نام نہاد سپورٹس رائٹرز ور اپنا گریبان

گوگل کے ذریعے اردوسے انگریزی ترجمہ کرکے ساری دنیا میں اشاعت کیلئے خبریں بھیجنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ سارا سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور اہلکار ان کی ملکیت ہے اور انہوں نے اسے سر پر اٹھایا رکھا ہے. منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی کے دو الفاظ بولنے سے کوئی انگریز نہیں بنتا . جب تک باپ کوئی انگریز نہ ہو
صحافی واحد انسان نما شے ہے جو دنیا جہاں کا غم اپنے دل میں لئے پھرتے ہیں لیکن اپنے مسائل پر بات کرنا ' لکھنا نہ تو اس کی ہمت ہے اور نہ ہی کسی میں اس کو چھاپنے کی جرات ہے- اپنے گریبان چاک کرکے بیان کرنا بھی کسی کسی کو آتا ہے صحافی کو شے اس لئے لکھ دیا کہ اس طبقے میں بڑ ے بڑے نادر شے پائی جاتی ہیں. جنہیں صرف اپنے مفاد عزیز ہوتا ہے.لکھنے کا آغاز صحافی سے اس لئے بھی کیا کہ صحافی دوست اور سپورٹس رپورٹر رحمت اللہ خا ن انتقال کر گئے ہیں .تین بچوں کا والد اپنے بچوں کیلئے گھر کا خواب تو لیکرتو لحد میں اتر گیا لیکن یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ اسے اپنا کفن اور اپنی قبر تو نصیب ہوئی .
کھیلوں کی مختلف ایسوسی ایشنز میں پائی جانیوالی خامیوں پر لکھتے لکھتے بہت سارے ایسوسی ایشن کے لوگ ناراض ہیں کہ ان کی ایسوسی ایشنز کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے اور وہ کھیلوں کے فرو غ کیلئے کوشاں ہیں اسی وجہ سے بہت ساری ایسوسی ایشنز کے کرتا دھرتائوں نے یہ طعنہ بھی دیا کہ کبھی اپنے گریبان یعنی صحافی بن کر اپنے گریبان میں جھانک لو تو تمھیں پتہ چل جائیگا کہ تم خود کتنے پانی میں ہو . اس لئے آج اپنے گریبان میںبطورصحافی جھانکنے کی کوشش کررہا ہوں.
سپورٹس کے شعبے سے وابستہ رحمت اللہ خان تقریبا چار ماہ سے بیمار تھا اس سے قبل جب بھی اس نے قیوم سپورٹس کمپلیکس پشاور کے میڈیا سنٹر میں اس نے جانے کی کوشش کی تو وہاں پر موجود مخصوص لوگوں نے یہ کہہ کر اسے آنے سے منع کردیا کہ تمھیں یہاں آنے کی اجازت نہیں اور وہ غریب مروتا بھی سوال کرنے سے نہ پوچھ سکا کہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے نام نہاد ایسوسی ایشن کا عہدیدار کس حیثیت میں ایک صحافی کو قیوم سٹیڈیم کے میڈیا سنٹر میں آنے سے روک رہا ہے. گوگل کے ذریعے اردوسے انگریزی ترجمہ کرکے ساری دنیا میں اشاعت کیلئے خبریں بھیجنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ سارا سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور اہلکار ان کی ملکیت ہے اور انہوں نے اسے سر پر اٹھایا رکھا ہے. منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی کے دو الفاظ بولنے سے کوئی انگریز نہیں بنتا . جب تک باپ کوئی انگریز نہ ہو.
چار ماہ قبل رحمت اللہ خان جنہیں ہم پرنس آف بمبوریت کہا کرتے تھے ' واقعی وہ دل کا شہزادہ تھا ' کبھی اس نے اپنے حال کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا کہ اس پر کیا گزر رہی ہیں نہ ہی ہم صحافی برادری نے اس کی حالت جاننے کی کوشش کی ' سفید پوش طبقے کی مصیبت بھی یہی ہوتی ہے کہ حال دل اور حال گریبان کسی کو بتایا نہیں جاتا او ررحمت اللہ بھی اسی سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا ہی تھا . جو اللہ کے توکل پر جیا .یہ اعزاز بھی اسے ہی حاصل رہے گا کہ پشاور پریس کلب میں بننے والی مسجد میں 80 فیصد کاوشیں رحمت اللہ خان کی ہی تھی.
