#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 53 تا 59
ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردوزبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قل لعبادی
یقول التی ھی
احسن ان الشیطٰن
ینزغ بینھم ان الشیطٰن
کان للانسان عدوامبینا 53
ربکم اعلم بکم ان یشایرحکم او
ان یشایعذبکم وماارسلنٰک علیھم وکیلا
54 وربک اعلم بمن فی السمٰوٰت والارض ولقد
فضلنا بعض النبیٖن علٰی بعض واٰتینا دوٗد زبورا 55
قل ادعوالذین زعمتم من دونہٖ فلایملکون کشف الضر
عنکم ولا تحویلا 56 اولٰئک الذین یدعون الٰی ربہم الوسیلة
ایہم اقرب ویرجون رحمتہ ویخافون عذابہ ان عذاب ربک کان
محذورا 57 وان من قریة الا نحن مھلکوھا قبل یوم القیٰمة او معذبو
ھاعذابا شدیدا کان ذٰلک فی الکتٰب مسطورا 58 ومامنعنا ان نرسل بالاٰیٰت
اِلا ان نکذب بھاالاولون واٰتینا ثمودالناقة مبصرة فظلموابھا وما نرسل
بالاٰیٰت
الا تخویفا 59
اے میرے رسول ! آپ میرے بندوں کو آگاہ کر دیں کہ وہ جب بھی مُنہ سے کوئی
بات نکالیں تو سوچ سمجھ کر کوئی اچھی سے اچھی بات ہی نکالیں کیونکہ شیطٰن
تو ہمیشہ ہی انسان کی زبان و بیان کے راستے سے آتا ھے اور انسانوں کے
درمیان فتنہ و فساد کراتا ھے اور یہ بات بھی پیشِ نظر رھے کہ شیطٰن تُمہارے
جانے پہچانے عمومی دشمنوں سے ایک الگ طرز کا دشمن ھے ، اللہ نے تُم کو
ارادہ و عمل کی جو قوت دی ھے اُس قوت کے ساتھ تُم جو اَعمال اَنجام دیتے ہو
اُن اَعمال و افعال کے نتائجِ جزا و سزا کو اپنے اپنے مقام پر رکھنے کے لیۓ
وہ تُمہارے خیال کی ایک ایک جُنبش اور تُمہارے اَحوال کی ایک ایک ساعت پر
نظر رکھے ہوۓ ھے ، تُم میں سے جو اُس کی جزا چاھے گا اُس کو اُس کے مقامِ
جزا تک ضرور لے جایا جاۓ گا اور اُس سے جو اُس کی سزا چاھے گا اُس کو بھی
اُس کے مقامِ سزا تک ضرور پُہنچایا جاۓ گا ، اے میرے رسول ! آپ کا کام میرے
بندوں کی خبرداری ھے وکالت کاری نہیں ھے ، آپ کا پالنہار آپ ہی کے اَحوال
سے باخبر نہیں بلکہ ارض و سما کی وسعتوں میں جہاں کہیں بھی اُس نے انسان
پیدا کیۓ ہوۓ ہیں وہ اُن تمام جہانوں کے تمام اُن تمام انسانوں کے اَحوال و
ظروف اور اُن کی خواہشات و ضروریات سے بھی آگاہ ھے ، اسی لیۓ اُس نے ہر
زمانے کے زمینی اَحوال کے مطابق کہیں پر مُطلق زبان و بیان کے ذریعے خبردار
کرنے والے نمائندے بھیجے ہیں اور کہیں پر اپنے تحریری پیغام کی اضافی فضیلت
کے حامل فرستادے مامُور کیۓ ہیں تاکہ ھمارے جو بندے کانوں سے سُن کر ھمارے
اَحکام یاد رکھ سکتے ہیں وہ اپنے کانوں سے سُن کر ھمارے اَحکام یاد رکھیں
اور ھمارے جو بندے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور پڑھ کر ھمارے نوشتے کو یاد
رکھ سکتے ہیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور زبان سے پڑھ کر ھمارے اِن
نوشتوں کو یاد رکھیں ، ھمارے اِن تحریری نوشتوں کے حاملین میں سے ھمارے ایک
فضیلت مآب نمائندے کا نام داؤد ھے جس کو ھم نے زبُور دے کر اہلِ زمین کی
ھدایت کے لیۓ مامُور کیا تھا اور اے قُرآن کے داعی ! آپ توحید کا انکار اور
شرک پر اصرار کرنے والے لوگوں کو بتادیں کہ تُم اللہ کے سوا جن جن ہستیوں
کے بارے میں خوش گمانیاں قائم کیۓ ہوۓ ہو اُن سب کو بار بار پُکارو اور بار
بار آزماؤ اور پھر ہمیں بتاؤ کہ اِن میں کون کون ھے جو تُمہارے رَنج و غم
کا مداوا کر سکتا ھے اور کون کون ھے جو تُمہارے حالات کو بدلنے کی قدرت
رکھتا ھے ، مرضِ شرک کا شکار ہونے والے یہ بدنصیب لوگ اللہ تعالٰی سے اپنا
رشتہِ بندگی توڑ کر اُس کی مخلوق کے جن اَفراد کے ساتھ اپنا رشتہِ بندگی
جوڑنے کے لیۓ مر رھے ہیں وہ بے چارے تو بذاتِ خود بھی اپنی جانی اَنجانی
خطاؤں کے نتیجے میں ملنے والی سزا سے بچنے کے لیۓ ڈرتے اور کپکپاتے ہوۓ
اللہ کی رحمت کے اُن دریاؤں تک پُہنچنے کے لیۓ مارے مارے پھر رھے ہیں جن سے
وہ اپنی اُمید و آس کے مشکیزے بھر کر اپنی رُوح کی پیاس بُجھا سکیں اور حق
بھی یہی ھے کہ اللہ کے بَھلے بندوں کے لیۓ اُس کے عتاب سے ڈرنے ہی میں
بَھلائی ھے ، اللہ کے عتاب سے اللہ کے بَھلے بندوں کے خوف زدہ ہونے کا سبب
اُن کا یہ علم ھے کہ ھم زمین کی جس بَستی کو پَستی سے اُٹھاتے ہیں تو اُس
کے رہنے والوں کو اُن کے ذہنی و فکری ارتقاء تک پُہنچانے اور اُن کو جسمانی
و رُوحانی طور پر محنت و مشقت کا خُوگر بنانے کے لیۓ بہت سی کڑی مشقتوں سے
بھی گزارتے ہیں اور ھمارا یہ طرزِ تربیت و آزمائش زمان و مکان کی پیشانی پر
لکھا ہوا ایک دائمی قانون ھے ، ھمارے لیۓ انسان کو عاجز و حیران کر دینے
والی اُن نشانیوں کے ظاہر کرنے میں بھی کوئی اَمر مانع نہیں ھے جن کا آپ کے
زمانے کے لوگ آپ سے مطالبہ کر رھے ہیں لیکن ماضی میں جب کبھی بھی ھم نے
لوگوں کا یہ مطالبہ پُورا کیا ھے تو ھماری طرف سے ظاہر کیۓ گۓ اُن غیر
معمولی نشانات کو دیکھنے کے بعد بھی مُختلف زمانوں کے مُختلف لوگ انکارِ حق
کی سزا پا کر فنا کے گھاٹ اُتر چکے ہیں اور اِن ہی لوگوں میں قومِ ثمود کے
وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ایسے ہی حیرت انگیز مُشاھدات کا ھم سے مطالبہ
کیا اور ھم نے اُن کو انسانی حقوق کی تعلیم دینے کے بعد حیوانی حقوق کی
تعلیم دینے کے لیۓ بَستی کی ایک اونٹنی کو اُن کے آب و دانے میں حصے دار
بنایا مگر اُن لوگوں نے اُس اونٹنی کا حصہِ رزق کھانے کے لیۓ اُس کو
ظالمانہ طور پر ہلاک کر دیا جس کے نتیجے میں وہ خدا کے عذاب سے دوچار ہو کر
نیست و نابُود ہو گۓ کیونکہ نادیدہ نشانیوں کو انسان کی دید میں لانے کا
