پٹرول ڈلوانے کے بعد میں گاڑی سیدھا پنکچر شاپ پر لے آیا۔
ہوائیں چیک کر دو کا میرا نعرہ سن کر شاپ کے مالک نے کام کرنے والے لڑکوں
کی طرف دیکھا۔ سارے مصروف تھے۔ وہ اٹھا اور اس نے میری گاڑی کی ہوا خود چیک
کرنی شروع کر دی۔چاروں پہیے چیک کرنے کے بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آکر
کھڑا ہو گیا۔ میں نے بیس روپے نکالے اور اس کی طرف بڑھا دئیے۔ وہ پیسے
پکڑنے کی بجائے تیزی سے پیچھے ہٹا اور نعرہ لگایا ، اوئے تم۔ میں نے مڑ کر
دیکھا، پنکچر شاپ کا مالک میرا بچپن کا دوست اور ہمسایہ شبیر تھا۔میں باہر
نکلا، اسے گلے ملا، پھر اس نے پہلے میری گاڑی سائڈ پر لگوائی ۔ایک بنچ
اٹھایا اور کہنے لگا۔ بڑے دنوں سے مجھے کسی دوست کی تلاش تھی جس سے بہت سے
باتیں کروں ،کچھ دل کا غبار نکالوں، اچھا ہوا تم مل گئے ، ورنہ مجھے دل پر
اتنا بوجھ لگتا تھا کہ زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے ۔ تم نے اپنا گھراور اپنا
فون نمبر بھی بدل لیا ہے ا ور مجھے نئے گھر کا پتہ نہیں تھا ، ورنہ میں
تمھارے پاس پہنچ جاتا۔پٹرول پمپ کی ایک سائیڈ پر قدرے پرسکون جگہ اس نے بنچ
رکھا اور ایک لمبا سانس لے کر خاموشی سے بیٹھ کر مجھے گھورنے لگا۔ میں نے
سوال کیا کہ بھائی باہر سے کب آئے ، اور یہ پنکچر لگانے کا کام کب اور کیوں
شروع کیا۔
میرے بہت سے سوالوں کے جواب میں وہ پہلے ہنسا اور پھر مسلسل مسکرا کر مجھے
دیکھنے لگا۔ اس کی ہنسی کی آواز یوں تھی جیسے کوئی شدید درد سے کراہ رہا
ہو۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ عجیب مسکراہٹ تھی۔ہونٹوں ہنستے ہوئے،
چہرے پر بے پناہ کرب اور آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو۔ کہنے لگا ، بہت سی
باتیں تم کو بتانا چاہتا ہوں۔ مگر پہلے تمہارے سوالوں کے جواب دوں گا۔
’’مجھے پاکستان واپس آئے سات آٹھ ماہ ہو چکے ۔میں تمہاری طرح پڑھا لکھا
نہیں ہوں ۔ تم جانتے ہو گھر کے حالات بہتر کرنے کے لئے میں ساتویں جماعت
میں پڑھائی چھوڑ کردیار غیرچلا گیا تھا۔وہاں جا کر ایک ہی کام سیکھااور وہ
ہے پنکچر لگانا۔ ساری عمر یہی کام کیا ہے ۔ واپس آیا تو اس یقین کے ساتھ
تھا کہ اب آرام کروں گا مگر مجبوری ، کسی طرح اپنی بھوک تو مٹانی ہے سو
یہاں آ کر بھی یہی کام شرو ع کر دیا ہے‘‘۔ مگر تم نے تو پلازہ بنایا تھا۔
اور کچھ اور بھی جائداد تھی۔ سب بتاتا ہوں آرام سے سنو۔ اس نے جواب دیا۔
یوں لگتاتھا کہ کچھ کہنے سے پہلے وہ خود کو سنبھال رہا ہے۔
ماضی کی بہت سی یادیں شبیر سے ملاقات کے بعد ذہن میں گردش کرنے لگیں۔سکول
سے چھٹی ہوتے ہی ہم چار پانچ لڑکے اکٹھے گھرکو روانہ ہوتے تھے۔راستے میں
ایک مزار تھا۔ مزار کے احاطے میں ایک گوندی کا د رخت تھا ۔اس درخت پر گوندی
کا چھوٹا سا پیلے رنگ کا پھل لگا ہوتا۔ہاتھوں کو چپکتا ہوا اس کا رس بڑا
مزیدار لگتا۔شبیر میرا کلاس فیلو اور محلے دار تھا۔ ہم ہمیشہ گھر اکٹھے آتے
