رَسُولِ مَحمُود ہجرتِ مَحمُود اور مقامِ مَحمُود !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 80 تا 83 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !! ={ 3 }=
و
قل رب
ادخلنی
مدخل صدق
واخرجنی مخرج
صدق واجعل لی من
لدنک سلطٰنا نصیرا 80
وقل جاء الحق وزھق الباطل
ان الباطل کان زھوقا 81 وننزل
من القراٰن ما ھو شفاء ورحمة للمؤمنین
ولا یزید الظٰلمین الا خسارا 82 واذاانعمناعلی
الانسان اعرض وناٰبجانبہٖ واذامسہ الشر کان یئوسا 83
اے ھمارے رسول ! آپ اپنے زمان و مکان کے اِن اَسفار کے لیۓ یہ دُعا کرتے رہا کریں کہ میرے رب ! تُو نے مُجھے جس جہان میں داخل فرمانا ھے اُس میں حق کے ساتھ داخل فرما اور تُو نے مُجھے جس جہان سے خارج فرمانا ھے اُس سے حق کے ساتھ خارج فرما اور ہر ایک مقام پر اپنے اقتدار کو میرا مددگار بنا اور اے ھمارے رسول ! آپ اپنے اِن اَسفار کے دوران جس جس زمان و مکان میں بھی گۓ ہیں تو یہ اعلان کرتے ہوۓ گۓ ہیں کہ میرا یہاں پر آنا حق کے لیۓ اعلانِ بقا اور باطل کے لیۓ پیغامِ فنا ھے کیونکہ ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ حق ہر مقام پر بقا پانے کے لیۓ ہوتا ھے اور باطل ہر مقام پر فنا ہونے کے لیۓ ہوتا ھے اور یہ قُرآن جو آپ کے دل پر نقش کیا جا رہا ھے یہ اَمن و امان کے ساتھ رہنے والوں کے لیۓ پیغامِ ھدایت اور ظلم و عُدوان پر کمربستہ ہونے والوں کے لیۓ پیغامِ ہلاکت ھے اور ھم نے انسان کے لیۓ ھدایت و رہنمائی کا یہ مُسلسل انتظام اِس لیۓ کیا ھوا ھے کہ اِس پر جب ھمارے انعامات کی بارش ہوتی ھے تو یہ ھم سے اپنا مُنہ پھیر لیتا اور رُخ بدل دیتا ھے اور جب اِس پر کوئی مصیبت آجاتی ھے تو یہ مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ھے ، اِس کے اِس غیر متوازن رویۓ کو متوازن بنانے کے لیۓ ھم وقتاً فوقتاً اِس کی ھدایت و رہنمائی کا سامان کرتے ہیں رہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ھم یہ بات مُختلف مواقع پر ایک سے زیادہ بار تحریر کر چکے ہیں کہ قُرآن کی تنزیل اور تکمیل مکے میں ہوچکی تھی اور مکے سے ہجرت کے بعد مدینے میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے اِس تنزیل کے اَحکامِ اَمر و نہی کی تعمیل کرائی تھی اور مکے میں تنزیل کی جو تکمیل ہوئی تھی اللہ تعالٰی نے اُس کی سُورةُالمدثر میں یہ بشارت دی کہ { یٰایھاالمدثر قم فانذر وربک فکبر } یعنی اے اپنی ذات میں اٰیات کی حسنات سمیٹے ہوۓ انسان ! اُٹھ جا اور عالَم کو اپنے خالق کی عظمت و کبریائی کا مُژدہ سُنا اور پھر سُورةُالمزمل میں پہلے اِس تنزیل کی تکمیل پر اظہارِ تشفی کرتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا گیا کہ { یٰایھاالمزمل قم الیل الا قلیلا } یعنی اے شب کی شال میں عیال کو سمیٹے ہوۓ انسان ! شَب افروزی کر مگر آدھی شب یا کم و بیش اور تنزیل کی تکمیل کے بعد اَب اِس تنزیل کی ترتیل کے لیۓ بھی تیار ہو جا اور اِس کے بعد یہ حُکم دیا گیا کہ { ورتل القراٰن ترتیلا } یعنی اَب وہ انقلابی مرحلہ آچکا ھے کہ اِس تنزیل کی ترتیل کا عمل شروع کر دیا جاۓ ، ترتیل سے مُراد تدریج ھے جس کا مقصد یہ ھے کہ مدینے میں تنزیل کے اَحکامِ اَمرِ و نہی کی جو عملی جد و جھد کی جاۓ وہ ایک تدریج کے ساتھ شروع کی جاۓ اور جس تدریج کے ساتھ شروع کی جاۓ اُسی تدریج کے ساتھ آغاز سے اَنجام تک پُہنچائی جاۓ ، یہ اُس انقلابی میں لَمحے میں دیۓ جانے والے