یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کرہ ارض پر بسنے والوں
کی اکثریت کسی نہ کسی نبی کی پیروکار رہی ہے جن کی تعلیمات میں اخلاقیات کو
انسانیت کی معراج بتایا گیا ۔بیان قرآن و پیغام خداوندی، فرماننبیﷺاور
تعلیمات فقراء و آئماء کرام ازل سے ابد تک زمین میں بسنے والے سب انسانوں
کے لیے امن ،محبت اور سلامتی کا درس دیتی نظر آتی ہیں تو پھرسوال پیدا ہوتا
ہے کہ ’’ارزاں کیوں ہے خون انسانی‘‘ ۔اگر ہم غور کریں توآج کرہ ارض پر ہر
سُوخون خرابہ،دہشت گردی،قتل و غارت،مکروفریب، مطلب پرستی،اقتدار ،بلندپرواز
کی روش اور حقارت و نفرت کا سامان بکھرا نظر آتا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ
کیا ہم صراط مستقیم پر چل رہے ہیں؟ کیا ہمارے اسلاف کی پاکیزہ زندگیوں کے
رنگ پھیکے پڑگئے ہیں یا ہم نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں کس لی ہیں؟۔آہ !مادے کو
تسخیر کر کے انسانیت کے جنازے نکالے جا رہے ہیں اور اس پر فخر بھی کیا
جارہا ہے۔ جو جتنا بڑا جارح ہے وہ اتنا بڑا فاتح بھی ہے۔ اس خطہ کوجسے
پاکستان کہتے ہیں یہاں وسائل پر قابض قوتیں بھی کیا خوب کھیلتی ہیں پہلے
اپنے مفادات کی شطرنج بچھائی گئی اور پھر مطلوبہ اہداف کی تکمیل کے لیے
پسند کے مہرے چلائے گئے مگر اب ستم ظریفی دیکھیں کہ خود ہی اپنی پسند کی
دلدل سے نکلنے کے جتن ہو رہے ہیں یعنی پہلے خود کو اپنی مرضی کے گردوغبار
میں پھنسا کر اندھا کیا اور اب کہتے ہیں’’ ہمیں رہنمائی کرنے والے ستارے
نظر نہیں آتے‘‘۔
بد قسمتی سے پاکستان شروع سے ہی اقتدار کی شطرنج کے بادشاہوں، وزیروں،
فیلوں اور گھوڑوں کی تجربہ گاہ بنا رہا۔طاقت اور جسامت کی برتری کی بنیاد
پرجتنا قطعہ ارضی اور مال غنیمت جس کے حصے میں آیا وہ اس کا مالک
کہلایا۔اقتدار کے بادشاہوں نے اپنے مال مویشیوں کی فوج سے وہ غدر مچایا کہ
خدا کی پناہ۔ہر کھلاڑی نے اپنی باری میں اس کھیل اوراپنی چال کو آخری
سمجھتے ہوئے اخلاقیات اور ملکی قوانین کی نہ صرف دھجیاں بکھیردی بلکہ
’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ کے مثل جو بھی ملا اُسے غنیمت سمجھ
لیابلکہ یوں کہیے کہ کچھ بھی نہ چھوڑا۔اُن لٹیروں کا بس ایک ہی نعرہ
مستانہ’’اپنا اپنا آشیانہ بنانا اور وطن کو خاک میں ملانا‘‘ ۔بد قسمتی سے
ہماری قیادتوں کی جانب سے یہ کھیل مسلسل اس خوبصورتی سے کھیلا گیا کہ سادہ
دل عوام سمجھ ہی نہ پائے اور اس کے نتیجے میں آج بھی چوروں،لٹیروں اور
غداروں کو اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں۔’’ــ تمہارا کتا کتا، جبکہ میرا کتا
ٹومی‘‘ یعنی پسند اور ناپسند کے اس کھیل نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے
۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کچھ جمہوری اور کچھ غیر جمہوری قوتوں،چند
گروہی اورذاتی مفادات اور سب سے بڑھ کر غیر ملکی آقاؤں کی اطاعت نے ہمیں یہ
دن دکھلایا ہے۔ افسوس !غیروں کی لڑائی کو اپنی سمجھنے کی غلطی کرنے کی سزا
ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔مگران سب باتوں کے ساتھ ساتھ اب ہمارے ملک کی
قیادتوں کو بھی اپنی سوچوں کے معیار بدلنے ہوں گے اورانصاف کے تقاضے پورے
کرنے ہوں گے ۔ماضی میں کیے گئے چندشخصی غلط فیصلوں کی سزا پورا ملک اب تک
بھگت رہا ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے’’ نام نہاد ‘‘وسیع مفاد میں کیے
جانے والے تمام فیصلوں میں عوام کی رائے کو بھی شامل کرنا ہوگا اورعدل کے
مطابق ملک کے دشمنوں اور غداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔یاد
رکھنا!اگر غلط فیصلے ہوئے تو پھر نہ کہنا ’’عوام لحاظ نہیں کرتی‘‘ ۔یاد رہے
!جو لندن بیٹھ جائے ،ملک کے عوام کو بغاوت پر اکسائے ،ملکی سلامتی کے
اداروں پر دشنام طرازی کرے ،بھارت کی پناہ گاہ میں چلا جائے، یورپ کا
منظورنظر بن جائے، امریکہ کا دست راست بن جائے،اسرائیل کا دوست بن جائے اور
اسلام کا مذاق اُڑائے۔ وہ دہشت گرد نہیں،منی لانڈر نہیں،کرپٹ نہیں اور غدار
نہیں۔ہاں! دنیا کی نظر میں شاید ایسا ہی ہو مگر پاکستانی عوام نے فیصلہ کر
لیا ہے کہ’’ اب ایسا نہیں چلے گا‘‘۔ہر ایک کا احتساب ہوگا اور اب کوئی گروہ
ایسا نہیں ہو گا جو قانون سے بالاتر ہو۔اب انصاف کی بات ہوگی،حق کی بات ہو
گی،برابری کی بات ہوگی اور عوام کی بات ہوگی ۔مگر اس کے لیے شرط اول عزم
مصمم ہے۔جب عزم ہوگا تو ’’جہاں چاہ ،وہاں راہ ‘‘۔آج دشمن قوتیں کے ساتھ ملے
ہوئے کچھ سیاسی لوگ عوامی ٹکراؤ کا نظارہ لینا چاہتے ہیں تاکہ اُن کو اپنی
مرضی کے میدان میں کھیلنے کو چند لاشیں مل جائیں اور یوں وہ بلیک میلنگ کے
داؤ پیچ استعمال کر کے اپنے بچاؤ کا بندوبست کر سکیں۔پاکستانی عوام کو ایسے
وقت میں اپنی صفوں میں اتحاد قائم کر کے ان شرپسند عناصر کی سازش کو ناکام
بنانا ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے ملکی استحکام کا نعرہ بلند کرنا
ہوگا۔پاکستان زندہ باد،پاک فوج پائندہ باد۔
|