یہاں ہم اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کی تکریم و
منزلت کا جائزہ پیش کرتے ہیں :
1۔ اﷲ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں
رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں
ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے
اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی
تخلیق) کو پھیلا دیا۔)القرآن، النساء ، 4 : 1
2۔ عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا ئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کیا
کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جنت
سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے جبکہ عیسائی روایات کے مطابق شیطان نے حضرت
حواء علیہا السلام کو بہکا یا اور یوں حضرت حواء علیہا السلام حضرت آدم
علیہ السلام کے بھی جنت سے اخراج کا سبب بنیں۔ قرآن حکیم اس باطل نظریہ کا
رد کرتے ہوئے فرماتا ہے :
پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے،
جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔
القرآن، البقرۃ، 2 : 36
3۔ اﷲ تعالیٰ نے اجر کا استحقاق میں بھی برابر مقام دیا۔ ان دونوں میں سے
جو کوئی بھی کوئی نیک عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشادِ
ربانی ہے :
ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی
عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب
ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔القرآن، آل عمران،
4۔ اسلام نے عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا یاکہ اسے روٹی،
کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ولی الامر کی طرف سے ملے گی۔یہ ذمہ
داریاں اسلام نے مرد کے ذمہ لگائیں کہ وہ ان کو پورا کرے گا۔
5۔ عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے،
اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔
اسلام نے عورت کو کئی حثیتوں سے عزت سے نوازا۔
عصمت و عفت کا حق
معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کی عصمت و عفت
کے حق کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو
بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت و عفت کی حفاظت ونگہبانی کریں:
’’(اے رسول مکرم ﷺ!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور
اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کیلیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اﷲ اس سے
واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo‘‘
القرآن، النور، 24: 30
’’فرج‘‘ کے لغوی معنی میں تمام ایسے اعضاء شامل ہیں، جو گناہ کی رغبت میں
معاون ہو سکتے ہیں، مثلاً آنکھ، کان، منہ، پاؤں اور اس لیے اس حکم کی روح
یہ قرار پائی کہ نہ بری نظر سے کسی کو دیکھو، نہ فحش گفتگو سنو اور نہ خود
کہو، اور نہ پاؤں سے چل کر کسی ایسے مقام پر جاؤ، جہاں گناہ میں مبتلا ہو
جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد عورتوں کو حکم ہوتا ہے:
’’اور (اے رسول مکرمﷺ!) مومن عورتوں سے فرما دیجئے کہ (مردوں کے سامنے آنے
پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور
اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا
ہی رہتا ہے۔‘‘القرآن، النور، 24: 31
’’اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی
وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم
سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے، اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب
تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم
خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان
(اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (کیونکہ بقیہ اوقات
میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اِسی
طرح اﷲ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اﷲ خوب جاننے والا حکمت والا
ہےo‘‘القرآن، النور، 24: 58
ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خدمت اقدس میں آتا ہے اور عرض کیا
کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور
کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا
اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف
جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا
کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ
عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔
ہندی، کنز العمال، 5: 411
اسی طرح کا ایک اور واقعہ یوں مذکور ہے:
’’ایک شخص نے ہذیل کے کچھ افراد کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے
کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آجاتی ہے اور وہ اس کے
پیچھے چل پڑتاہے اور اس کی عصمت لوٹنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن اس باندی
نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو
بچانیمیں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس
سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس گئی اور
انہیں ساراواقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے
پاس لے کر گئے اور آپ رضی اﷲ عنہ سے سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضرت عمر رضی
اﷲ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر
ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی
اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اﷲ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی۔‘‘
سنن بیہقی، 8: 337
مصنف عبدالرزاق، 9: 4352.
ابن ابی شیبہ1: 166، رقم: 154
. ابن ابی شیبہ، 5: 431، رقم: 27793
ابن عبدالبر، التمہید، 21: 257
حضور نبی اکرمﷺنے عورتوں سے حسن سلوک کی حکم دیاہے اور زندگی کے عام
معاملات میں عورتوں سے عفو و درگزر اور محبت و الفت پر مبنی سلوک کی تلقین
فرمائی ہے:
عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ قال: المرأۃ کالضلع ان اقمتہا کسرتہا
وان استمتعت بہا استمتعت بہا وفیہا عوج.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عورت پسلی
کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس کے ساتھ
فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود
ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب المدارۃ مع النساء، 5: 1987، رقم: 4889
2. مسلم، الصحیح، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء، 2: 1090، رقم: 1468
3. ترمذی، السنن، کتاب الطلاق، باب ماجاء فی مدارۃ النساء، 3: 493، رقم:
1188
4. احمد بن حنبل، المسند، 2: 428، رقم: 9521
5. ابن حبان، الصحیح، 9: 487، رقم: 4180
6. دارمی، 2: 199، رقم: 2222
عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ عن النبی ﷺ قال: من کان یؤمن باﷲ والیوم الاخر فلا
یؤذی جارہ واستوصوا بالنساء خیرا، فانہن خلقن من ضلع و ان اعوج شء فی الضلع
اعلاہ فان ذہبت تقیمہ کسرتہ وان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصوا بالنساء خیرا.
’’ٓصحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے
فرمایا: جو اﷲ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو
تکلیف نہ دے، اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر
لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے
زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس
کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ
بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔‘‘
1. بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء، 5: 1987، رقم: 4890
2. مسلم، الصحیح، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء، 2: 1091، رقم: 1468
3. ابن ابی شیبہ، المصنف، 4: 197
. 4 بیہقی، السنن الکبریٰ، 7: 295، رقم: 14499
جاری ہے
|