روبی نے ابھی بچپن کے کچے گھروندوں سے کھیلتے کھیلتےجوانی
کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ اسکی شادی کی فکر ماں باپ کو ستانے
لگی۔مشرقی گھرانوں میں جب لڑکی کا قد ماں کے برابر ہوجائےتو شادی کی فکر
میں ماں باپ کی نیندیں اڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔
روبی کے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔اسکی ماں کو اسکا بات بے بات ہنسنا اور
کھلکھلانا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔وہ اسکو عشق و محبت کی سحر کاری سمجھتی
اور جھنجھلا کر روبی کو ہر وقت جھڑکیاں دیتی رہتی۔روبی اپنی ماں کے رویے کو
اسکی محبت کا انداز سمجھتی اور بدستور مسکراتی رہتی۔
اچانک ہی ایک اچھا ڑشتہ آگیا اور والدین نے اسکے ہاتھ ✋ پیلے کرکے رخصت
کردیا۔
روبی مستقبل کے سہانے خواب پلکوں کے چلمن میں سجائے پیا دیس روانہ ہوگئی۔
دو چار روز میں شادی کا ہنگامہ ختم ہوا تو زندگی معمول پر آنا شروع
ہوگئی۔اب صرف کھیر پکائی کی رسم باقی تھی۔
یہ رسم ادا کرنے کے بعد دلہن سسرال میں امور خانہ داری کا باضابطہ آغاز
کردیتی ہے۔
آج کھیر پکائی کی رسم تھی ۔مہمانوں کی آمد آمد تھی۔ دن چڑھتے ہی زور و شور
سے تیاریاں شروع تھیں۔روبی نے سبز رنگ کا بنارسی جوڑا زیب تن کیا سبز ہی
اسٹک لگائی اور خوب تیار ہوکر شوہر کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا۔راحیل نے
ایک نظر اسکے حسین سراپے پر ڈالی اور بولا کہ سرخ لپ اسٹک لگالو ۔ویسے تم
نے گھر میں طوطا پالا ہوا تھا۔۔روبی کو شوہر کا طنزیہ انداز کچھ عجب لگا
مگر اسنے سر ہلاتے ہوئے گرین کے بجائے لال لپ اسٹک لگالی۔
وہ تیار ہوکر تیزی سے کمرے سے نکلی تو ساس نے دھیرے سے کہا کہ اولمپکس میں
حصہ کیوں نہیں لے لیا تھا کافی تیز دوڑ لیتی ہو۔روبی نے کچھ نہ سمجھتے
ہوئےبھی اپنی رفتار آہستہ کرلی۔
رات کو خوب مہمان آئے انواع و اقسام کے کھانوں سے ڈائننگ ہال مہک رہا
تھا۔روبی نے خوب محنت اور چاہت سے کھیر بنائی ہوئی تھی۔مہہمانوں نے خوب
کھائی اور دلہن کو داد بھی دی۔روبی کے گھر 🏡 میٹھا شوق سے کھایا جاتا تھا
جبکہ سسرال میں زیادہ تر لوگ شوگر کے مریض تھے اور اسی وجہ سے میٹھے کا
رواج کچھ کم تھا۔روبی کے سسر نے کھیر چکھی اور روبی کو مخاطب کرکے فرمانے
لگے کہ بہو اس میں اگر دو چار پلیٹ چینی زیادہ ڈال دیتی تو بہتر رہتا۔روبی
نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی اپنا سر ہلا دیا ۔
روبی کے میکے سے چار افراد کو بلایا گیا تھا ۔مگر روبی کے کزن لندن سے آئے
ہوئے تھے۔گھر والوں کے اصرار پر وہ بھی کچھ تحفے تحائف لیکر روبی کی دعوت
میں آگئے۔دانیال کوانکا آنا ایک آنکھ نہ بھایا مگر اسنے روبی سے صرف اتنا