انقلابی اَحکامِ وحی تھے جو مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کے لیۓ دیۓ گۓ تھے لیکن عُلماۓ روایت نے اِن کو ہجرت کے زمانے سے ہٹا کر آغازِ نبوت کے واقعات کے ساتھ جوڑ دیا ھے اور پھر اِن کا یہ خانہ ساز ترجمہ کیا ھے کہ اے چادر اوڑھ لپیٹ کر سونے والے اُٹھ جالیکن حقیقت یہ ھے کہ سُورہِ مُدثر میں سوۓ ہوۓ نبی کو وحی سنانے کے لیۓ سوتے سے نہیں جگایا گیا بلکہ محاورتاً بیٹھے ہوۓ پیغام بر کو اُٹھنے اور لَفظی تنزیل کی عملی تکمیل کا حُکم دیا گیا ھے اور سُورہِ مُزمل میں بھی چادر لپیٹ کر سونے والے نبی کو نہیں جگایا اور اُٹھایا گیا بلکہ اُٹھے اور جاگے ہوۓ نبی کو لَفظی تنزیل کو عملی تنزیل بنانے کا حُکم دیا گیا ھے ، اِس حُکم سے نبی اور اَصحابِ نبی کو یہ بتانا مقصود تھا کہ تُمہاری سعیِ مُسلسل سے قُرآن کو ذہنوں میں راسخ کر نے کا کام بڑی حد تک مُکمل ہو چکا ھے اِس لیۓ اَب روزانہ اتنا ہی قُرآن پڑھو جتنا سہولت کے ساتھ پڑھ سکو اور تلاوت سے زیادہ اِس کے مقاصد پر توجہ دو اور اِس ھدایت کی وجہ یہ بتائی گئی ھے کہ { انا سنلقی علیک قولا ثقیلا } یعنی اَب ھم آپ پر قولی جد و جھد کے بعد عملی جد و جھد کی ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کرنے والے ہیں ، آپ کی بہت سی علمی و عملی ذمہ داریوں میں سے یہ ذمہ داری کیا تھی ، مکے سے مدینے کی طرف ہجرت اور مدینے میں قُرآنی حکومت کا قیام جو محض وحی کی ایک علمی گویائی نہیں تھی بلکہ وحی کی علمی گویائی کے ساتھ ساتھ وحی کی ایک عملی کار فرمائی بھی تھی جس کے لیۓ آپ کو یہ حُکم دیا گیا تھا { واذکر اسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا } یعنی اَب آپ دُنیا کے ہر ایک دھیان سے کٹ کر اپنے رب کے اُس فرمان سے جڑ جائیں جس کا نام قُرآن ھے ، اسی کی فکر کریں ، اسی کا ذکر کریں ، اسی کی تعلیم دیں اور اسی کی تلقین کریں تاکہ زمین پر ہر طرف اسی کی فرماں روائی ہو اور اسی کی کشور کشائی ہو ، ہجرت کی اِن اٰیات میں چونکہ دُور دُور تک بھی کہیں اہلَ روایت کی روایتی نماز کا ذکر نہیں ھے اِس لیۓ اہل روایت کے اکثر تفسیر کاروں اور ترجمہ نگاروں نے سُورہِ مُزمل کی تفسیر میں سُورہِ اَسرٰی کی اٰیت { ومن الیل فتھجد بہ نافلة لک عسٰی ان یبعثک ربک مقاما محمودا } شامل کی اور اِس کا یہ ترجمہ کیا گیا کہ رات کو نمازِ تھجد میں قُرآن کی تلاوت کیا کریں ، عنقریب آپ کا رب آپ کو مقامِ محمُود پر کھڑا کر دے گا ، اور پھر اِس اٰیت کی یہ تفسیر فرمائی گئی ھے کہ تھجد کی یہ نماز نبی اکرم کے رفعِ درجات اور اُمت کے کفارہِ سیئات کے لیۓ مقرر کی گئی ھے ، یعنی اِس سے ایک کام تو یہ ہوگا کہ نبی علیہ السلام کے وہ درجات بڑھتے جائیں گے جن کے بڑھنے سے آپ مقامِ محمُود پر پُہنچ جائیں اور دُوسرا کام یہ ہوگا کہ آپ کی نمازِ تھجد سے اُمت کے گناہ بھی معاف ہوتے جائیں گے مگر یہ بات ھم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ "تھجد" کا معنٰی سونا ھے جاگنا نہیں ھے اور تکمیلِ قُرآن کے بعد اللہ تعالٰی نے نبی اور اَصحابِ نبی کو یہ حُکم دیا ھے کہ رات کو زیادہ جاگنے اور زیادہ تلاوت کرنے کے بجاۓ زیادہ آرام کیا جاۓ لیکن عُلماۓ روایت کہتے ہیں کہ نبی علیہ السلام جو شب کو جاگتے تھے تو اپنے اَصحاب کو قُرآن پڑھانے کے لیۓ نہیں جاگتے تھے بلکہ نمازِ تھجد پڑھنے کے لیۓ جاگتے تھے اور نمازِ تھجد کے حق میں اُنہوں نے یہ دلیل دی ھے کہ تھجد کا معنٰی