرہ کے ساتھ بھی لکھنا روا ھے جیساکہ اٰیتِ ھٰذا میں"اَسرٰی" لکھا ہوا ھے اور الف مَمدُودہ کے ساتھ اقصا لکھنا بھی ناروا نہیں ھے جیساکہ اٰیت ھٰذا کے علاوہ سُورةُالقصص کی 20 اور سُورہِ یٰس کی اٰیت 20 میں بھی لکھا ہوا ملتا ھے !
وراثتِ دین اور وراثتِ زمین !
سُورةُالنحل کی آخری نو اٰیات جو سُورةالنحل کا مُنتہاۓ کلام اور سُورةُالاَسراء کا مُبتداۓ کلام ہیں ، اُن نو اٰیات میں سے پہلی چار اٰیات میں اللہ تعالٰی نے جب ابراھیم علیہ السلام کی توحید دوستی و شرک دُشمنی کا اور پھر مُشرکینِ مکہ کی شرک دوستی و توحید دُشمنی کا ذکر کیا تھا تو وہ ذکر سیدنا محمد علیہ السلام کی ہجرت کا مُبتداۓ کلام تھا اور اِن چار اٰیات کے بعد کی پانچ اٰیات میں اللہ تعالٰی نے جب اہل یہُود کا یومِ سبت کے اختلاف کے حوالے سے ذکر کیا تھا تو وہ سیدنا محمد علیہ السلام کے مقامِ ہجرت کا مُنتہاۓ کلام تھا اور اُس مُبتداۓ کلام و مُنتہاۓ کلام نے یہ بات عیاں کردی تھی کہ سُورةُالنحل کے بعد آنے والی سُورةُالاَسراء کا موضوعِ کلام سیدنا محمد علیہ السلام کی ہجرت ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام کو اِس سُورت سے پہلی سُورت میں اِس ہجرت سے قبل ہی اِس بات کی اطلاع دے دی گئی تھی کہ مُشرکینِ مکہ کے بعد آپ کے خطابِ وحی کے دُوسرے مُخاطب وہی "اَصحابِ سبت" ہیں جو شہرِ مدینہ میں موجُود ہیں ، اگر وہ لوگ آپ کی دینی تحریک اور آپ کی دینی جماعت کو زَک پُہنچائیں تو آپ بھی اُن کو اِتنا ہی زَک پُہنچائیں جتنا زَک وہ آپ کو پُہنچائیں لیکن اگر آپ عفو و درگزر سے کام لیں تو آپ کے اِس عملِ خیر میں خیر ہی خیر ھے اور آپ کے منصب کا تقضا بھی یہی ھے کہ آپ اُن کو ہمیشہ ہی خیر سگالی کا پیغام دیتے رہیں ، یہ ساری تفصیل اِس لیۓ بیان کی گئی ھے کہ اللہ تعالٰی زمین پر جب اپنے ایک نبی کے بعد دُوسرا نبی بہیجتا ھے یا اپنے ایک سلسلہِ نبوت کے بعد دُوسرا سلسلہِ نبوت قائم کرتا ھے تو وہ سب سے پہلے ، پہلے نبی اور پہلے سلسلہِ نبوت کی دینی وراثت اپنے اُس دُوسرے نبی کے سپرد کرتا ھے اور پھر جب پہلے نبی کے بعد آنے والے اُس دُوسرے نبی کو ریاست کا مطلوبہ عقلی تجربہ حاصل ہو جاتا ھے تو پہلے نبی کی دین کی وراثت کے بعد زمین کی وراثت بھی اُسی دُوسرے نبی کے حوالے کردی جاتی ھے ، سیدنا محمد علیہ السلام کے بعثت کے وقت دین کی اُس دینی وراثت کا مرکز ابراھیم خلیل کا مکہ تھا اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو مکے میں مبعوث فرمایا اور ابراھیم علیہ السلام کی زمینی وراثت مدینے میں موجُود تھی اِس لیۓ محمد علیہ السلام کو ابراھیم علیہ السلام کی دینی وراثت دینے کے بعد زمینی وراثت کے لیۓ زمینِ مدینہ کے سوا کوئی اور جگہ موجُود ہی نہیں تھی جہاں پر آپ کو جانے کا حُکم دیا جاتا اور وہاں کی زمینی وراثت آپ کے حوالے کی جاتی ، اِس لیۓ اِس بارے میں کسی کو کوئی شُبہ نہیں ہونا چاہیۓ اِس سُورت کا موضوعِ سُخن سیدنا محمد علیہ السلام کی مکے سے مدینے کی طرف ہجرت ھے اور ہجرت کے اِس عمل کو پایہِ تکمیل تک پُہنچانے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے سُورةُالنحل کی اٰخری اٰیات میں اپنے نبی کو عفو در گزر کی تعلیم دینے کے بعد اَب اِس سُورت میں مدینے کے اہلِ یہُود کو براہِ راست مُخاطب کر کے اِس اَمر کی تلقین کی گئی ھے کہ تُم میرے اِس نبی کے ساتھ مقابلے اور مزاحمت کا خیال ترک کرکے ٹھنڈے پیٹوں دینِ حق کو قبُول کرلو اور اگر تُم کو میرے اِس نبی کی پیروی میں ابھی بھی کُچھ تردد ھے تو پھر تُم تاریخ کے اُس تاریخی نوشتے پر نظر ایک نظر ڈال لو کہ اِس قبل جب تُم نے مُوسٰی کی نبوت اور مُوسٰی کی تعلیمِ نبوت سے انحراف کیا تھا تو ھم نے کتنی بار تُم کو توبہ کا موقع دیا تھا اور کتنی بار تُم کو اور تُمہاری نسلوں کو زمین کے شاہان و ملُوک کے ذریعے بر باد کیا تھا اور چونکہ ھم نے مدینے کی زمینی وراثت محمد علیہ السلام کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ھے اِس لیۓ تُم رضاکارانہ طور پر ھمارے اِس فیصلے کو مان لو ، نہیں مانو گے تو تُمہارے ساتھ اَب بھی وہی سلُوک ہو گا جو اِس سے پہلے بھی کئی بار ہو چکا ھے اور چونکہ قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ یہ سارے اَحوال قُرآن کے متنِ کلام میں موجُود ہیں اور مفہومِ کلام میں بھی ھم نے اُن کو مناسب حد تک واضح کر دیا ھے اِس لیۓ قُرآنِ کریم کے اِس مُفصل بیان کے بعد ہمیں اُن تاریخی واقعات کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ھے جن کو ہر ایک مُؤرخ نے اپنے اپنے اَنداز سے اور اپنے اپنے اَندازے کے ساتھ بیان کیا ھے ، ھمارے نزدیک یہ سوال قطعا اھم نہیں ھے کہ اِس واقعے کی نوعیت کیا تھی کیونکہ اٰیت کے اَحوال و ظروف سے اِس بات کا بہت آسانی کے ساتھ اَندازہ ہو جاتا ھے کہ اللہ تعالٰی نے مدینے کا یہ منظر آپ کو ہجرت سے پہلے خواب میں بھی دکھایا ھے اور جب مکے سے مدینے کی طرف ہونے والی عملی ہجرت کا وقت آیا ھے تو وہ بھی اللہ تعالٰی کی مشیت کے ساتھ آیا ھے اور اللہ تعالٰی کی معیت کے ساتھ ہی اپنے حسین اَنجام تک پُہنچا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558302 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More