#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{{ سُورةُالکہف ، اٰیت 22 تا
26 }}}} ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کیں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
سیقولون
ثلٰثة رابعھم کلبھم
ویقولون خمسة سادسھم
کلبھم رجما بالغیب ویقولون
سبعة وثامنھم کلبھم قل ربی اعلم
بعدتھم مایعلمھم الا قلیل فلاتمار فیھم
الا مرا ء ظاھرا ولا تستفت فیھم منھم احدا
22 ولا تقولن لشائی انی فاعل ذٰلک غدا 23 الا ان
یشا ء اللہ واذکر ربک اذا نسیت و قل عسٰٓی ان یھدین
ربی لاقرب من ھٰذا رشدا 24 ولبثوا فی کھفھم ثلٰث مائة
سنین وازدادوا تسعا 25 قل اللہ اعلم بما لبثوا لہ غیب السمٰوٰت
والارض ابصر بہٖ واسمع مالھم من دونہٖ من ولی ولا یشرک فی حکمہٖ
احدا 26
اے ھمارے رسول ! انسان کا مُشاھدہ ، اُس کا فہم ، اُس کا حافظہ اور اُس کا
واقعات کو دیکھنے ، پرکھنے اور بیان کرنے کا اَنداز ہمیشہ ایک دُوسرے سے
مُختلف رہا ھے اور ہمیشہ ہی ایک دُوسرے سے مُختلف رھے گا ، اَب اگر اِن سے
اَصحابِ کہف کے اسی دیکھے بھالے واقعے کے بارے میں پُوچھ لیا جاۓ تو اِن کے
کُچھ اَفراد کہیں گے کہ اَصحابِ کہف تین ہیں چوتھا اُن کا کُتا ھے ، کُچھ
کہیں گے کہ اُن کی تعداد پانچ ھے چَھٹا اُن کا کُتا ھے لیکن دَر حقیقت یہ
سارے لوگ اندھیرے میں ہیں اور اندھیرے میں ہی تیر چلا رھے ہیں ، اسی طرح
اِن میں سے کُچھ لوگ اَصحابِ کہف کے بارے میں کہیں گے کہ اُن کی گنتی سات
ھے اور آٹھواں اُن کا کُتا ھے ، آپ اِن سب لوگوں سے کہیں کہ اِن کی اصل
تعداد صرف اللہ کے علم میں ھے ، اِس بارے میں کم لوگ جانتے ہیں اور کم کم
ہی جانتے ہیں ، اِس لیۓ اِس بارے میں آپ بھی اُسی سر سری گفتگو پر ہی اکتفا
کریں جو ہو چکی ھے اور اِس بارے میں آپ کو اِس روایت کے روایت کاروں سے
کُچھ بھی پُوچھنے کی ضرورت نہیں ھے ، گزرے کَل کے بارے میں تو انسان بہت سی
باتیں خود دیکھ کر اور بہت سی باتیں کسی دُوسرے انسان سے سُن کر ایک حد تک
جان لیتا ھے لیکن آنے والے کَل کے بارے میں کوئی انسان کُچھ بھی نہیں جانتا
اِس لیۓ اگر آپ سے آنے والے کَل کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں
کوئی سوال کیا جاۓ تو آپ ہر گز یہ نہ کہیں کہ مَیں یہ بات کَل کہوں گا یا
یہ کام کَل کروں گا بلکہ آپ یہ کہیں کہ اگر آنے والے کَل اللہ تعالٰی نے
مُجھے کُچھ کہنے یا مُچھے کُچھ کرنے کا حُکم دیا تو میں کہنے والی بات ضرور
کہدوں گا اور کرنے والا کام بھی ضرور کردوں گا اور اگر آپ یہ بات بر وقت
کہنا بُھول جائیں تو بعد میں جب یاد آجاۓ تو تَب کہدیں تاکہ آپ کی بات
سُننے والا ہر انسان یہ بات جان لے کہ گزرے ہوۓ اور آنے والے وقت کے بارے
میں آپ کا جو بھی قول و عمل ہوتا ھے وہ اللہ کے حُکمِ وحی کے مطابق ہوتا ھے
لیکن جہاں تک ایک عام انسان کا تعلق ھے تو وہ جس چیز کو دیکھ کر دُوسروں کو
جو بتاتا ھے یا دُوسرے لوگوں سے سُن کر دُوسرے لوگوں کو جو سناتا ھے بدلتے
