راقم الحروف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی لکھتے
ہیں حکومت کے خلاف لکھتے ہیں آپ کو صرف حکومت کے منفی پہلو نظر آتے
ہیں۔حکومت کے مثبت پہلو دکھائی نہیں دیتے یا آپ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
حکومت کے عظیم الشان کارناموں پر آپ کی کبھی نظر نہیں پڑی۔آپ نے تعصب کی
عینک لگا رکھی ہے جس کی وجہ سے آپ کو وہی دکھائی دیتا ہے جو آپ دیکھنا
چاہتے ہیں۔حکومت کی طرف سے ترقی و خوشحالی کا بچھا جال نہ جانے کیوں آپ کی
آنکھوں سے’’اُ وجھل‘‘ ہوجاتاہے؟؟؟۔مثالی و قابلِ ذکر امن وامان کی فضاء میں
سانس لیتی اور حکومت وقت کو خراج تحسین پیش کرتی عوام کیوں دکھائی نہیں
دیتی؟؟؟ صنعت و تجارت کے چلتے ہوئے پہیے سے آنکھیں کیوں چراتے ہو؟؟؟بے
روزگاری کے خاتمے پر ہر طرف جھولیاں بھر بھر کر دعائیں دینے والے والدین پر
آپ کی نظر کیوں نہیں پڑتی؟؟؟ہرطرف امن ہے، سکون ہے، ضروریاتِ زندگی کی
فروانی ہے،تعلیم و صحت کا معیار بلندیوں کو چھُو رہاہے، کھیل کے میدانوں
میں بہار ہے مگر آپ صرف کیڑے نکالنے میں مصروف رہتے ہو۔ آپ اور آپ جیسے
دوسرے صحافی صرف مایوسی پھیلاتے ہو مگر میں نے جب اپنے چاروں طرف نظر
دوڑائی تو مجھے عوام کے بجھے ہوئے چہرے نظر آئے۔غربت و افلاس راج کرتی
دکھائی دی۔بیروزگاری اپنے خون خار پنجوں سے نوجوان نسل کو جکڑے ہوئے نظر
آئی۔کسان اپنی بے بسی پر چیخ و پکار کرتے دکھائی دئیے۔ تعلیم و تدریس جیسے
مقدس پیشے سے وابستہ اساتذہ کو سراپاء احتجاج پایا۔تاجر حضرات اپنے معاشی
قتل عام پر مایوسی سے دوچار دکھائی دئیے۔ مہنگائی کا جن بوتل میں قابو میں
آنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سیاسی بنیادوں اور اپنے سیاسی مقاصد کے لیے
بھرتی کی جانے والی پنجاب پولیس شریف عوام کے لیے دہشت کی علامت بن چکی
ہے۔حکومت وقت کو ہر خامی کی نشاندہی پر سازش کی بُو آنے لگتی ہے اور
وزیراعظم سمیت پوری کابینہ صرف اپنادفاع کرتی نظر آتی ہے۔ حکومت نام کی شے
الہ دین کا چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی ہے اگر دکھائی
دیتی ہوتی تو آج مہنگائی میں پسی عوام نظر آتی ہے ۔ مگراقتدار کے ایوانوں
میں بیٹھی پتھر کی مورتیاں اس کیفیت کا ندازہ نہیں لگا سکتی ہیں۔بے حس اور
کرسی کے پجاری وزراء کیا جانیں کہ غربت کیا ہوتی ہے؟انہیں تو ’’سب اچھا
نظر‘‘ آتا ہے کیونکہ انہیں سب اچھا سننے کی عادت پڑگئی ہے مگر ہم سب اچھا
کیسے لیکھیں؟؟؟ ہر طرف لاقانونیت دیکھ کر آنکھوں پر ’’سب اچھا‘‘ کی پٹی کس
طرح باندہ لیں؟؟؟ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد میں ابھی
چند دن باقی ہیں کہ لاہور سمیت پنجاب کے اضلاع میں چینی کے 50 کلو تھیلے کی
قیمت میں 350 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پرچون کی سطح پر چینی کی فی کلو
قیمت 108 روپے سے 110 روپے تک ہو گئی ہے۔دکانداروں کا کہنا ہے کہ وہ منڈی
سے 105 روپے فی کلو چینی خرید کر 100 روپے فی کلو میں فروخت نہیں کر سکتے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد تھوک کی سطح پر
چینی 105 روپے فی کلو ہو چکی ہے جبکہ عام بازاروں میں چینی 85 روپے ف کلو
کے بجائے 110 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ مجموعی طور پر اس وقت
چینی کا شارٹ فال 48 لاکھ کلو گرام ہے جس کی وجہ چینی ڈیلرز کی ہڑتال بتائی
گئی ہے۔دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ چینی بحران، قیمت اور خریدوفروخت