سپورٹس کے شعبے کے کل وقتی صحافی رحمت اللہ کے گردوں کی بیماری نے اسے چار ماہ سے بے حال کردیا تھا ' نہ صرف بیروزگاری بلکہ اس کی بیماری کی حالت میں اس کے بھائیوں نے اس کی مدد کی لیکن صحافی برادری اور خصوصا کھیلوں سے وابستہ نام نہاد صحافیوں نے اس کی کوئی مدد نہیں کی . حالانکہ اسی ایسوسی ایشن جس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ' نہ ہی وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے چیریٹی ایکٹ کے زیر انتظام رجسٹرڈایسوسی ایشن ہے کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ سالانہ لاکھوں روپے گرانٹ کی مد میں جاری کرتی ہے ' اس نام نہاد ایسوسی ایشن کو مختلف ایسوسی ایشنز سے کھیلوں کی کوریج کے نام پر ملنے والا فنڈز الگ ہے لیکن اس کا آڈٹ کون کرے گا . یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بڑے بڑے بھی ڈرتے ہیں . کہ کل کلاں ہمارا کوئی سکینڈل سامنے آگیا تو پھر کیا ہوگا اور ہمارے اپنی صحافی برادری بھی اس معاملے میں خاموش ہیں کیونکہ یہاں بھی مفادات کا کھیل ہے اور پھر ہر سال انتخابات بھی ہونے ہوتے ہیں اور ووٹ کی خاطر" بے غیرت " ہونا پڑتا ہے.
اس سے بڑی بے غیرتی اور کیا ہوگی کہ ایک صحافی دوست جس کے ایک ڈائیلاسز پر پینتالیس ہزار روپے آتے تھے کو اس کے اپنے ہی نام نہاد ایسوسی ایشن نے صرف پندر ہ ہزار روپے دیکر احسان عظیم کیا کہ یہ اپنے جیب سے دے رہے ہیں حالانکہ اس احسان عظیم کے بجائے اگر نام نہاد سپورٹس ایسوسی ایشن رحمت اللہ جیسے صحافیوں کے نام پر لی جانیوالی سالانہ فنڈز جو کہ پانچ سے دس لاکھ روپے ہے میں چند لاکھ دے ہی دیتی تو کونسی قیامت آجانی تھی کیونکہ یہ فنڈز بھی کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنے والے صحافیوں کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہی دیتی ہیں.لیکن جب یہ رقم مخصوص صحافی نام لوگوں کے جیبوں میں جاتی ہو تو پھر تو انہیں یہ رقم دیتے ہوئے موت پڑتی ہے جیسے کہ ان کے باپ کا مال ہو.اور یہی باپ کا مال سمجھ کر بہت ساری چیزیں پشاور کے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں واقع میڈیاسنٹر سے لوگوں نے غائب بھی کردی ہے جسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے صحافیوں کی سہولت کیلئے دی رکھی ہے جس میں جنریٹر سمیت دیگر اشیاء شامل ہیں جو بنیادی طور پر چوری ہوئی ہیں لیکن اس پر شرم کے مارے کوئی بات نہیں کررہاکہ پھر صحافی کو لوگ چور کہیں گے حالانکہ بنیادی طور پر کچھ لوگ چور ہیں جنہوں نے صحافیوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے.
ان صحافی نما چوروں سے جو کھیلوں کی شعبے کی کوریج کرتے ہیں ہزار گنا بہتر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ ہے جنہوں نے رحمت اللہ خان کی خدمات کے پیش نظر اس کی بیماری کے دوران اس کی مالی مدد کی تھی حالانکہ ان کا یہ کام نہیں لیکن کھیلوں کے شعبے سے وابستہ سپورٹس رپورٹر کی خدمات کے پیش نظر یہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس نے یہ اقدام اٹھایا تھا جو کہ قابل تحسین اقدام ہے.
تاہم سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا اس ے بڑا قابل تحسین اقدام یہ ہوگا کہ جس طرح وہ کھیلوں کی مختلف ایسوسی ایشنز سے سالانہ آڈٹ لیتے ہیں اسی طرح کا آڈٹ گذشتہ پانچ سالوں کاا س نام نہاد ایسوسی ایشن سے لی جائے کہ سپورٹس کی کوریج کرنے والے نام نہاد ایسوسی ایشن کو سرکار کی جانب سے کتنی گرانٹ ملی اور اسے کہاں پر خرچ کیا گیا ' کاغذی کارروائیاں اور رسیدیں تو بہت ساری بنتی ہیں اور جھنگی محلے کی رسیدوں پر اعتبار کے بجائے اب صحیح معنوں میں آڈٹ کرنا ہوگااور جعلی دستخطوں کا سلسلہ بھی بند کرنا ہوگا تاکہ پتہ چل سکے کہ کھیلوں کی کوریج کیلئے ایسوسی ایشن کو جو فنڈز دیا جارہا ہے وہ کہاں پر جارہا ہے .

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 583 Articles with 411713 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More