#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 60 تا 65
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذقلنالک
ان ربک احاط
بالناس وماجعلناالرءیا
التی ارینٰک الا فتنة الناس
والشجرة الملعونة فی القراٰن و
نخوفھم فمایزیدھم الاطغیانا کبیرا
60 واذقلناللملٰئکة اسجدوالاٰدم فسجدوا
الاابلیس قال ءاسجد لمن خلقت طینا 61 قال
ارءیتک ھٰذالذی کرمت علی لئن اخرتن الٰی یوم القیٰمة
لاحتنکن ذریتہٗ الا قلیلا 62 قال اذھب فمن تبعک منھم فان
جھنم جزاؤکم جزاء موفورا63 واستفزز من استطعت منھم بصوتک
واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم وما
یعدھم الشیطٰن الا غرورا 64 ان عبادی لیس لک علیھم بسلطٰن وکفٰی بربک وکیلا
65
اے ھمارے رسول ! مُشرکینِ جہان کی اِس سرکش جماعت کے یہ سرکش اَفراد اگر
بزعمِ خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خالق سے رشتہِ عبدیت توڑ نے اور مخلوق سے
رشتہِ عبدیت جوڑنے کے بعد خدا کی دَست رَس سے دُور ہوچکے ہیں تو ایسا ہر گز
نہیں ھے ، یہ بات ھم پہلے ہی آپ کو اور آپ کے ذریعے اِن سب لوگوں کو بتا
چکے ہیں کہ زمین پر بسنے والے تمام انسان تیرے رَب کے بناۓ ہوۓ قانونِ فطرت
کے اُس دائرہِ کار میں برسرِ کار ہیں جہاں پر اِن کو ہر لَمحہ و ہر آن کبھی
کسی آسائش سے اور کبھی کسی آزمائش سے دوچار ہونا ہوتا ھے اور ھم نے آپ کو
آپ کے خواب میں جو مُشاھدہ کرایا تھا اُس کا مقصد بھی آپ کو انسان کی اسی
بدعملی کے اَنجام سے باخبر کرنا تھا اور اسی طرح ھم نے شرک کے جس ناپسندیدہ
شجر کا قُرآن میں ذکر کیا ھے اُس سے بھی ھمارا مَنشا یہی تھا کہ اِن لوگوں
کو آنے والی زندگی کی اُس مُشکل سے آگاہ کردیا جاۓ جس سے اِن سب کو دوچار
ہونا ھے مگر یہ مُشرک لوگ ہیں کہ اپنی سرکشی کے باعث خود کو آسانی کے بجاۓ
مُشکل ہی میں ڈالنے پر بضد ہیں ، اگر آپ یاد کریں گے کہ تو آپ کو یاد آجاۓ
گا کہ انسان کی اِس تسلیم و رضا اور بغاوت و سرکشی کا آغاز آدم کی اطاعت
اور ابلیس کی سر کشی کے اُس لَمحے سے ہوا ھے جب فرشتوں نے سرخم ہو کر اُن
کی اطاعت کا اقرار کر لیا مگر ابلیس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میری
تخلیق تُو نے پَستی سے بلندی کی طرف جانے والی اُس شُعلہ نُما فطرت پر کی
ھے جو پستی سے بلندی کی طرف جاتی ھے اور آدم کی تخلیق تُو نے آپ و گِل کی
اُس فطرت پر کی ھے جو بلندی سے پَستی کی طرف آتی ھے اِس لیۓ میری بلند ہستی
کو آدم کی اطاعت سے انکار ھے ، مزید براں یہ کہ اَب اگر تُو نے اِس کی
پَستی کو میری بلندی پر عظمت دے ہی دی ھے تو پھر مُجھے بھی تُو روزِ محشر
تک اپنے ہُنر آزمانے کا موقع دے دے ، میں نسلِ آدم کے چند گنے چُنے اَفراد