تھے۔اسے درخت پر بہت تیزی سے چڑھنے کا طریقہ آتا تھا۔ وہ درخت پر چڑھ کر
بڑے مزے سے اتنی گوندی اتار لاتا کہ ہم سب وہ گوندی کھاتے گھر تک پہنچ
جاتے۔آج شبیر سے ملنے کے بعد مجھے گوندی کا وہ پھل یاد آ رہا تھا جو آج
معدوم ہو چکا۔
شبیر کلاس کے محنتی اور ہونہار طلبا میں شمار ہوتا تھا۔ہر معاملے میں وہ
کلاس میں سب سے آگے نظر آتا۔ شبیر کا باپ ایک ڈرائیور تھا۔ کسی کی ملکیت
ٹیکسی وہ سارا دن چلاتا۔ سات آٹھ گھنٹوں میں بڑی مشکل سے ٹیکسی کے مالک کو
دینے والی رقم پوری ہوتی۔ اس وقت تک اس کا بوڑھا باپ تھک چکا ہوتا مگر اپنے
گھر کے اخراجات کے لئے اسے مزید دو تین گھنٹے ٹیکسی چلانا پڑتی۔شبیر کا بڑا
بھائی جو اس سے چار سال بڑا تھا، نہ تو پوری طرح پڑھنے کوتیار تھا اور نہ
ہی کوئی کام کرنے کو۔اسے آوارہ گردی سے فرصت ہی نہ تھی۔ وہ کسی صورت باپ کا
ہاتھ بٹانے کو بھی تیار نہ تھا۔شبیر کو گھر کا پورا احساس تھا اور اس کی
کوشش تھی کہ جلدی جلدی پڑھ کراپنے باپ کو اس مشقت سے نجات دلا دے۔
ہم ساتویں جماعت میں تھے۔ شبیر کے باپ کا ایک پرانا دوست دبئی سے اپنے گھر
پاکستان آیا ہوا تھا۔شبیر کے باپ کے حالات دیکھ کر اس نے اس کو پیشکش کی کہ
وہ اپنے بڑے بیٹے کو اس کے ساتھ دبئی بھیج دے۔ وہاں تھوڑی سی محنت سے اسے
معقول آمدن ہو جائے گی۔یوں جو پیسے بچا کر وہ پاکستان بھیجے گا اس سے گھر
کی حالت سنور جائے گی۔ شبیر کے ماں باپ کو بات سمجھ آ گئی،ویسے بھی ان دنوں
ہر آدمی کو باہر جانے کا شوق تھااور انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو دبئی بھیجنے
کا فیصلہ کر لیا۔مگر بڑا بیٹاجو آوارہ گردی کا زیادہ رسیا تھا، کسی صورت
جانے کو تیار نہیں تھا ۔ ماں باپ مایوس تھے۔ پھر انہوں نے کچھ سوچ کر دوست
کے مشورے سے شبیر سے بات کی تو شبیر اپنی پڑھائی چھوڑ کر نہ چاہتے ہوئے بھی
ماں باپ کی خاطرگھر سے دور جانے کو تیار ہو گیا۔ دیار غیر میں رہتے ہوئے وہ
ہر دو تین سال بعد گھر کا چکر لگاتا۔شروع میں مجھ سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔
مگر پچھلے پندرہ بیس سال سے رابطہ ٹوٹ چکا تھا۔
پھر اس نے ایک لمبی سانس لی اورگویا ہوا۔تمہیں سب پتہ ہے کہ میرا باپ ایک
غریب ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ اسے مجبوری میں پندرہ سولہ گھنٹے ٹیکسی چلانا ہوتی
تھی۔ پھر بھی وہ بمشکل گھر کا خرچ پورا کرتا تھا۔ میں اور مجھ سے تین چار
سال بڑابھائی ۔ہم دو بھائی ان کی کل اولاد تھے۔ تمہیں یاد ہو گا جب ہم
دونوں ساتویں میں تھے کہ ابو کا ایک دوست جو دبئی میں رہتا تھا، ان سے ملنے
آیا اور اس نے گھر کے حالات دیکھ کر ابو کو کہا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کو اس
کے ساتھ بھیج دے ، گھر میں معقول پیسے آنے لگیں گے۔ویسے بھی بڑے بھائی کو
پڑھنے کا شوق نہیں تھا، وہ سارا دن آوارہ پھر کر اپنا دن گزار دیتا۔ والدین
