یو پی میں عصمت دری کے واقعات

ٹائمز آف انڈیا ( 21جون) کی ایک رپورٹ کے مطابق اترپردیش میں 72گھنٹے کے اندر خواتین کی آبرویزی کے کم از کم 12 واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔جن میں بعض کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً قنوج میں ایک کمسن لڑکی کو دو نوعمر لڑکوں نے اپنی ہوس کانشانہ بنانا چاہا۔ لیکن لڑکی نے اپنی آبرو بچانے کے لئے سخت مزاحمت کی۔ چنانچہ ان لڑکوں نے اس کی دونوں آنکھوں کو چاقو سے گود دیا، جس سے اس کی ایک آنکھ پوری طرح ضائع ہوگئی اور دوسری اسّی فیصد مجروح ہوگئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس آنکھ کی بینائی ایک حد تک بحال ہوسکتی ہے۔

دوسرا سنگین واقعہ ایٹہ میں پیش آیا جہاں ایک دوشیزہ کی اس کے گھر میں گھس کر بندوق کی نوک پر عصمت لوٹی گئی اور پھر اس کے کپڑوں میں آگ لگا دی گئی تاکہ وہ حملہ آوروں کی نشاندہی نہ کرسکے۔ گونڈا میں ایک 13 سالہ لڑکی کی لاش آبادی سے باہر کھیتوں میں پڑی ملی۔ اس سے قبل ضلع لکھیم پور میں ایک بچی کی لاش تھانے میں درخت سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔ گمان ہے یہ دونوں واقعات بھی جنسی درندگی کے ہیں۔ یہ واقعات اپنی دلخرا ش تفصیلات کے ساتھ خبروں میں آچکے ہیں۔یہاں مقصود ان سب کا بیان نہیں بلکہ جرم کی شدت، واقعات کی کثرت کے اسباب اور ان کے تدارک کی تدابیر پر غورکرنا ہے۔

جنسی جرائم کے معاملات سیلاب کی طرح پھیل رہے ہیں۔ کبھی کوئی وزیر پکڑاجاتا ہے، تو کہیں کوئی افسر دھرا جاتا ہے اور کہیں کوئی فلم ایکٹر جیل کی ہوا کھاتا ہے۔ سادھو سنت اور سفارتکار بھی اس درندگی سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔دور دراز گاﺅں میں پیش آنے بیشمار واقعات کا تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ ہزاروں جنسی جرائم شہروں میں بھی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی بھنک کسی کو نہیں لگتی۔ جو بدنصیب اس جرم کا نشانہ بنتی ہے، اکثر اوقات وہ شرم اور سماجی کلنک کے خوف سے اس کو چھپاتی ہے ۔ ایسے متعدد واقعات روشنی میں آئے ہیں جن میں لڑکیاں مدّتوں اپنے ہی گھر وں میں، اپنے ہی کسی قریبی رشتہ دارکی ہوس کا نشانہ بنتی رہیں اور کسی کو بتا نہیں سکیں۔ پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی بات تو بہت دور کی ہے۔ اس کی ہمت تو شاید سو میں دو چار ہی مظلوم عورتیں کرپاتی ہوں۔گھروں میں کام کرنے والیوں کا معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ اکثر اوقات ان کو ڈرا دھمکا کر یا کچھ لے دے کر بھی چپ رہنے پرمجبور کردیا جاتا ہے۔ برہنہ تصویرکشی کے ذریعہ بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔اس کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں اس جرم کے ارتکاب میں دوسری کوئی عورت معاون بن جاتی ہے۔