کو چھوڑ کر اِس کی باقی ماندہ ساری نسلوں کو اِس طرح برباد کردوں گا کہ جس
طرح ٹڈی دَل فصلوں کو برباد کردیتی ھے ، اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ جا ! میں
نے تُجھے روزِ محشر تک مُہلت دی ، نسلِ آدم میں سے جو جو تیری راہ پر چلے
گا میں اُس کو جہنم کی وادی میں ڈال دوں گا جو میری دردناک سزاوں کے لیۓ
بنائی گئی ایک پُردرد وادی ھے ، اَب تُم جاؤ اور جاکر میرے کمزور بندوں میں
اپنا زور لگاؤ ، اُن کو ہانک پُکار کر بلاؤ ، اپنے سارے سوار اور پیادے اُن
کے مقابلے میں لے آؤ ، اُن کے مال و زَر میں اپنا ساجھا لگاؤ ، اُن کے
دُختر و پسر پر اپنا حق جتاؤ ، اُن سے وعدے کرو اور قسمیں کھاؤ ، میرے
پسندیدہ بندے جان جائیں گے کہ شیطان کی ساری قسمیں فریب و سراب اور اِس کے
سارے وعدے پادَر ہوا ہیں ، یہ حقیقت تیرے ہر ایک تجربے سے تُجھ پر ثابت ہو
جاۓ گی کہ میرے فرماں بردار بندوں پر تیری کوئی دھونس ، کوئی دھاندلی ،
کوئی دھمکی ، کوئی دلیل اور کوئی اپیل اثر انداز نہیں ہو سکے گی کیونکہ
بندوں کی کار سازی کرنا اللہ کا وہ مُسلسل عمل ھے جس مُسلسل عمل کا شیطان
اور اُس کے سارے لَشکر مل کر بھی مقابلہ نہیں کر سکتے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا سطورِ بالا میں جو مُفصل مفہوم ھم نے تحریر کیا ھے اُس
مفہوم میں اٰیاتِ بالا کا وہ پُورا مقصدی مفہوم آگیا ھے جو ھماری محدُود
بساط کے مطابق مُمکن تھا ، مُتذکرہ بالا مفہوم کی مُتذکرہ بالا اٰیات میں
سے پہلی اور دُوسری اٰیت کا آغاز قُرآنِ کریم کے اُس حرفِ "اذ" کے ساتھ ہوا
ھے جو حرفِ"اذ" قُرآنِ کریم میں 116 مقامات پر ماضی قریب یا بعید کے 116
قابلِ ذکر واقعات کو یاد کرانے کے لیۓ آیا ھے اور اِس سُورت کے اِس مقام کی
پہلی اٰیت میں آنے والا پہلا حرفِ "اذ" سیدنا محمد علیہ السلام کو ماضی
قریب کا ایک قابلِ ذکر واقعہ اور دُوسری اٰیت میں آنے والا دُوسرا حرفِ
"اذا" ماضی بعید کا ایک قابلِ ذکر واقعہ یاد دلانے کے لیۓ آیا ھے ، اگر ھم
پہلے ماضی بعید کے واقعے کو یاد کرنا چاہیں تو وہ آدم و ابلیس کا وہ واقعہ
ھے جو اِس سے قبل سُورةُالبقرة کی اٰیت 34 اور سُورةُالاَعراف کی اٰیت 11
میں بھی آچکا ھے اور اِس سُورت کے اِس مقام پر تیسری بار اُس واقعے کی اِس
لیۓ یاد دھانی کرائی گئی ھے تاکہ قُرآن کا پڑھنے والا جب قُرآن پڑھے تو
ماضی قریب اور ماضی بعید کے اِن دونوں واقعات کو اپنے اپنے درست پس منظر
میں رکھ کر پڑھے اور اپنے اپنے درست پس منظر میں رکھ کر سمجھے ، اٰیاتِ
بالا کی دُوسری اٰیت میں ماضی بعید کے جس واقعے کی یاد دھانی مقصود ھے وہ
واقعہ چونکہ اِس سے پہلے بھی گزر چکا ھے اور اِس کے بعد بھی آۓ گا اِس لیۓ
اِس مقام پر اُس واقعے پر بات کرنا ضروری نہیں ھے لیکن جہاں تک پہلی اٰیت