کی منت سماجت کے باوجود جب بھائی نہ مانا تو ابو کے دوست کے کہنے پر میں
مجبوری میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ابو کا دوست جس کو میں چچا کہتا تھا، مجھے
ساتھ لے کر دبئی پہنچ گیا۔ چچا بھی ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ ایک ہفتہ میں نے
آرام کیا اور اس دوران ہم سوچتے رہے کہ کیا کام شروع کیا جائے کہ جس کا بار
میں اس چھوٹی عمر میں اٹھا لوں۔
ایک ہفتے بعد چچا مجھے ایک پنکچر والے کی دکان پر لے گیا۔وہاں کی پنکچر کی
دکان پاکستان کی دکانوں سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ وہ مکمل ٹائر شاپ ہوتی ہے
۔وہاں پنکچر کم اور ٹائر کی تبدیلی زیادہ ہوتی ہے۔ کسی نئے ٹائر میں پنکچر
ہو تو ہلکا پھلکا پنکچر لگا دیا اور تھوڑا پرانا ٹائر تو فوراً تبدیل کر
دیا جاتا۔ میں جس دکاندار کے پاس کام کرتا تھا ، وہ بہت اچھا آدمی تھا جلد
ہی وہ میری مجبوریاں سمجھ گیا اور میرا بچوں کی طرح دھیان رکھنے لگا۔ چچا
بھی میرا خاص خیال رکھتا تھا ۔دن میں ٹیکسی چلاتے وہ دو تین دفعہ میرے پاس
رکتا۔ روزانہ میں دکان کے لڑکوں کے ساتھ وہیں سو جاتا مگر اتوار یا چھٹی کے
دن چچا کے بچوں کے ساتھ گزارتا۔چچا ہر مہینے میری تنخواہ وصول کرتا، خرچے
کے کچھ پیسے مجھے دینے کے بعد بقیہ رقم میرے والدین کو بھیج دیتا۔ پہلے چھ
ماہ بہت تلخ تھے اکیلے دل نہیں لگتا تھا مگر بعد میں وہاں کے حالات سے میں
نے سمجھوتا کر لیا۔دو سال بعد میں پہلی دفعہ پاکستان آیا۔ والد اور والدہ
نے اس دوران میرے بھیجے ہوئے پیسوں سے کرایے کا مکان چھوڑ کر ایک گروی مکان
لے لیا تھا۔گھر کے حالات بھی بہتر ہو گئے تھے۔ اگلے سال ابا کے مرنے پر میں
آیا تو ماں کو میں نے کہا کہ تم اب گھر میں اکیلی رہتی ہو ، بھائی سارا دن
گھر سے غائب رہتا ہے بہتر ہے کہ بھائی کی شادی کرد د، گھر میں دوعورتیں ہوں
گی تو تمہارا دل بھی لگا رہے گا۔
اگلے سال بھائی کی شادی ہو گئی۔ بھائی کچھ نہیں کرتا تھا۔ شادی کے اخراجات
بھی میں نے ہی کئے۔ گھر کا خرچہ تو پہلے ہی میرے ذمہ تھا۔ایک دفعہ میں آیا
تو میں نے ایک کنال جگہ گھر کے لئے دیکھی، بیانہ کیا اور رجسٹری بھائی کے
ذمے ڈال کر بقیہ پیسے اکٹھے کرنے واپس چلا گیا۔ اس دوران ماں بھی فوت ہو
گئی۔ اب میرے لئے میرا بڑا بھائی ہی میری ماں اور میرا باپ تھے۔ میں نے مکا
ن کی تعمیر کے پیسے بھیجے۔ دو منزلہ مکان تعمیر کرایا۔ دونوں منزلوں کا ایک
جیسا نقشہ تھا۔ ایک حصہ بھائی کا اور دوسرا میرا۔ پھر ایک دفعہ آیا تو
بھائی نے فلاں چوک میں ایک ڈیڑھ کنال کا کمرشل پلاٹ دکھایا کہ اگر یہ خرید
کر اس پر پلازہ بنا لیا جائے تو بڑا معقول کرایہ حاصل ہو سکتا ہے۔ میں نے
کہا ہاں مجھے یاد ہے وہ جگہ خریدنے سے پہلے تم نے مجھے بھی دکھائی تھی۔ہاں
وہی جگہ۔ میں نے بڑی محنت اور بھاگ دوڑ سے وہ پیسے اکٹھے کئے اور بھائی کو
بھیجے کہ وہ میرے نام سے رجسٹری کروا لے۔ اس پر عمارت بنانے پر جو رقم خرچ