اترپردیش میں رونما ہونے والے حالیہ معاملات نمایاں ہوکر اس لئے سامنے آگئے کہ آئندہ سال ریاست میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔میڈیا کو بھی مسالا چاہئے اور سیاستدانوں کو بھی مشغلہ درکار ہے۔ چنانچہ اپوزیشن نے ان واقعات کو مایاوتی حکومت کی ناکامی کی نشانی قرار دے دیا ہے اور کہا ہے ایک خاتون اپنی ریاست میں خواتین کو تحفظ فراہم کرانے میںناکام ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات سرکار کے لئے بھی بڑا درد سر ہیں۔ اگرچہ پولیس اپنی سابقہ روش کے مطابق ان جرائم کے اندراج اور ان کی چھان بین میں پوری طرح مستعد نہیں ہے، لیکن جب کسی معاملہ میں شور مچتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ ” خاطی “ پولیس عملے کے خلاف فوری کاروائی کرکے یہ جتانے میں دیر نہیں کرتا کہ اس کا رویہ سخت ہے اور ریاستی سرکار اس طرح کے واقعات میں کسی رو رعایت سے کام لینے والی نہیں ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس طرح جرائم کے معاملے میں یوپی تک ہی محدود ہوں۔ ابھی کیرالہ سے خبر آئی ہے ایک چودہ سال کی لڑکی کے جنسی استحصال میں ایک سو سے زیادہ افراد ملوّث ہوئے اس جرم میں خود لڑکی کا باپ پکڑا گیا ہے۔گزشتہ نومبر میں وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر گھنٹہ عصمت دری کے دو سے زیادہ وارداتیں ہوتی ہیں۔ راجدھانی دہلی میں بھی ہرروز دو کیس درج ہوتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اعداد و شمار حقیقت کی پوری عکاسی نہیں کرتے۔جیسا کہ عرض کیا گیا آبروریزی کی شکار ہونے والی کم ہی خواتین یہ حوصلہ کرپاتی ہیں پولیس میں جاکر شکایت درج کرائیں۔جو چند مظلوم عورتیں تھانے تک جانے کی ہمت کرلیتی ہیں تو ضروری نہیں کہ وہاں ان سب کی دادرسی ہوجائے اور سب کا معاملہ درج کرلیا جائے۔ عام حالات میں پولیس عملہ جرائم کی شرح کم دکھانے کےلئے ان کا اندراج کم کرتا ہے اور رپورٹ درج کرنے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔اس لئے سرکاری ریکارڈ میں جو اعداد و شمارسامنے آتے ہیں وہ حقیقت سے بہت کم ہوتے ہیں۔

چنانچہ اترپردیش کے ڈی جی پی کرم ویر سنگھ نے حالیہ وارداتوں کے پس منظر میںیہ اعتراف کیا ہے کہ ریاست میں روزمرہ عصمت دری کے پانچ چھ کیس ہوتے ہیں۔ یوپی کے ہی ایک اعلا پولیس افسر سے جب پوچھا گیاکہ کیا وجہ ہے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مایا وتی کے دور حکومت میں عورتوں اور دلتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت جرائم میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ جرائم کے اندراج کی شرح بڑھی ہے ۔ان کا یہ کہنا بھی بجا لگتا ہے ریاست میں پولیس عملہ کم ہے، سیاسی مداخلت اور کشید زر کی فکر زیادہ ہے۔ پہلے جہاں کیس کو دبانے کےلئے صرف پولیس کی ہی مٹھی گرم کرنی ہوتی تھی ،اب سیاسی گرگے بھی جیب بھرنا چاہتے ہیں۔بہر حال اصلیت جو کچھ بھی ہو،خبروں سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ سنگین معاملات میں لاپرواہی اگر منظر عام پرآجاتی ہے تو خاطی پولیس افسران کے خلاف عارضی ہی سہی ، کچھ نہ کچھ کاروائی ہو تی ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ اترپردیش میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں جنسی جرائم کی رفتار میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ اس کو صرف نفاذ قانون کا مسئلہ قرار دینا اور پولیس کویا انتظامیہ کو مطعون کرنا کافی نہیں ہے۔ کچھ قصور ان کا بھی ہے مگر در حقیقت اس کینسر کےلئے صرف پولیس و انتظامیہ اور ریاستی سرکاریں ہی ذمہ دار نہیں بلکہ ہر وہ فرد، وہ عملہ اور وہ نظام ذمہ دار ہے جو ملک میں عریانیت کو عام کررہا ہے ،اور اس طرح نوجوانوں کو جنسی ہوس رانی کی طرف دھکیل رہا ہے۔جب تک جنسی اشتعال دلانے والے اسباب کا تدارک نہیں کیا جائے گا محض پولیس کاروائی سے جنسی جرائم کو نہیں روکا جاسکتا۔

