عھدِ رسالت اور اَصحابِ کہف کی بیداری !!

#العلمAlilmnn علمُ الکتاب سُورةُ الکہف ، اٰیت 1 تا 8 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الحمد
للہ الذی انزل
علٰی عبدہ الکتٰب
ولم یجعل لہ عوجا 1
قیما لینذرباساشدیدا من لدنہ
وبشرالمؤمنین الذین یعملون الصٰلحٰت
ان لھم اجراحسنا 2 ماکثین فیہ ابدا 3 وینذر
الذین قالوااتخذاللہ ولدا 4 مالھم بہ من علم ولالاٰباھم
کبرت کلمة تخرج من افواھھم ان یقولون الاکذیبا 5 فلعلک
باخع نفسک علٰی اٰثارھم ان لم یؤمنوا بھٰذاالحدیث اسفا 6 انا جعلنا
ماعلی الارض زینة لھا لنبلوھم ایھم احسن عملا 7 وانالجٰعلون ماعلیھا
صعیدا جرزا 8
ہر ایک جان و جہان کا تعارف اور ہر ایک تعارف صرف خالقِ جہان کی اُس عظیم ہستی کے لیۓ ھے جس نے اپنے اِس عظیم جہان میں اپنے ایک عظیم بندے پر اپنی وہ عظیم کتاب نازل کی ھے جس میں کسی اُلجھاؤ کا ، جس میں کسی تضاد کا ، جس میں کسی کمی و کجی کا اور جس میں کسی سہو و خطا کا کوئی امکان نہیں ھے ، اِس عظیم کتاب میں زندگی کے وہ سارے مُتوازن اَحکام درج کر دیۓ گۓ ہیں جن میں عملی صلاحیت سے اعراض کرنے والوں کے لیۓ ایک بَدترین سزا کی وعید اور عملی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیۓ ایک بہترین جزا کی نوید ھے ، اہلِ زمین کے بے کار اَفراد کے لیۓ سزا کی یہ وعید اور اہلِ زمین کے کار گزار اَفراد کے لیۓ جزا کی یہ نوید اِس لیۓ مقرر کی گئی ھے کہ جو لوگ اِس موجُود و مُختصر زندگی میں رہ کر اپنی عملی صلاحیت سے اِس زندگی کو خوش گوار یا ناگوار بناتے ہیں تو وہ اسی طرح پر اسی خوش گوار اور ناگوار زندگی کے ساتھ آنے والی اُس طویل زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں جو حسین اعمال والوں کے لیۓ ایک حسین تر اور سنگین اعمال والوں کے لیۓ ایک سنگین تر زندگی ھے اور ھماری وعید کا مقصدِ خاص اُن لوگوں کو اللہ تعالٰی کے عتاب سے ڈرانا ھے جنہوں نے توحید ترک کرنے اور تثلیث اختیار کر نے کے بعد اللہ تعالٰی کے ایک بندے ہی کو اللہ تعالٰی کا بیٹا بنالیا ھے ، تثلیث جدید کا یہ جُھوٹ اِن کا ایک ایسا خود ساختہ اور بے ساختہ جُھوٹ ھے جو اِس سے پہلے اِن کے علم میں نہیں تھا اور اِن سے پہلے اِن کے آبا و اَجداد کے علم میں بھی نہیں تھا ، اَب اگر آپ کے دل و جان سے اَنجام دیۓ گۓ کارِ نبوت کے بعد بھی یہ لوگ اللہ تعالٰی کی توحید پر اطمینان کا ظہار کرنے سے گریز پا ہو رھے ہیں تو ہوتے رہیں ، آپ اِن کی بے رُخی کے رَنج کو اپنی جان کا روگ ہر گز نہ بنائیں ، اِن لوگوں کا یہی ایک قصور نہیں ھے کہ اِنہوں نے تثلیث کا ایک خود ساختہ عقیدہ اپنایا ہوا ھے اور اسی باطل عقیدے کی بنا پر آپ کو بھی ستایا ہوا ھے بلکہ اِن لوگوں نے تو اپنے اسی باطل عقیدے کی بنا پر ھمارے بناۓ ہوۓ اُس حُسنِ دُنیا کو بھی اپنی جہالت کے تاریک غاروں میں چُھپا دیا ھے جو حُسنِ دُنیا ھم پیدا ہی اِس لیۓ کیا ھے کہ ھمارے جو بندے اِس سے شادکام یا بَد اَنجام ہوں تو ھم اُن کی شادکامی و بَد اَنجامی کا مُشاھدہ کریں ، اِس لیۓ تاریخِ رواں کے اِس رواں مرحلے میں انسان کو اپنی تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ضرور کر لینی چاہیۓ کہ جس روز ہمیں مخلوق کی آسائشِ جہان مطلوب نہیں ہوگی تو اُس روز ھم زمین پر موجُود حُسنِ آسائش اور حُسنِ آرائش و زیبائش کی ہر ایک علامت کو نیست و نابُود کر زمین کو ایک چٹیل میدان بنادیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی اٰیاتِ آغاز و اَنجام کے مطابق اِس سُورت کے دو حسین ترین آغاز اور دو حسین ترین اَنجام ہیں ، اِس سُورت کا پہلا حسین ترین آغاز و اَنجام اللہ تعالٰی کی اُلوہیت سے شروع ہونا اور اللہ تعالٰی کی ربوبیت پر ختم ہونا ھے اور اِس سُورت کا دُوسرا حسین ترین آغاز و اَنجام سیدنا محمد علیہ السلام کی عبدیت سے شروع ہونا اور سیدنا محمد علیہ السلام کی بشریت پر ختم ہونا ھے ، یعنی سیدنا محمد علیہ السلام کی عبدیت و بشریت ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اللہ تعالٰی کی اُلوہیت و ربوبیت کی حفاظت میں ھے لیکن اِس سُورت کا مرکزی مضمون اللہ تعالٰی کی توحید کا وہی مضمون ھے جو اِس سے پہلے اِس سے پہلی سُورت کی آخری سات اٰیات میں بیان ہوا تھا اور اَب اِس دُوسری سُورت کی پہلی آٹھ اٰیات میں بیان ہوا ھے ، اِن دونوں سُورتوں کے مابین اِن کا جو معنوی رَبط ھے وہ اِن کا ایک ہی موضوعِ سُخن کا حامل ہونا ھے اور اِن میں لفظی رَبط یہ ھے کہ اُس پہلی سُورت کا مُنتہاۓ کلام "الحمد للہ" کے ساتھ ہوا تھا اور اِس دُوسری سُورت کا مُبتداۓ کلام بھی"الحمد للہ" کے ساتھ ہوا ھے اور یہی مُبتداۓ کلام و مُنتہاۓ کلام اِس مضمون کا وہ لفظی رَبطِ باہَم ھے جس نے اُس پہلی سُورت کے ساتھ اِس دُوسری سُورت کو اور اِس دُوسری سُورت کے ساتھ اُس پہلی سُورت کو ایک مضبوط لفظی و معنوی رَبط میں مربُوط کیا ہوا ھے لیکن یہ لفظی و معنوی رَبطِ باہَم صرف اِن دو سُورتوں کا رَبطِ باہَم نہیں ھے بلکہ یہ قُرآن کے گزرے ہوۓ حصے کا آنے والے حصے کے ساتھ اور آنے والے حصے کا گزرے ہوۓ حصے کے ساتھ بھی ایک لفظی و معنوی رَبطِ باہَم ھے جو پہلی سُورت کے آخری "الحمد للہ" اور دُوسری سُورت کے پہلے "الحمد للہ" کے ذریعے قائم ہوا ھے کیونکہ اِس سُورت کا یہ مقام قُرآن کا نصف و نصف ھے اور اِس مقام پر قُرآن کے اِس لفظی و معنوی رَبط نے انسان کو پہلا پیغام یہ دیا ھے کہ قُرآن کا جو حصہ اِس سے پہلے گزر چکا ھے وہ بھی اتنا ہی قابلِ اتباع ھے جتنا کہ قُرآن کا آنے والے حصہ قابلِ اتباع ھے اور قُرآن کا آنے والا حصہ جتنا قابلِ اتباع ھے اتنا ہی قُرآن کا گزرا ہوا حصہ بھی قابلِ اتباع ھے اور قُرآن نے انسان کو دُوسرا پیغام یہ دیا ھے کہ قُرآن کے پہلے حصے میں بھی قُرآن کے سوا کوئی اور شئی قابلِ اتباع نہیں تھی اور قُرآن کے آنے والے حصے میں بھی قُرآن کے سوا کوئی اور شئی قابلِ اتباع نہیں ھے اور اِس نتیجہِ کلام کا مَنطقی نتیجہِ کلام یہ ہوا ھے کہ جس طرح اللہ تعالٰی اپنی عظیم ذات میں وحدہٗ لاشریک ھے اسی طرح قُرآنِ عظیم بھی اپنی عظیم اٰیات میں وحدہٗ لاشریک ھے ، جس طرح ماضی میں کوئی لات و منات اللہ کا شریک نہیں ہو سکا ھے اسی طرح مُستقبل میں بھی راوایاتِ راوی کا کوئی سلسلہ قُرآن کا شریک نہیں ہو سکے گا ، ھم "الحمد للہ" کے بارے میں "الفاتحہ" کے آغاز یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ "الحمد للہ" کا مفہوم و مقصد زبان و لَب سے اِس طرح پر اللہ تعالٰی کی تعریف کرنا نہیں ھے کہ اللہ ایک عظیم و قدیم اور ایک رحمٰن و رحیم ہستی ھے بلکہ "الحمد للہ" کا مقصد و مَنشا اللہ تعالٰی کے علمِ کتاب کے ذریعے اللہ کا یہ تعارف حاصل کرنا ھے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو کس مقصد کے لیۓ تخلیق کیا ھے اور وہ اپنے اِس مقصدِ تخلیق کے تحت انسان سے کیا چاہتا ھے اور جب ایک انسان قُرآن کو پڑھتے ہوۓ اِس اَمر پر غور کرتا ھے تو اُسے معلوم ہوتا ھے کہ قُرآنِ کریم کی پہلی سُورت "سُورةُالفاتحة" کی اٰیت 1 ، چھٹی سُورت "سُورةُاَلاَنعام کی اٰیت 1 ، اَٹھارھویں سُورت ، سُورةُالکہف کی اٰیت 1 ، چونتیسویں سُورت ، سُورہِ سبا کی اٰیت 1 اور پینتیسویں سُورت ، سُورہِ فاطر کی اٰیت 1 میں اللہ تعالٰی نے اپنا جو تعارف کرایا ھے وہ تعارف اُس کا اپنی ذات میں وحدہٗ لاشریک ہونا ھے اور اُس نے اپنی جس کتاب میں یہ تعارف کرایا ھے اُس کتاب کا بھی اپنی اٰیات میں وحدہٗ لاشریک ہونا ھے ، اسی طرح جب قُرآن کا پڑھنے والا انسان اِن پانچ سُورتوں کے بعد قُرآن کی دیگر اٰیات پر ایک تحقیقی نگاہ ڈالتا ھے تو اُس کو معلوم ہوتا ھے کہ قُرآنِ کریم کے جن 33 مقامات کی جن 33 اٰیات میں اللہ تعالٰی کے لیۓ یہی کلمہِ تعارف "الحمد للہ" لایا گیا ھے اور اِن تمام اٰیات کے درمیان بھی اللہ تعالٰی کا یہی تعارف کرایا گیا ھے کہ اللہ تعالٰی اپنی ذات میں وحدہٗ لا شریک ھے اور قُرآن کا بھی یہی تعارف کرایا گیا ھے کہ قُرآن اپنی اٰیات میں کتابِ وحدہٗ لا شریک ھے ، اِس سُورت میں اللہ تعالٰی کے اِس ذکرِ توحید کے بعد جو پانچ مضامین لاۓ گۓ ہیں اُن میں پہلا مضمون اُن معروفِ زمانہ "اَصحابِ کہف" کے بارے میں ھے جن کے اُس غارِ کہف کے نام پر اِس سُورت کا نام کہف رکھا گیا ھے ، دُوسرا مضمون باغ کے اُن دو مالکوں کے بارے میں ھے جن میں سے ایک اللہ تعالٰی کا شکر گزار تھا اور دُوسرا ناشُکرا و نابکار