#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 9 تا 15
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
ھٰذاالقراٰن
یھدی للتی ھی
اقوم ویبشرالمؤمنین
الذین یعملون الصٰلحٰت ان
لھم اجراکبیرا 9 وان الذین لایؤمنون
بالاٰخرة اعتدنالھم عذاباالیما 10 ویدع الانسان
بالشر دعاءہٗ بالخیر وکان الانسان عجولا 11 وجعلنا
الیل والنہار اٰیتین فمحونا اٰیة النھار مبصرة لتبتغوافضلا
من ربکم ولتعلمواعددالسنین والحساب وکل شئی فصلنٰہ تفصیلا
12 وکل انسان الزمنٰہ طٰٓئرہ فی عنقہ ونخرج لہ یوم القیٰمة کتابا یلقٰہ
منشورا 13 اقراکتٰبک کفٰی بنفسک الیوم علیک حسیبا 14 من اھتدٰی فانما
یھتدی لنفسہٖ ومن ضل فانما یضل علیھا ولاتزر وازرة وزر اخرٰی وما کنا
معذبین
حتٰی نبعث رسولا 15
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ قُرآن ہی وہ سیدھا راستہ
دکھاتا ھے جو انسان کو اپنے خالق کے اَحکام کا تابع دار بناتا ھے اور خالق
کے عالی قدر دربار تک پُہنچاتاھے اور قُرآن ہی یہ خوش خبری بھی سناتا ھے کہ
جو لوگ ایمان و اطمینان کے ساتھ اپنی بہترین علمی و عملی صلاحیتوں کے مطابق
کارِ حیات اَنجام دیتے ہیں اُن کو اُن کی صلاحیتِ کار سے زیادہ ثمراتِ حیات
دیۓ جاتے ہیں اور ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ جو لوگ
جانے والی حیات کے بعد آنے والی حیات کے یقین سے بے یقین ہو کر اپنے آج میں
اپنے کَل کے لیۓ کُچھ نہیں کرتے تو اُن کے لیۓ اُن کے رَنجِ حیات ہی اُن کی
سزاۓ حیات بنا دیۓ جاتے ہیں کیونکہ انسان نے تو اپنی اُفتادِ طبع ہی یہ
بنالی ھے کہ وہ طلبِ شر کے لیۓ بھی اسی طرح آہ و زاری کرتا ھے جس طرح طلبِ
خیر کے لیۓ آہ و زاری کرتا ھے لیکن ھم نے تُمہاری قُوتِ عمل کے استعمال و
عدمِ استعمال کے لیۓ رات اور دن کی صورت میں تُمہارے لیۓ دو نشاناتِ کام و
آرام مقرر کردیۓ ہیں جن میں سے شَب کو ھم نے مَنظر پوش بنایا ھے تاکہ تُم
جسم کو آرام دے سکو اور تُمہارے دن کو نظر افروز بنایا ھے تاکہ تُم اپنے
جسم سے اپنے لیۓ کام لے سکو اور اسی سے تُم اپنے شب و روز اور ماہ و سال کے
مُنسلک لمحاتِ حیات کا حساب لگاکر اِن کو الگ الگ بھی دیکھ سکتے ہو اور ھم
نے ہر انسان کے خیر و شر کا اعمال نامہ اِس کی گردن میں لٹکا رکھا ھے اور
جب بھی کوئی انسان اپنی حیاتِ زوال کے بعد اپنی حیاتِ کمال میں داخل ہوگا
تو ھم اُس کی اُس حیاتِ کمال میں اُس کے استحقاق و عدمِ استحقاق کی جانچ
پرکھ کے لیۓ اِس کا یہ مُفصل اعمال نامہ اُس کے سامنے رکھ دیں گے ، پھر جب
ہر انسان کا اعمال نامہ اُس کے سامنے رکھ دیا جاۓ گا تو ہر انسان سے کہا
جاۓ گا کہ لے ! آج تُو اپنے اعمالِ حیات کی یہ کتاب خود ہی پڑھ لے ، کیونکہ
آج کے دن تیرا اپنا بیان ہی تیرے اعمالِ حیات کی خُوبی یا خرابی پر ایک
فیصلہ کُن بیان ہوگا ، جب ہر انسان کو فردا فردا اُس کا اعمال نامہِ حیات
دے دیا جاۓ گا تو ہر ایک شخص پر یہ اَمر واضح ہو جاۓ گا کہ حیاتِ رَفتہ میں
جس جس نے کارِ خیر کیا ھے اُس کا خوش ذائقہ پَھل اُس کے سامنے موجُود ھے
اور جس جس نے کارِ شر اَنجام دیا ھے اُس کا بدذائقہ پَھل بھی اُس کے سامنے