میں بیان کیۓ گۓ ماضی قریب کے واقعے کا تعلق ھے تو عُلماۓ روایت نے اِس سے
وہ معروف واقعہِ معراج مُراد لیا ھے جس کا سارا تانابانا اُنہوں نے اُن
روایات سے بُنا ھے جن میں سے چند روایات پر ھم نے "قُرآن ، انسان اور زمان
و مکان" کے عُنوان سے لکھے گۓ سُورةُالفاتحہ کے پیش لفظ میں مُفصل نقد و
نظر کیا ھے اور اِس سُورت کی پہلی اٰیت میں ھم نے قُرآن میں وارد ہونے والی
جُملہ قُرآنی اٰیات کے حوالوں سے اِس اَمر کا ثبوت فراہم کیا ھے کہ قُرآنِ
کریم کے تمام مقامات پر فعل"اسرٰی" کا استعمال انبیاۓ کرام کے اُن اَسفارِ
ہجرت کے لیۓ ہوا ھے جو اَسفارِ ہجرت اُنہوں نے بامرِ مجبوری کیۓ تھے لیکن
"اسرٰی" کے اِس فعل کا پُورے قُرآن میں کسی نبی کے کسی خوش گوار سیاحتی سفر
کے لیۓ کہیں پر بھی اِستعمال نہیں ہوا ھے ، جہاں تک واقعہِ معراج کا تعلق
ھے تو عُلماۓ روایت میں سے جن عُلماۓ روایت نے واقعہِ معراج کو سیدنا محمد
علیہ السلام کا جسمانی سفر سمجھا ھے اُنہوں نے اِس سُورت کی پہلی اٰیت کو
اپنی دلیل بنایا ھے اور جن عُلماۓ روایت نے واقعہِ معراج کو سیدنا محمد
علیہ السلام کا رُوحانی سفر جانا ھے تو اُنہوں نے اِس سُورت کی اُس اٰیت 60
کو اپنی دلیل بنایا ھے جو اٰیاتِ بالا میں سب سے پہلی اٰیت ھے لیکن اِن
دونوں اٰیات کا سیدنا محمد علیہ السلام کی اُس جسمانی یا رُوحانی معراج سے
کوئی تعلق نہیں ھے جو معراج پہلے مسجدِ حرام سے شروع ہوکر مسجدِ اقصا تک
مُمتد ہوئی تھی اور پھر مسجدِ اقصا سے بڑھ کر سدرةُالمنتہٰی تک مُنتج ہوئی
تھی اور جس معراج کا مقصد وہ خاموش اَحکامِ صلٰوة لے کر آنا تھا جن کی
تفصیلات کو اللہ تعالٰی نے شاید قُرآنی اَحکام کے طور پرانسان کو دینے کے
بجاۓ زبانی اَحکام کے طور پر دینا زیادہ مناسب سمجھا تھا ، عُلماۓ روایت کے
جن رواة نے معراج کی روایات بیان کی ہیں اُن میں رواة کا ایک طبقہ تو وہ ھے
جس نے مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصا تک کے سفر کی روایات بیان کی ھے اور دُوسرا
طبقہ ھے وہ جس نے مسجد اقصا سے آسمانوں تک جانے اور واپس آنے کی روایات
بیان کی ہیں لیکن اِن دونوں طبقوں کے روایتی بیانیۓ میں کم و بیش پانچ سال
کا فرق ھے ، یعنی روایات کے مطابق مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصا کا سفر پانچ
سال پہلے ہوا ھے اور زمین سے آسمان کا سفر پانچ برس بعد ہوا ھے ، مزید براں
یہ کہ اِن روایت کار راویوں میں سے آدھے راوی آپ کا سفرِ معراج اُس زمانے
کی اُس مسجدِ حرام کی اُس مختصر چار دیواری سے شروع کراتے ہیں جس مُختصر
چار دیواری میں اُس وقت وہ 360 بُت پڑے ہوۓ تھے جن کے قریب جاکر آپ کا رہنا
یا سونا خلافِ عقل ھے اور آدھے راوی آپ کا سفرِ معراج اُس اُم ھانی کے گھر