مقصد انسان کو خدا کی پکڑ سے آگاہ کرنا ہوتا ھے اور جو لوگ قُدرت کے نادیدہ
نشانات دیکھنے کے بعد بھی بصیرت و بصارت سے محروم رہتے ہیں وہ سزا کے طور
حقِ زندگی سے محروم کر دیۓ جاتے ہیں اور تاحال چونکہ آپ کے زمانے کے اِن
لوگوں کی زندگی اور آزمائشِ زندگی ہمیں مطلوب ھے اِس لیۓ ھم اِن کے مطالبہِ
سزا کو پزیرائی نہیں بخشیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کا مقصدی مضمون توحید ھے جو قُرآنِ کریم کے اَحکامِ اَمر و نہی
کے درمیان بار بار لایا جاتا ھے ، بار بار دُھرایا جاتا ھے ، بار بار
سُنایا جاتا ھے ، بار بار سمجھایا جاتا ھے ، بار بار سکھایا جاتا ھے اور
بار بار یاد کرایا جاتا ھے تاکہ قُرآن کا طالبِ علم قُرآن کے اَحکامِ اَمر
و نہی کی تفہیم کے پہلُو بہ پہلُو توحید کی اُس مقصدی تعلیم کو بھی دُھراتا
چلا جاۓ جو خالقِ عالَم کے تعارف کی وہ بُنیادی تعلیم ھے جس کی تفہیم کے
لیۓ اللہ تعالٰی کے اَنبیاء و رُسل وقتا فوقتا اِس عالَم میں آتے رھے ہیں
اور انسان کو اللہ کی ذات و عظمت ذات کا یقین دلاتے رھے ہیں تاکہ انسان
اللہ کے اَحکامِ نازلہ پر ایمان لاۓ اور اللہ کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق
اہلِ زمین پر ظلم و ستم کے دروازے بند کرکے عدلِ اجتماعی کا وہ نظام قائم
کر دے جو ایمان بالتوحید کے بعد انسان کا سب سے بڑا مقصدِ حیات ھے ، اِس
مقصد کو پانے اور پایہِ تکمیل تک پُہنچانے کے لیۓ انسان کو جس ذہنی تنظیم
اور جس فکری تعلیم کی ضرورت ھے اُس کی پہلی شرط زبان کی صحت و درستی ھے اور
زبان کی صحت و درستی سے مُراد زبان کی لفظی تطہیر نہیں بلکہ زبان کی وہ
اَخلاقی تطہیر ھے جو اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں اِس طرح بیان کی گئی ھے
کہ انسان جب بھی اپنی زبان سے کلام کرے تو صرف خیر کا کلام کرے تاکہ اُس کے
ماحول کے سارے اطراف میں خیر پیدا ہو ، یہ وہی مضمون ھے جو اِس سے پہلے اِس
سُورت کی اٰیت 36 میں ایک اور حوالے سے بیان ہوا تھا اور ابھی اِس مقام پر
ایک اور حوالے سے بیان ہوا ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس مضمون کی شانِ ورُود یہ
بیان کی ھے کہ انسان نے ارتقاۓ حیات کے دوران جزا و سزا کے جن مقامات سے
گزرنا ھے اُن مقامات میں سب سے پہلے مقام پر سب سے پہلے انسان کے سوادِ
زبان اور فسادِ بیان کا جائزہ لیا جاۓ گا کہ کس کس انسان نے دین کے نام پر
کہاں کہاں اور کون کون سے فتنے پیدا کر کے اُمت کو کس کس طرح کے فتنہ و
فساد مُبتلا کیا ھے ، انسان چونکہ اپنے ہر عمل کو شیطان کی شیطانی قرار
دیتا ھے اِس لیۓ انسان کو اُس کا ارادہِ ذات یاد کرا کر یہ باور کرایا گیا
ھے کہ شیطان انسان کی زبان و بیان میں ایک وقتی وسوسہ تو پیدا کر سکتا ھے