ہوئی اس کا بڑا حصہ میں نے قرض لیا جسے اتارنے کے لئے مجھے بہت محنت کرنا
پڑی اور میں اسی چکر میں چار پانچ سال تک گھر نہ آسکا۔خیر میں مطمن تھا کہ
جب بھی پاکستان جاؤں گا ، اپنا گھر ہو گا اور آمدن کے لئے شاندار پلازہ۔مگر
آج سے آٹھ نو مہینے پہلے جب میں پاکستان پہنچا تو بھائی نے ایک چھوٹا سا
کمرہ رہنے کو دیا۔ میں نے جب اسے اپنا پورشن خالی کرنے کا کہا تو وہ کہنے
لگا کہ بچے بڑے ہو گئے ہیں اب وہ ان سے کمرے خالی نہیں کرا سکتا۔ پہلے تو
بات مجھے سمجھ نہ آئی لیکن دو تین دن بعد بھائی نے بتایا کہ میں نے اسے 80
اور90 کی دہائی میں جو رقم بھیجی تھی وہ کوشش کرکے قسطوں میں مجھے واپس کر
دے گا۔ مکان اور پلازے کی ملکیت کی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ سب رجسٹریاں تو
بھائی نے اپنے نام کروائی ہیں۔ میرا تو ذکر ہی کہیں نہیں۔ میں حیران رہ
گیا، بھائی نے تو میرے ساتھ سراسر فراڈ کر لیا تھا۔ ایک ایسا فراڈ کہ میں
جس کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔
بہت سے عزیزوں نے بھائی سے بات کی ۔اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کی اسے کھلم
کھلا بتایا کہ تم نے تو زندگی میں آج تک کوئی کام نہیں کیا ، تم پیسے کہاں
سے لا سکتے ہو۔ اپنے بھائی جس نے ساری عمر تمہاری خدمت کی ہے کے ساتھ
زیادتی مت کرو اور اس کی رقم اور اس کی جائیداد اسے واپس کر دو، مگر بھائی
کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔الٹا تنقید کرنے والوں کو برا بھلا کہتا
ہے۔ مجھے اس نے کہنے سننے کے بعد صرف پچیس لاکھ دئیے ہیں کہتا ہے کوشش کروں
گا کچھ اور دے دوں۔ مگر لگتا ہے وہ سب کچھ ہضم کر چکا اور اس حد تک بے حس
ہو چکا ہے کہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔کچھ پیسے میرے پاس تھے، پچیس
بھائی سے ملے۔ ایک مکان لے لیا ہے۔ گھر کے اخراجات کے لئے یہ دکان بنا لی
ہے۔
میرے بیوی بچوں کو انتہائی افسوس ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ کا وہ بھائی جس
سے آپ کی عقیدت بے انتہا تھی۔ اس عقیدت کا کیا صلہ ملا۔ کبھی کبھی میرا جی
چاہتا ہے کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں اور دنیا کو کہوں کبھی کسی کا اعتبار نہ
کرنا چاہے وہ آپ کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کہہ کر وہ واقعی پھوٹ پھوٹ
کر رونے لگا۔ میں اسے حوصلہ دیتا رہا مگر یہ مسائل حوصلہ دینے سے حل نہیں
ہوتے۔ میں بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا ۔کیا کہہ سکتا تھا۔ اسے تو لوٹا
ہی ایک ایسے شخص نے تھا جس پر اعتماد ایک فطری عمل تھا مگر جب اپنے ہی لوٹ
لیں تو انسان اپنا اعتماد اور اعتقاد سب کھو دیتا ہے۔میں اسے روتے دیکھتا
رہا اور جب وہ کچھ پر سکون ہوا تو میں بھی اپنی آنکھوں میں کچھ آنسوں سمیٹے
وہاں سے واپس آ گیا۔
تنویر صادق
|