کہا کہ دو چار آدمی محلہ سے اور بلوا لیتی تو اچھا ہوتا۔روبی کچھ نہ سمجھتے
ہوئے بھی سر ہلا کر خاموش رہی۔
زندگی رواں دواں ہوگئی۔سہانے سپنوں کی کچھ تعبیریں ملیں کچھ مبہم کچھ باقی
تھیں۔
اتوار کو چھٹی کے روز سب گھر پر تھے۔روبی رات 🌃 کو کھانا خاص اہتمام سے
تیار کررہی تھی۔مرغ کڑہائی شامی کباب بالکل تیار تھےاور پلاؤ دم پر تھا۔سخت
گرمی میں روٹی بناتے ہوئے اسکو اپنی امی یاد آنے لگیں۔ اسکو ہمیشہ سے روٹی
بنانے سے چڑ سی تھی روز کہتی تھی کہ امی ابو سے کہکر روٹی تندور سے
منگوالیا کریں۔مگر امی سر ہلاکر بالکل خاموش یوجاتیں۔
اچانک روبی روٹی بناتے ہوئے امی کی خاموشی سمجھ آنے لگی۔اسکو وہ سب سمجھ
آنا شروع ہوگیا جو وہ پہلے سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتی تھی۔روٹیاں تیار
ہورہی تھیں صرف چند باقی تھیں۔
اسی دوران اسکی ساس کچن میں داخل ہوئیں۔دیگچیوں کے ڈھکن اتار کر چمچہ سے
نمک مرچ چیک کیا ۔روبی نے داد طلب نظروں سے انہیں دیکھا مگر انکے سپاٹ چہرے
پر کوئی تاثرات نہ ڈھونڈ سکی۔
سوچوں میں غرق اور کچھ جلدی کی وجہ سے روٹی اپنی گولائی برقرار نہ رکھ سکی
اور کچھ تکونی ہوگئی۔ساس روٹی کو غور سے دیکھتی رہیں جیسے اس میں ماضی کی
پرچھائی ڈھونڈ رہی ہو۔کہنے لگیں کہ روٹی کجھ زیادہ گول نہیں ہوگئی لگتا ہے
گھر میں تم ہی روٹیاں پکاتی تھی۔روبی کی نرگسی آنکھوں میں شبنمی قطرے
جھلملانے لگے اور پھر اسکے رخساروں سے جھلک کر اسکے حنائی ہاتھوں میں موجود
روٹی کے پیڑے میں جاکر جذب ہوگئے۔
ساس نے اسکے آنسوؤں کو دیکھ کر بھی ان دیکھا کردیا مگر انہوں نے خود کارانہ
انداز میں روبی کے ہاتھ ✋ سے پیڑا لیکر روٹی بیلنا شروع کردی۔
انہیں گول روٹی میں ایک عکس دکھائی دیا وہ انکا اپنا عکس تھا جب وہ دلہن کے
روپ میں اپنے ننھے ننھے مہندی میں رچے ہاتھوں سے سسرال میں پہلی بار روٹی
پکارہی تھیں مگر ناتجربہ کاری کی وجہ سے روٹی کسی طرح گول شکل اختیار نہیں
کررہی تھی۔اںکی ساس نے انکو نصیحت کی تھی کہ روٹی گول نہ ہو تو کھانے والوں
کو مزہ نہیں آتا۔
روبی نے دیکھا وہ بالکل چپ تھیں مگر انکا سر زور زور سے اثبات و خوف کے
عالم میں ہل رہا تھا۔ آنکھوں سے بھی اشک رواں تھے۔
روبی خاموشیوں کی زباں اور معنی دونوں سمجھ چکی تھی۔ روٹی ہی تو زندگی کا
فلسفہ تھا۔ دنیا گول ہے روٹی بھی گول ہی ہونی چاہیے۔
گول روٹی تیار ہوچکی تھی۔
اسنے اپنی ساس کے آنسو اپنے ریشمی دوپٹے سے پونچھ ڈالے۔پھر دونوں مسکرانے
لگیں ۔دونوں مل کر مسکرائیں تو
ہر طرف خوشیوں کے رنگ بکھرنے لگے خزاں میں بھی جیسے بہار آگئی غنچے چٹخنے
لگے پھول کھلنے لگے۔پوری کائنات انہیں دیکھ کر مسکرانے لگی۔
*تمھاری مسکراہٹ میں بھی ہوتی ہے بہت تلخی*
*مرے بھی غم چھلک جاتے ہیں میرے مسکرانے میں* |