موجُود ھے اور اَقوام کے اُس قیام کے دن کسی انسان کا بار کسی انسان پر ہر
گز نہیں ڈالا جاۓ گا بلکہ ہر شخص اپنا بار آپ ہی اُٹھانے کا ذمہ دار ہو گا
اور اُس دن کی جزا و سزا کے ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ھے کہ ھم نے کبھی
بھی کسی قوم کو اُس وقت تک کوئی سزا نہیں دی ھے جب تک کہ اُس قوم پر ھم نے
اپنے کسی نمائندے کے ذریعے ھدایت و ضلالت کے دونوں راستے واضح کر کے اُس پر
اپنی حُجت تمام نہیں کر دی ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات کے خصوصی مُخاطب مدینے میں رہنے والے مدینے کے یہُودی اور
عمومی مُخاطب مدینے کے وہ سارے انسان تھے جن کے درمیان کُچھ عرصے بعد ہی
سیدنا محمد علیہ السلام نے مکے سے ہجرت کر کے جانا تھا اور اُن کو قُرآن کا
وہ آفاقی پیغام دینا تھا جس پیغام کے لیۓ اللہ تعالٰی نے آپ کو اہلِ زمین
میں مبعوث فرمایا تھا اِس لیۓ گزشتہ اٰیات کا اجتماعی مُنتہاۓ کلام یہ تھا
کہ زمین کے جُملہ اہلِ حیات کے لیۓ ھمارا مقررہ قانونِ حیات یہ ھے کہ تُم
جس وقت زمین میں اہلِ زمین کے لیۓ اَچھے ہوتے ہو تو زمین و اہلِ زمیں میں
تُمہارے لیۓ صرف اَچھا ہی اَچھا ہوتا رہتا ھے اور تُم جس وقت زمین میں اہلِ
زمین کے لیۓ بُرے ہوتے ہو تو زمین و اہل زمین میں تُمہارے لیۓ بُرا ہی بُرا
ہونے لگتا ھے ، اِس لیۓ اگر تُم خیر کی راہ اختیار کرو اور خیر کی راہ پر
پامردی کے ساتھ چلتے رہو تو باور کیا جاتا ھے کہ تُمہارا رَب تُمہاری سابقہ
لغزشوں سے در گزر کرکے تُم پر دوبارہ مہربان ہو جاۓ اور اُس کی رحمت و
مہربانی سے زمین کا ناخوش گوار ماحول تُمہارے لیۓ دوبارہ خوش گوار ہو جاۓ
لیکن اگر تُم پہلے کی طرح اپنی دینی و اَخلاقی اور معاشی و معاشرتی زندگی
میں بار بار مَنفی خیال و اعمال کا اعادہ کرتے رہو گے تو تُمہارے ساتھ دستِ
غیر کے ذریعے دوبارہ وہی جبرِ حیات ہو گا جو پہلے بھی دو بار ہو چکا ھے اور
اُس مضمونِ کلام کے بعد اَب موجُودہ اٰیات میں انسان کو سب سے پہلے ، سب سے
پہلی یہ یقینی خبر دی گئی ھے کہ انسان کو قُرآن ہی وہ سیدھا راستہ دکھاتا
ھے جس پر انسان کا چلنا انسان کی زندگی کو بہتر بناتا ھے اور قُرآن کی فکری
تعلیم ہی وہ تعلیم ھے جو انسان کو اپنے خالق و مالک کا تابع دار بناسکتی ھے
اور قُرآن کا علم و بیان ہی وہ علم و بیان ھے جس میں انسان کو اِس جہان میں
خوش حالی کی اور آنے والے جہان میں بلند اقبالی کی وہ خوش خبری دی گئی ھے
جو انسان کو بقاۓ حیات کی وہ آس اور اُمید دیتی ھے جو اُس کو ایک بُرد بار
اور صلاحیت کار انسان بننے میں دینے کے علاوہ اُس کو اِس اعتقاد کا حامل
بنا دیتی ھے کہ زمین پر اُس کی ھدایت کا پہلا سامان ھدایت بھی قُرآن ھے اور
آخری سامان ھدایت بھی صرف اور صرف قُرآن ھے ، موجُودہ اٰیات میں دی گئی
ھدایات میں اِس پہلی ھدایت کے بعد دُوسری ھدایت یہ دی گئی ھے کہ انسان
قُرآن کو سمجھنا چاھے یا جہان و اہلِ جہان کو سمجھنا چاھے تو اِن تینوں کو
سمجھنے کے لیۓ پہلی شرط ایک ایسا غور و فکر ھے جس میں سہل پسندی اور عُجلت
پسندی نہ ہو کیونکہ سہل پسندی کا عادی انسان غور و فکر سے عاری ہوتا ھے اور
یہ سہل پسند انسان کبھی غور و فکر کرتا بھی ھے تو اتنی عُجلت میں کرتا ھے