سب سے پہلے تو عدالتی نظام کو چست اور درست کرنا ہوگا۔ ہمارا عدالتی نظام بہت ہی سست رفتار ہے۔مدتوں مقدمے زیر التوا پڑے رہتے ہیں اور بہت کم معاملات میں خطاکاروں کو سزا مل پاتی ہے۔ اس نظام کو بدلنا ہوگا۔اگر جنسی جرائم کو روکنا ہے تو خصوصی عدالتیں قائم کرنی ہونگیں اورجس طرح بعض سیاح خواتین کے معاملے میں چند ماہ کے اندرسزائیںسنائی گئیں اسی طرح اس ملک کی خواتین کے معاملے بھی فیصل ہونے چاہئیں۔ کیا وجہ ہے اگر ایک غیر ملکی خاتون کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے خطاکار کوسزا دلانے میں جیسی مستعدی دکھائی جاتی ہے ،ویسی ہی جرم کا شکارہونے والی ہندستانی خواتین کے بارے میںنہیں دکھائی جاتی؟ سزا کا فیصلہ جلد ہونا چاہئے اور ثبوت کے طور پر عورت کے بیان اور ڈاکٹر ی رپورٹ کوکافی سمجھا جانا چاہئے۔ ضرورت پڑنے پر ڈی این اے کی جدیدٹکنیک کااستعمال کیا جاسکتا ہے۔ جنسی جرائم کی سزا میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ اسلام میں اس کی سزا بہت سخت ہے۔یہی وجہ ہے اسلامی معاشروں میں زنا بالجبر کے گناہ بہت کم ہوتے ہیں۔ حال ہی میں عصمت دری کے ایک کیس میں ایک جج نے کہا تھاکہ بعض نادر حالات میں مجرم کا آپریشن کردینا چاہئے تاکہ وہ ایسے ارتکاب جرم کے لائق ہی نہ رہے۔ قانون سازوں کو اس پر غور کرنا چاہئے۔

مایاوتی سرکار نے ضابطہ فوجداری میں بعض اصلاحات کی تجویز رکھی ہے۔ جس میں ریپ کو غیر ضمانتی جرم قرار دینے اور مقدمہ کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس تجویز کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی ان کا جائزہ ممکن ہوگا۔ لیکن قانون سازی اور عدالتی کاروائی میں سختی کے ساتھ ان عوامل پربھی روک لگانی ہوگی جو عموماً جنسی اشتعال کا باعث ہوتے ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں اس طرح کے عوامل کی باڑھ سی آگئی ہے۔ مغربی تہذیب کے اثرات اور صارفیت پسندی میںحد درجہ اضافہ کی بدولت جنسی اشتعال انگیزی اب عام ہوگئی ہے اور بغیر روک ٹوک جاری ہے۔ چنانچہ ٹی وی پروگراموں میں ہی نہیں بلکہ خبروں کے درمیان اشتہارات تک میں عریانیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔عریانیت اشتہارات تک ہی محدود نہیں بلکہ ٹی وی اینکرس کو بھی ایسا لباس پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے جس سے ’سیکس اپیل‘میں اضافہ ہو اور اس کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ پرنٹ میڈیا کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔ دیواروں پر بھی جنس فروشی کے اشتہارات نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔ ابھی چند ہفتہ قبل پٹنہ سے ایک رپورٹ یہ آئی کی عوامی سایبر کیفوں کے ہسٹری ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسّی فیصد سرفنگ صرف جنسی موادکی ہوتی ہے۔ سرکاری سطح پر ایڈس اور خاندانی حد بندی کے نام پر خصوصاً ٹی وی کے ذریعہ جو فحاشی پھیلائی جارہی ہے وہ بھی کم مہلک نہیں ہے۔ اب اگر فحاشی کا یہ عالم ہے ،قدم قدم پر جنسی اشتعال انگیزی کا سامان بکھرا پڑا ہے، تو نوجوانوں تو پھر نوجوان ہیں۔ان سے یہ امید کرنا قطعاً بے سود ہے کہ سزا کا ڈر ان کو بہک جانے سے روک لیگا اور کسی معصیت یا جرم کے مرتکب نہیں ہونگے۔بہت سے کیسوں میں لڑکیاں بھی بہک جاتی ہیں ۔چنانچہ یوروپ کی طرح ’باہم رضامندی‘ سے جنسی فعل کے معاملات بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اکثر معاملوں میں جب نیک خو لڑکیاں چنگل میں نہیں پھنستیں تو لڑکے جرم عصمت دری کی جرات کر بیٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے فحاشی کے اس سیلاب کو ، جو خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا اصل سبب ہے روکنے پر پولیس قادر نہیں ہے۔ اگرصارفیت اور سرکاری پالیسی کے تحت پھونس کے گرد چنگاریاں بکھیری جاتی رہیں گیں، تو پھر دھواں اٹھنے اور شعلے بھڑکنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟

(مضمون نگا ر ’فورم فار سِوِل رائٹس ‘ کے جنرل سیکریٹری اور آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر ہیں۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.