ثوبیہ احمد،کراچی
عدم برداشت کے رجحانات میں اضافے کی وجہ سے دنیا میں ہمارا تأثر انتہائی
منفی بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ مزید اس سمت کی جانب گامزن نظر
آتا ہے۔اسے بعض افراد مذہبی انتہا پسندی سے جوڑتے ہیں جبکہ مسئلہ محض مذہبی
انتہا پسندی کا نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی انتہاپسندی بھی ہے۔ اگر
ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح ہمارے لوگوں
میں عدم برداشت کا کلچر سرائیت کر گیا۔
اس کے اسباب میں اولین سطح پر تعلیم اور تربیت کے مسائل نظر آتے ہیں۔ تعلیم
اور تربیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ تربیت کے بغیر تعلیم اور تعلیم کے
بغیر تربیت کا عمل مکمل نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے ہمارے سرکاری و غیر
سرکاری تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان غالب آرہا ہے جبکہ سوک ایجوکیشن
بھی اب تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں ہے۔
تربیت کا فقدان ہونے کی وجہ سے لوگوں میں رہن سہن کے آداب نہیں ہیں اور ہر
شخص میں غصہ ہے۔ سماجی انصاف نہ ملنے کی وجہ سے بھی لوگوں میں غصہ اور نفرت
پیدا ہوتا ہے بلکہ اب لوگ قانون کی حکمرانی تسلیم کرنے کے بجائے اپنے
معاملات خود لیڈ کرنا چاہتے ہیںجس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ ایک
مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتیں پرُامن مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی اور
جب تک لوگ سڑکوں پر نہیں آتے تب تک ان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ حکومت خود
لوگوں کو تشدد کی طرف راغب کرتی ہے لہٰذا اس طرف توجہ دینا ہوگی۔غصے کا
اظہار، بلند آواز میں بات کرنا، لعن طعن کا کلچر، ایک دوسرے کی کردار کشی
کرنا ہمارے ہاں کامیاب ماڈل بن گیا ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی پر غالب
آنا ہے یا اپنی بات منوانی ہے تو یہ سب کرنا ہوگا۔
جمہوریت ایک مثالی نظام ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کس طرز کی
جمہوریت چل رہی ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما کس زبان میں بات کررہے ہیں ، اپنے
ورکرز کی تربیت کس طرح کر رہے ہیں اور لوگوںکو کیا راستہ دکھا رہے ہیں؟ جون
ایلیاء کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’آؤ اختلافات پر اتفاق کر لیں‘‘۔ یعنی
آپ کا اور میرا اختلاف رہے گا لیکن یہ بھی اتفاق ہونا چاہیے کہ ہم مل جل
کر رہ سکتے ہیں۔
متنوع معاشرے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں مختلف مذاہب، رنگ، نسل، برادری
و خیالات رکھنے والے لوگ اکٹھے رہتے ہیں مگر ہمارے ہاں جس طرح کا رویہ برتا
جارہا ہے اس سے معاشرہ تنزلی کا شکار ہے۔ افسوس ہے کہ ہم سیاسی، سماجی اور
معاشی طور پر تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں اورلوگوں میں ڈائیلاگ کے ذریعے بات
منوانے کا رجحان اب ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ حکومت خود ہے۔ ہمارے ہاں
تو نابینا افراد کو بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔
بدقسمتی سے معاملات ٹھیک کرنے کیلئے جو اقدامات ہونے چاہئیں وہ ہماری ریاست
نے نہیں کیے جس کے باعث ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ والدین، اساتذہ،
علماء،دانشور اور سیاستدان معاشرے کی تربیت کرتے ہیں مگر اب ان میں بھی
برداشت کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے جو تشویشناک ہے۔ ہم نوجوانوں میں عدم
برداشت کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے بڑوں میں بھی برداشت کم ہے جو بچوں میں
منتقل ہورہی ہے اور وہ اسی طرح سے اظہار کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ عدم برداشت
کا کلچر ہماری سرشت میں شامل ہوچکا ہے۔
|