سے شروع کراتے ہیں جس اُم ھانی کے گھر پر آپ کا رات کو جانا اور وہاں پر
سونا اِس لیۓ بھی خلافِ عقل ھے کہ وہ آپ کے لیۓ ایک غیر محرم عورت تھی اور
اِس لیۓ بھی خلافِ عقل ھے کہ ماضی میں آپ نے ابو طالب سے اُم ھانی کا رشتہ
مانگا تھا اور ابو طالب نے آپ کو اُم ھانی کا رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا
جس کی وجہ سے یہ واقعہ بذاتِ خود بھی ایک معاشرتی رکاوٹ بن چکا تھا ، بہر
کیف اِن معروف واقعات اور اِن معروف واقعات کی طرح کے دیگر بہت سے معروف
واقعات سے جو بات نکھر کر سامنے آتی ھے وہ یہ ھے کہ سُورةُالاَسرٰی کی اُس
پہلی اٰیت کا آپ کی جسمانی معراج سے اور اِس سُورت کی اِس موجُودہ اٰیت کا
آپ کی رُوحانی معراج سے کوئ تعلق نہیں ھے ، جہاں تک لفظ رُویت کی بات ھے تو
یہ ایک مُطلق رُویت ھے جو خواب میں بھی ہو سکتی ھے اور بیداری میں بھی
ہوسکتی ھے اور یہ بات صرف وہی انسان بتا سکتا ھے جس نے وہ رُویت خواب یا
بیداری میں کی ہوتی ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام کا کوئی ایسا ذاتی قول
موجُود نہیں ھے جو اِس اَمر کو واضح کرے کہ وہ معروف رُویت آپ کے خواب کی
رُویت تھی یا آپ کی بیداری کی رُویت تھی ، دُنیا بھر کی زبانوں کے اُسلوبِ
کلام میں رُویت کی ایک قسم وہ ہوتی ھے جس کو انسان اپنے وجدان و خیال میں
اپنے ایک عظیم انقلابی خواب کے طور پر سوچتا اور دیکھتا رہتا ھے اور اِس کی
عملی تعبیر بھی اُس انقلابی ہستی کی حیات میں ایک انقلابِ حیات کی صورت میں
ظاہر ہوتی ھے اور اٰیتِ ھٰذا میں اللہ تعالٰی نے آپ کی اسی رُویت کا ذکر
کیا ھے جو آپ کے آغازِ نبوت کے زمانے کی ایک رُویت تھی ، اسی لیۓ اللہ
تعالٰی نے آپ کو وہ رُویت ہجرت کے اُس عظیم اور انقلاب آفریں موقعے پر یاد
دلائی ھے جب اُس کی تعبیر مدینے کی حکمرانی اور مکے کی فتح کی صورت میں آپ
کے سامنے آنے والی تھی اور چونکہ یہ ہجرت سے بہت پہلے کی بات تھی اِس لیۓ
اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ بات اپنے حُکمِ "اذ" کے ساتھ یاد دلائی تھی اور جس
شجرہِ ملعونہ کا ذکر ہوا ھے وہ بھی شرک کا وہی شجرہِ ملعونہ ھے جس کی آپ
جڑھیں کاٹ رھے تھے اور اور یہی وہ انسانی اختلاف تھا جس کا قُرآن نے ذکر
کیا ھے اور اللہ تعالٰی کے اِن لوگوں کو اپنے احاطے میں لینے سے مُراد یہ
ھے کہ آپ جب تک بھی اِن لوگوں کے درمیان رہیں گے یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں
پُہنچا سکیں گے کیونکہ اللہ تعالٰی کے حُکم پر اللہ تعالٰی کی نادیدہ قوتوں
نے اِن سب کو اپنے گھیرے میں اِس طرح پر گھیر رکھا کہ یہ آپ کو نقصان
پُہنچانے کے لیۓ اِس نادیدہ حصار سے باہر نکل ہی نہیں سکتے !!
|