تھا ، تیسرا مضمون آدم علیہ السلام کے بارے میں ھے ، چوتھا مضمون مُوسٰی علیہ السلام کے بارے میں ھے اور پانچواں مضمون ذوالقرنین بادشاہ کے بارے میں ھے ، یہ پانچوں مضامین اپنی اپنی جگہ پر بہت اہم ہیں لیکن قُرآنِ کریم کی واقعاتی ترتیب میں سب سے پہلے "اَصحابِ کہف" کا ذکر آیا ھے اور سب سے پہلے اُن کے اِس ذکر وجہ یہ ھے کہ گزشتہ سُورت کی آخری اٰیات میں انجیلِ مسیح کے ماننے والے اُن نیک دل اور مُتلاشیانِ حق اَفراد کا ذکر کیا گیا تھا جو وحی کے مزاج کو اور کلامِ وحی کے اَنداز کو سمجھتے تھے اور اپنی اسی سمجھ کی بنا پر جب وہ سیدنا محمد علیہ السلام سے قُرآن سُنتے تھے تو اِس بات کا اقرار و اعلان کیا کرتے تھے کہ محمد علیہ السلام پر نازل ہونے والا کلام اللہ تعالٰی کا کلامِ وحی ھے اور محمد علیہ السلام اللہ تعالٰی کے سَچے اور برحق نبی ہیں ، اُن نیک دل مسیحی لوگوں کی اُس نیک دلی کے بعد قُرآن نے اسی نیک دلی کے پَس منظر میں اُن اَصحابِ کہف کا ذکر کیا ھے جنہوں نے اپنی فطرتِ سلیم کی بنا پر بُت پرستی سے انکار کیا تھا اور جنہوں نے 251 ء میں اپنے زمانے کے مُشرک بادشاہ دقیانُوس کے مُشرکانہ مظالم سے بچنے کے لیۓ رقیم شہر کے ایک غار میں پناہ لی تھی ، اہل تاریخ نے رقیم شہر کا جو تاریخی پَس منظر بتایا ھے وہ یہ ھے کہ دُوسری صدی عیسویں میں جب شام و فلسطین کا الحاق ہوا تھا تو یہ "الرقیم" رومیوں کا ایک نو آبادی شہر بن گیا تھا جس کو رومی اپنی زبان میں پیٹرا اور عرب اپنے تلفظ میں بطرہ کہا کرتے تھے ، مُشرکین کے ستاۓ ہوۓ نوجوان مشلینا ، مرطوس ، یملیخا ، دیر یوس ، سرابیون اور افس تطیوس وغیرہ نے اسی شہر رقیم کے ایک غار میں پناہ لی تھی لیکن اہلِ روایت کی یہ روایت ایک سفید جُھوٹ ھے کہ اِن نیک دل نوجوانوں نے بُت پرستی کا شرک چھوڑ کر اُس شخصیت پرستی کا شرک شروع کردیا تھا جو پیروانِ مسیح کیا کرتے تھے ، اگر وہ ایسا کرتے تو اُن کا ایسا کرنا بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے کھڑے ہونے کے مُترادف ہوتا ، حقیقت صرف یہ ھے کہ اُن نوجوانوں کی فطرت نے اُن کو توحید کا نَغمہ سُنا دیا تھا اور وہ توحید کی تعلیم کی تلاش میں گھروں سے نکل کھڑے ہوۓ تھے اور اللہ تعالٰی نے اُن کو 309 سال تک اُس غار میں سُلا دیا تھا اور پھر اِن کو اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کی ولادت سے دس سال پہلے اور آپ کے اعلانِ نبوت سے پچاس سال پہلے جگا دیا تھا تاکہ وہ نوجوان اور اُن کے نظریہِ توحید کی کہانی سُننے والے دُوسرے انسان عالَم کے اُس آخری رسول کی طرف رجوع کرسکیں جس کا اُم القرٰی مکہ میں ظہور ہو چکا تھا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458947 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More