کا مسئلہ مستقل بنیاد پر حل کرلیا ہے۔ پنجاب حکومت نے شوگرسپلائی چین
مینجمنٹ آرڈر2021 کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، محکمہ خوراک نے کابینہ کی
اصولی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن جاری کیا، نوٹیفکیشن کے تحت چینی کی قلت پر
کین کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو اقدامات کا ختیار ہوگا، کین کمشنر اور ڈپٹی
کمشنر کو چینی کی خریدوفروخت کا بھی مکمل اختیار ہوگا۔چینی کا اسٹاک کم
ہوگا تو ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کرنا لازم ہوگا۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی
ڈیلر اور ہول سیلررجسٹریشن کے بغیرچینی نہیں خرید سکے گا۔اس قانون کے تحت
چینی کی خریدوفروخت کے پورے نظام کو ریگولیٹ کیا جاسکے گا۔ شوگر ملز اور
ڈیلرز کے گوداموں کی رجسٹریشن ہوگی۔ مزید برآں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار
اور معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر نے گزشتہ روز مشترکہ پریس کانفرنس میں
کہا تھا کہ سٹے بازوں کے پورے نیٹ ورک کیخلاف بڑا آپریشن کیا گیا ہے۔سٹے
بازوں اورذخیرہ اندوزوں کے گروہوں کے ساتھ شوگز ملز بھی ملوث تھیں۔ ان ملوں
میں جہانگیرترین کی مل کا نام بھی سامنے آیا ہے۔ چینی ذخیرہ اندوزوں کیخلاف
10 ایف آئی آر درج کی گئی۔ یہ سٹے بازکہیں رجسٹرڈ ہی نہیں۔ یہ گروہ منی
لانڈرنگ اور سٹے بازی میں ملوث ہیں۔ گزشتہ روز جو لوگ سامنے آئے ہیں ان
گروہوں کیلئے مافیا کے الفاظ چھوٹے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چینی کی تیاری 3
سے 4 ماہ لگتے ہیں، 4 ماہ میں پورے سال کی چینی تیار ہوجاتی ہے۔ شوگر کی
قیمت کبھی70 روپے تو کبھی 100روپے ہوجاتی ہے۔ چینی کی قیمتوں میں ردوبدل ان
سٹے بازوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چینی مافیا منصوبہ بندی کے تحت رمضان میں
قیمتیں بڑھانے جارہا ہے مگر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال جوں کی
توں برقرار ہے جبکہ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کا بھی یہی ہے ۔ملک بھرمیں
ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں صفر اعشاریہ چھ ایک فیصد اضافہ ہوا
جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح 15.35 فیصد پر پہنچ گئی ہے. ادارہ
شماریات کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ایک ہفتے کے دوران
آٹا، چینی، دالیں، گھی، ٹماٹر، چکن سمیت بائیس اشیا مہنگی ہوئیں ہفتہ وار
رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران چکن 21 روپے فی کلو مہنگی ہوئی
اور اوسط قیمت 259 روپے86 پیسے پر پہنچ گئی جبکہ چینی کی فی کلو قیمت 100
روپے کے قریب پہنچ گئی. آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 9 روپے 72 پیسے
اضافہ ہوا، گھی 2 روپے 88 پیسے فی کلو، دال مسور ایک روپے فی کلو اور انڈے
61 پیسے فی درجن مہنگے ہوئے اعدادوشمار کے مطابق ٹماٹر 7 روپے 85 پیسے فی
کلو مہنگے ہوئے، کیلا ایک روپے 49 پیسے، دہی 28 پیسے فی کلو مہنگا ہوا.
حالیہ ہفتے دال چنا، تازہ دودھ، چاول، مٹن اور بیف کی قیمت میں بھی اضافہ
ہوا .۔ رمضان المبارک جیسے مقدس و بابرکت ماہ کی آمد آمد ہے مگر افسوس کہ
تاجروں نے اپنی چھریاں تیز کرلی ہیں جبکہ حکومت بے بس دکھائی دے رہی ہے
جوکہ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے
|