ارشادِ ربانی ہے :’’نیکی اور برائی برابر نہیں
ہوسکتی‘‘۔یہ آفاقی حقیقت ہے نیز نیک افراد اچھے اعمال بجا لاتےہیں اور برے
لوگ بدی پھیلاتے ہیں،اس لیےاہل ایمان کوحکم دیا گیا :’’ تم برائی کا جواب
بہترین طریقہ سے دو ‘‘۔ اس پہلا مطلب یہ ہے کہ خاموش تماشائی بنے رہنا مومن
کی پہچان نہیں ہے ۔ اس کا جواب دینا لازمی ہے لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ یہ
ردعمل بہترین ہو ۔ یعنی برائی کے جواب کی خاطر کئی متبادل موجود ہوں تو ان
میں سے بہترین کا انتخاب کیا جائے۔ عام طور پر آسان یا محفوظ ردعمل کو
ترجیح دی جاتی ہے لیکن اگر بہترین جواب مشکل اور پرخطر ہو تب بھی وہی لائق
ِ ترجیح ہے ۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر عبدالرشید اگوان صاحب نے اپنی حالیہ
تحریر میں بیان کی ۔ ریل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے انہوں نے علیٰ الصبح ایک
عورت کی آواز سنی ’بچہ کیوں رورہا ہے‘؟ دوسری نے جواب دیا’ میرا بچہ
مسلمان ہوگیا ہے ۔ منہ دھوئے بنا بسکٹ مانگ رہا ہے ۔ منع کرتی ہوں تو ضد
کرتا ہے‘۔ یہ سن کر رشید صاحب اس عورت کے پاس گئے اور کہا بہن جی اس ڈبے
میں شاید میں اکیلا مسلمان ہوں ۔ میں نے صبح میں وضو کیا اور نماز پڑھی پھر
بھی اگر یہ مناّ مسلمان ہوگیا ہے تو اسے مجھے دے دیجیے۔ اس عورت نے شرمندہ
ہوکر معافی مانگ لی اور ممکن ہے آگے اس سے بازرہے ۔
ارشادِ حق ہے :’’کہ اس طرح (کا رویہ اختیار کرنے سے)جس کے اور تمہارے
درمیان عداوت ہے وہ گہرے دوست جیسا ہوجائے گا ‘‘۔ لیکن یہ آسان کام نہیں ،
اس طرح حسن سلوک کرنے والوں کی توصیف میں فرمایا گیا ہے:’’یہ صفت نصیب نہیں
ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر
اُن کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔شیطان کو دراصل ایسے لوگوں سے بڑی پریشانی
ہوتی ہے ۔ وہ انہیں اپنا فرض منصبی ادا کرنے سے روکنے کی خاطر طرح طرح کے
حربے استعمال کرتا ہے۔ ان کے دل وسوسے ڈال کر انہیں کڑھن کا شکار کردیتا
ہےیا غصہ دلاکر اس جیسی عورت کو برا بھلا کہنے پر اکساتاہے۔وہ اگر نفس پر
قابو پا جائیں تب بھی انہیں اپنی کسی تقریر یا تحریر میں اسے بڑھا چڑھا کر
بیان کرنے اورسنگھ پریوار کو دادِ تحسین دے کر ملت کو عار دلانے کی ترغیب
دیتا ہے۔ اس سے امت میں مایوسی اور دشمنان اسلام کے تئیں مرعوبیت تو بڑھتی
ہےمگربرائی کا سدِ باب نہیں ہوتا ۔اس لیے فرمانِ ربانی ہے:’’ اور اگر تم
شیطان کی طرف سے اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا
اور جانتا ہے‘‘۔
معاشرے کے اندر سے برائیوں کے دفاع کا کام نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح
پر بھی احسن طریقہ سے ہونا چاہیے مثلاً ایک معروف ادارے جے پی بردرس
پبلیکیشن نے اپنی طبی درسی کتاب میں کورونا کے پھیلاو کی خاطر تبلیغی جماعت
کو ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ اس پر سب سے پہلے ایس آئی او نے آواز اٹھائی اور
عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے کر بتایا کہ یہ الزام حقیقت کے خلاف اور توہین
عدالت بھی ہے۔ اس کے بعد مولانا محمود مدنی صاحب نے پر تنقید کی اور جمیعت
العلماء ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب کی قیادت میں ایک وفد
کو مذکورہ اشاعتی ادارے کے دفتر میں روانہ کیا۔ وہاں موجود افسران نے نیا
ایڈیشن دکھلا کر کہا کہ وہ پیراگراف حذف کردیا گیا ۔ ادارے نے مولانا کو
تحریری معذرت بھیجنے کا بھی وعدہ کیا ۔
یہ ہےبرائی کا وہ بہترین جواب جس سےروک تھام ممکن ہے۔ عصرِ حاضر کا عام
مزاج یہ ہے کہ جب اس طرح کا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو ہم مثبت عملی
اقدام کرنے کے بجائے ماتم کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ سنگھ پریوار کی
تاریخ اور کامیابیاں بیان کرنے لگتے ہیں ۔ آئی ٹی سیل کے ذریعہ پھیلائے
جانے والے پروپگنڈے کو ناقابلِ تسخیر مسئلہ بناکر پیش کرتے ہیں ۔ حزن و یاس
کے اس عالم میں ہاتھ پیر اور دماغ شل ہوجاتاہے اور امت حرکت عمل سے محروم
ہوجاتی ہے۔ ایسے میں آخری حربہ اپنے آباو اجداد کو اس دگر گوں صورتحال کے
لیے ذمہ دار ٹھہرا کرکی کوسنا ہے۔ یہ دراصل اپنے ذمہ دارویوں سے راہِ فرار
کا طریقہ ہے۔اس کے برعکس عزم و حوصلہ کے ساتھ جدوجہد کرنے کی سعی کامیابی و
کامرانی سے ہمکنار کرتی ہے۔
|