|
|
"تم کو شرم نہیں آتی بیوی کے لیے بڑے بھائی سے زبان
چلاتے ہو" احمر نے رعب اور غصے سے شعیب کو ڈانٹا شعیب جو اچھی طرح جانتا
تھا کہ غلطی اس کی بیوی کی نہیں بلکہ بھابھی کی ہے، بھائی سے یہ بھی نہ کہہ
سکا کہ تھوڑی دیر پہلے وہ میاں بیوی دونوں اس کی بیوی کو سخت سست سنا رہے
تھے تب ان کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ بھی میری بیوی ہے، میری عزت، کیا
تھا جو چھوٹے بھائی کا خیال کرکے اسے نرمی سے سمجھا دیتے- |
|
شعیب کا مسئلہ یہ تھا کہ ماں باپ کے گزر جانے کے بعد
شعیب اور اس کی بیوی بڑے بھائی بھابھی کے ساتھ رہتے تھے۔ شعیب کی بیوی
عمارہ مخلص اور عاجز مزاج لڑکی تھی جبکہ اسماء بھابھی روایتی خودپسند اور
بات بات پر لڑنے والی خاتون تھیں جو عمارہ کی ہر بات کا بتنگڑ بنا کر لڑنے
کھڑی ہوجاتی تھیں اور بھابھی کا ساتھ دینے میں احمر بھائی بھی پیچھے نہیں
رہتے تھے۔ البتہ شعیب سب کچھ جانتے بوجھتے بھی گھریلو معاملات سے خود کو
علیحدہ رکھتا تھا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ مردوں کو گھریلو معاملات میں دخل
اندازی نہیں کرنی چاہیے لیکن اسماء بھابھی کی عمارہ سے بڑھتی ہوئی زیادتیاں
دیکھ کر اب شعیب سے خاموش رہنا مشکل ہوگیا تھا اور جب احمر بھائی بھی اپنی
بیوی کا ساتھ دے سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟ |
|
یہ مسائل ہر اس گھر کا حصہ ہیں جہاں ایک سے زائد جوڑے یا
جوائنٹ فیملی سسٹم موجود ہو۔ گھروں میں مشترکہ باورچی خانہ، بچے اور ذمہ
داریوں کے بٹوارے میں خواتین کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہتی ہے جو اکثر بڑی
لڑائیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ مرد ایسے موقعوں پر خود کو معاملے سے
الگ تھلگ ہی رکھتے ہیں لیکن کیا گھریلو لڑائی جھگڑوں میں مردوں کا لاتعلقی
اختیار کرنا ایک صحیح رویہ ہے؟ اور اگر نہیں تو گھریلو لڑائی جھگڑوں میں
مرد کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اس آرٹیکل میں ہم کچھ ایسی تجاویز پیش کریں
گے جس سے مردوں کو گھر میں اپنے کردار کے حوالے سے رہنمائی مل سکے۔ |
|
1- چھوٹے موٹے جھگڑوں
میں نہ بولیں |
معمولی نوعیت کے اور چھوٹے موٹے جھگڑوں سے لاتعلق رہنا
ہی بہتر ہے۔ کیونکہ لڑائی جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ
خود ہی رویے بہتر ہونے لگتے ہیں۔ چونکہ مردوں کو گھر کی ہر بات کا آنکھوں
دیکھا حال معلوم نہیں ہوتا اس لئے ہر چھوٹی بڑی بات میں مردوں کا دخل دینا
مناسب نہیں۔ |
|
|
|
2- معاملہ سنگین ہو تو... |
اگر محسوس ہو کہ معاملہ سنجیدہ نوعیت اختیار کررہا ہے تو
مرد کو گھر کے سربراہ کی حیثیت سے غیرجانبداری سے بات کرنی چاہیے۔ اگر آپ
چھوٹے ہیں اور کوئی بڑا آپ کی بیوی یا بچوں کو سخت سست سناتا ہے تو بدلہ
لینے کے بجائے نرمی سے اپنی بات سامنے رکھیں بصورتِ دیگر آپ کو اپنے بیوی
بچوں کے لئے علیحدہ گھر کا انتظام کرنا چاہیے۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے۔ |
|
3- بچے سب کے سانجھے |
اگر کوئی آپ کے بچوں کی حق تلفی کرتا بھی ہے تو بھی
جواباً آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ آپ کا اپنا خون ہیں۔ یہ وقت
تو گزر جائے گا اور بعد میں بچوں کو یہ باتیں یاد نہیں رہیں گی البتہ یہ
ضرور یاد رہے گا کہ ان کے تایا یا چچا نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اس
لئے بڑوں کے درمیان کتنی ہی ناچاقی کیوں نہ ہوجائے بچوں کو سارے معاملے سے
علیحدہ رکھیں اور ہمیشہ کی طرح پیار محبت سے پیش آئیں۔ اپنے بچوں کو بھی
سمجھائیں کہ وہ بڑوں کے معاملات میں نہ بولیں اور سب سے پہلے کی طرح محبت
اور ادب سے بات کریں۔ کوشش کریں کہ بچوں کے سامنے کسی قسم کا لڑائی جھگڑا
نہ ہو- |
|
4- دل میں میل نہ رکھیں |
جب ساری بات ایک بار کلئیر ہوجائے تو دل میں پچھلی باتوں
کا میل نہ رکھیں۔ ہر بات کو ماضی کے آئینے میں رکھ کر دیکھنے سے آپ کا دل
کبھی صاف نہیں ہوگا اور گھر کا ماحول بھی بہتر نہیں ہوسکے گا۔ |
|
|
|
5- سب کی سنیں |
بے شک مرد پر کمانے اور گھر چلانے کی معاشی ذمہ داری ہوتی ہے مگر مرد کا
رتبہ سربراہ کے روپ میں اسی لئے رکھا گیا ہے کیونکہ وہ اس رتبے کو سنبھالنے
کی اہلیت رکھتا ہے۔ اگر آپ کی بیوی سارے دن کی روداد آپ کو سنانے کی عادی
ہے تو آپ کو اس کی بات ضرور سننی چاہیے۔ اسی طرح اگر آپ کہ بھابھی کو آپ کہ
بیوی سے کوئی شکایت ہے تو ان کی بات بھی آپ کو تحمل اور غیر جانبداری سے
سننی چاہیے۔ بہت ممکن ہےکہ صرف کہہ دینے سے ہی ان کے دل کا بوجھ کم ہوجائے
اور لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آئے۔ |