کہ غور و فکر اُس کی عُجلت کی نذر ہو جاتا ھے اور اِس عُجلت کا انسان کو سب
سے بڑا نقصان یہ ہوتا ھے کہ وہ ترجیحی و غیر ترجیحی اُمور کو ایک دُوسرے سے
الگ نہیں کرسکتا اور جب وہ اپنے اُلجھے ہوۓ خیالات کے ساتھ اللہ تعالٰی کے
سامنے اپنی حاجات پیش کرتا ھے تو اِس کی غائب دماغی خیر و شر کی تمیز سے
بھی عاری ہو جاتی ھے اور وہ اپنے اِس مرضِ عُجلت کے باعث اپنی عرض میں اپنے
لیۓ مرض پر مرض مانگتا چلا جاتا ھے اور انسان کا یہ وہ رُوحانی روگ ھے جس
کے خاتمے کے لیۓ اُس کو قُرآن کی ھدایت و رہنمائی کی ضرورت ہوتی ھے اِس لیۓ
قُرآن تجویز کرتا ھے کہ انسان جو کام بھی کرے وہ پُورے غور و فکر کے ساتھ
کرے کیونکہ غور و فکر ہی انسان کی وہ طاقت ھے جو انسان کی لیاقت کو زندہ
رکھتی ھے ، بالخصوص اگر قُرآن کو سمجھنے کے لیۓ انسان کی ساری عُمر بھی غور
و فکر میں گزر جاۓ تو اِس سے اعراض نہ کیا جاۓ ، چاھے ایک عُمر کے غور و
فکر کے بعد اُس کو صرف ایک ہی کار آمد بات سمجھ آۓ اور اِس غور و فکر کے
بعد جو بات سمجھ آجاۓ اُس پر اُسی طرح عمل کیا جاۓ جس طرح قُرآن نے اُس پر
عمل کرنے کی ھدایت کی ھے اور وہ عمل بھی اتنا ہی کیا جاۓ جتنا قُرآن نے
بتایا ھے ، نہ اِس سے ذرہ کم اور نہ ہی کُچھ زیادہ ، قُرآن نے اپنی اِن
اٰیات میں انسان کو جو تیسری ھدایت دی ھے وہ یہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے رات
اور دن کی جو تقسیم کی ھے وہ انسان کے کام اور انسان کے آرام کے لیۓ کی ھے
تاکہ انسان دن میں کام کرے تو رات کو آرام بھی کرے اور اُس کی زندگی اُس کے
عدمِ سکُون کے باعث عدمِ توازن کا شکار نہ ہو ، اٰیاتِ بالا میں چوتھی بات
یہ بتائی گئی ھے کہ اللہ تعالٰی کسی انسان سے کوئی مُثبت یا کوئی مَنفی کام
اپنی تقدیرِ جبر کے تحت نہیں کراتا بلکہ انسان ہر کام اپنے ارادے سے کرتا
ھے لیکن وہ اپنے ارادے سے جو کام کرتا ھے تو انسان کے اُس کام کی قُوتِ عمل
کو اللہ تعالٰی کی طرف سے سلب نہیں کیا جاتا کیونکہ اُس نے تخلیقی طور پر
انسان کو ارادے اور اختیار کا حامل بنایا ھے اور کبھی کبھی جب انسان یہ
گمان کرتا ھے کہ یہ کام وہ کرنا تو نہیں چاہتا تھا مگر کر لیا ھے تو شاید
یہی تقدیر کا لکھا ھے لیکن اُس کا یہ خیال اُس کے نفس اور شیطان کا بنایا
ہوا ایک طلسمِ فریب ھے کہ جو کام انسان اپنی عادت کے تحت کرتا ھے اُس کو
تقدیر کا لکھا کہہ کر خود کو فریب دیتا ھے ، قُرآنِ کریم کہتا ھے کہ ھم نے
تُمہارا Time card اور تُمہارا Time consuming card تمہاری گردن میں لٹکا
رکھا ھے ، تُم اپنے ارادے اور اختیار سے جو بھی مُثبت یا مَنفی عمل کرتے ہو
وہ تُمہارے اِس کھاتے میں جمع ہوتا رہتا ھے اور جب تُمہارا یومِ حساب آۓ گا
تو تُمہارے گَلے میں لَٹکا ہوا یہی لٹاکا تُمہارے ہاتھ میں دے دیا جاۓ گا
اور تُم سے کہا جاۓ گا کہ آج تُم خود ہی اپنے شاھد و عادل اور خود ہی اپنے
مُنصف و انصاف ساز ہو ، اِس لیۓ خود ہی اپنا اعمال نامہ پڑھو اور خود ہی
اپنی اپنی جزا و سزا کی جگہ پر پُہنچ جاؤ ، ھم نے پہلے بھی تُم پر کوئی ظلم
نہیں کیا تھا اور آج بھی تُم پر کوئ ظلم نہیں کیا جاۓ گا !!
|