لیکن شیطان انسان کے ارادہ و عمل کا حاکم بن کر انسان کو کسی عمل پر مجبور
نہیں کر سکتا ھے ، اہلِ شرک جو اللہ کے اَحکام کے مُنکر ہوتے ہیں اور جو
شیطان کی شہ پر نیک نفس انسانوں ، نیک دل جنوں اور نیک نہاد فرشتوں کی
پرستش کرتے ہیں اُن پر تو شیطان غلبہ پا لیتا ھے لیکن اہلِ ایمان جو اللہ
کے اَحکامِ نازلہ کو مانتے ہیں شیطان اُن پر غلبہ نہیں پا سکتا لیکن اٰٰیات
بالا کا سب سے فکر انگیز مضمون زمین اور زمانے کے اُن لوگوں کے بارے میں ھے
جو ہر زمانے کی ہر زمین پر اُن معجزوں کے انتظار میں زندہ رہتے ہیں کہ
پردہِ غیب سے کوئی بابا نکل کر آۓ اور اُن کی بگڑی بنا کر واپس چلا جاۓ ،
یہ لوگ ہر زمانے کی ہر زمین پر ہوتے ہیں اور ہر زمانے میں اِنہی معجزوں کا
انتظار کرتے کرتے مرکھپ جاتے ہیں ، اُن لوگوں کو بتایا گیا ھے کہ اللہ
تعالٰی کا یہ عالَم بذاتِ خود ایک معجزہ ھے اور اِس عالَم میں تُمہاری وہ
قوتِ حرکت و عمل بھی ایک معجزہ ھے جس کو تُمہارے جسموں اور تُمہاری جانوں
میں رکھا گیا ھے لیکن تُم تو وہ معجزہ فراموش و معجزہ شکن لوگ ہو جو رحمان
کے اِن عظیم معجزوں پر تو اِک نگاہِ غلط انداز بھی نہیں ڈالتے ہو لیکن
شیطان کے حُکم پر وہ معجزے طلب کرتے رہتے ہو جن کو شیطان تُمہاری زبانوں سے
سُن کر خوش ہوتا ھے ، تُم سے پہلے دُنیا کی دیگر اَقوام کے علاوہ قومِ ثمود
نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا اور جب اُن کے مطالبے پر انسانی حقوق کے بعد اُن
کو حیوانی حقوق کی ایک معجزانہ تعلیم دینے کے لیۓ ایک امتحانی تعلیم کے طور
پر اُن کے درمیان ایک مہمان اونٹنی ظاہر کی گئی اور اُن کو اُس اونٹنی کے
حصے کا پانی اور اُس کے حصے کا چارہ اُس کے لیۓ چھوڑنے کا حُکم دیا گیا تو
انہوں نے اُس کو قتل کردیا حالانکہ وہ اُنٹنی اُن کے درمیان اِس غرض سے
ظاہر کی تھی کہ وہ اللہ کے حُکم کے تحت ایک بے زبان جاندار کے طور پر اُس
سے محبت کریں اور اُس کی جان کی حفاظت کریں اور وہ جس طرح نوعِ انسانی کے
انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہیں اسی طرح وہ نوعِ حیوانی کے حیوانی حقوق کو
بھی تسلیم کریں لیکن انہوں نے نہ تو اپنے نبی کی دعوت پر ایمان لاکر انسان
کے انسانی حقوق کا احترام کیا اور نہ ہی اُس اونٹنی کی جان بچا کر حیوان کے
حیوانی حقوق کا کوئی اہتمام کیا ، اٰیاتِ بالا کے اِس مضمون میں قُرآن نے
انسان کو یاد دلایا ھے کہ اللہ نے اپنے رسول پر اپنا جو تحریری قانون نازل
کیا ھے اُس میں انسان و حیوان دونوں کے حقوق ہیں اور وہ قانون اِس مقصد کے
لیۓ نازل کیا ھے تا کہ تُم اُس کو پڑھو ، اُس کو سمجھو اور اُس پر عمل کرو
کیونکہ اُس پر عمل کرنے میں ہی تُمہاری نجات ھے !!
|