تو سونا ہی ھے لیکن "ہجُود" جب بابِ تفعل میں آتا ھے تو اجتناب کا معنٰی دیتا ھے ، ہمیں اِس قاعدے کی صحت پر کوئی شُبہ نہیں ھے لیکن اِن لوگوں کی دماغی صحت پر ضرور شُبہ ھے کہ اگر "ہجود" کا معنٰی سونا ھے اور بابِ تفعل میں آنے کے بعد اِس کا معنٰی اجتناب ہوجاتا ھے تو جاگنے سے اجتناب ہوگا ، سونے سے اجتناب کیوں ہونے لگا اور اگر آپ کے خیال کے مطابق "ہجُود" کا معنٰی بابِ تفعل میں آنے کے بعد سونے کے بجاۓ جاگنا بن جاتا ھے تو پھر آپ کے اِس اصول کے تحت تو آپ "تھجد" میں جو "تشھد" پڑھتے ہیں تو اُس کا معنٰی بھی اُلٹ جاۓ گا اور آپ کی اِس اُلٹی گنگا کے مطابق آپ کی نماز کی دُوسری اور چوتھی رکعت کے قاعدے میں کلمہِ شہادت کی ادائگی ساقط اور عدمِ ادائگی لازم ہو جاۓ گی ، بہر کیف اِس بحث سے قطع نظر زمان و مکان کے لامحدُود دائرے میں سیدنا محمد علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کا ایک محدود دور وہ ھے جو آپ کی ولادت و وصال کے محدُود دائرے میں اِس طور پر نظر آتا ھے کہ آپ مکے میں پیدا ہوۓ ، مکے میں پروان چڑھے ، مکے میں نبوت کا اعلان کیا ، تیرہ برس تک مکے میں توحید کی تعلیم دینے کے بعد مدینے کی طرف ہجرت کی ، وہاں پر قُرآن کی حکومت قائم کی اور دس برس بعد مدینے میں وصال فرمایا ، حیاتِ نبوی کا یہ دور زمان و مکان میں آپ کے اِس سمعی و بصری عھدِ نبوت کا ایک خاص دور اور خاص دائرہ ھے جس میں ایک خاص زمانے کے خاص لوگوں نے آپ پر قُرآن نازل ہوتے اور مُکمل ہوتے ہوۓ دیکھا ھے اور اِس تنزیل و تکمیل کی گواہی دی ھے ، اِس دور کے پہلے تیرہ برس آپ مکے میں اللہ کے آخری رسول کے طور پر مقامِ محمُود پر فائز رھے اور دُوسرے دس برس مدینے میں اللہ کے آخری نبی اور پہلے حاکم کے طور پر مقامِ محمُود پر فائز ہوۓ ، ایک دور نے آپ کی رُوح کو مقامِ محمُود پر پُنہچایا ھے اور ایک دور نے آپ کی ہستی کو مقامِ محمُود کا وارث بنایا ھے لیکن سیدنا محمد علیہ السلام کی حیات کے اِس محدُود دور کی طرح آپ کی حیات کا وہ لامحدُود دور بھی ھے جو زمان و مکان کی لامحدُود وسعتوں میں جہانوں کی تخلیق ، جہانوں کی تشکیل اور جہانوں کی تعمیر و تکمیل کے ساتھ جاری ھے ، اِن جہانوں میں سے کسی جہان میں آپ اَوّل الانبیاء بن چکے ہیں اور کسی میں خاتم الانبیاء بن کے جانے والے ہیں ، کسی جہان والے آپ کی نبوت کا نُور دیکھ رھے ہیں اور کسی جہان میں آپ کی رسالت کی روشنی کا انتظار ھے ؎
ہو کجا بینی جہانِ رنگ و بُو
آں کہ اَز خاکش بروید آبرُو
یازِ نُورِ مصطفٰی اُو رابہاست
یاہنُوز اَندر تلاشِ مصطفٰی است
ھمارے جہان میں تشریف لانے سے پہلے آپ ان ہی جہانوں میں سے کسی جہان میں فریضہِ نبوت اَنجام دے رھے تھے ، وہاں پر اپنی کائناتی نبوت کی تکمیل کرنے اور اپنے خاتم الانبیاء ہونے کا اعلان کرنے کے بعد ھماری دُنیا میں تشریف لاۓ اور پھر ھماری دُنیا سے کسی اور دُنیا میں تشریف لے گیۓ ، زمان و مکان میں آپ کی نبوت و رسالت کا یہ تسلسل ہی آپ کا وہ مقامِ محمود ھے جو آپ کو حاصل ھے ، قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا آپ کی نبوت و رسالت کے اسی بین الکائناتی پَس منظر کی عکاس ہیں اور ھم نے اِن اٰیات کا جو مُفصل مفہوم تحریر کیا ھے وہ آپ کی نبوت و رسالت کے اسی بین الکائناتی پَس منظر کا مظہر ھے !!

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458766 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More