وقت کے ساتھ اُس کی آنکھوں دیکھی اور تمام کانوں سُنی باتوں میں وہ قدرتی
تضاد پیدا ہوجاتا ھے جو اَصحابِ کہف کے بارے میں اُن کے اُن مُتضاد بیانات
میں نظر آتا ھے جن کا ھم نے ذکر کیا ھے اور اَصحابِ کہف کی اِس روایت کے
بارے میں اِس روایت کا کوئی راوی اَصحابِ کہف کی کہف میں رہنے کی مُدت
بتانا چاھے گا تو یوں کہے گا کہ اَصحابِ کہف اُس کہف میں تین سو برس رھے ،
تُم چاہو تو اِس پر نو برس اور بھی بڑھا دو لیکن جب آپ سے کوئی پُوچھ تاچھ
کرنے والا پُوچھ تاچھ کرے تو آپ اُس سے صرف یہ کہا کریں کہ اِس روایت کے
بارے میں اللہ تعالٰی ہر روایت کار سے زیادہ بہتر جانتا ھے کیونکہ وہی ارض
و سما کے سارے اسرار و رمُوز کا جاننے والا ھے اور آپ بھی ہمیشہ اللہ
تعالٰی کے اُسی کلامِ نازلہ پر نظر رکھیں اور ہمیشہ اسی کلامِ نازلہ کو
سُنیں کیونکہ اللہ تعالٰی کی اُس برتَر ہستی کے برتر قول و عمل میں کوئی
بھی اُس کا شریکِ کار اور مدد گار نہیں ھے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی پہلی آٹھ اٰیات میں اللہ تعالٰی کی توحید کو
بیان کیا تھا جس کا مقصد اللہ تعالٰی کی اُن لامحدُود قُوتوں اور لامحدُود
قُدرتوں کو ظاہر کرنا تھا جو زمان و مکان میں لَمحہ بہ لَمحہ خود بھی ظاہر
ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی کسی سَچے انسان کی ایک سچی طلب اور تڑپ سے بھی
ظاہر ہو کر اللہ تعالٰی کی قُوتوں اور قُدرتوں پر اُس انسان کے ایمان و
یقین کو پُختہ سے پُختہ تر کر دیتی ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی اُن
پہلی آٹھ اٰیات کے بعد دُوسری آٹھ اٰیات میں انسان کے ایمان و یقین کی اِس
پُختگی کو ایک مُشرک انسانی بستی کے اُن مُوحِد نوجوانوں کے پُختہ ایمان و
یقین کی اِس مثال سے واضح کیا ھے کہ اُس مُشرک بستی کے چند نوجوانوں نے جب
اللہ تعالٰی پر بھروسا کر کے پہلے اُس بستی کے با اختیار لوگوں کے اختیار
کو چیلنج کیا اور بعد ازاں اُن با اختیار مُشرکوں سے اپنی جان اور اپنا
ایمان بچانے کے لیۓ اللہ تعالٰی کے بھروسے پر اپنے ٹھکانے کو چھوڑ کر ایک
ویرانے کا رُخ کر لیا تھا اور گزشتہ پانچ اٰیات میں اُن نوجوانوں کے ایک
غار میں پُہنچ جانے ، پھر اُس غار میں اللہ تعالٰی کی پناہ پانے ، پھر اللہ
تعالٰی کی مشیت سے ایک طویل زمانے تک نیند کی آغوش میں چلے جانے اور پھر
ایک طویل زمانے کے بعد اللہ تعالٰی ہی کی مشیت کے تحت نیند کی آغوش سے باہر
آنے کی وہ تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو اُس زمانے اور اُس کے بعد کے زمانوں
کے انسانوں میں مشہور و معروف رہی ہیں اور اَب موجُودہ پانچ اٰیات میں
قُرآنِ کریم نے اَصحابِ کہف کے بارے میں زمانے سے زمانے تک سینہ بہ سینہ
چلنے اور سُنی سُنائی جانے والی اُن انسانی روایات کا ایک علمی و فکری
تجزیہ کیا ھے اور اِس تجزیہ میں انسان کو بتایا ھے کہ انسان کا حافظہ کتنا
ہی قوی سے قوی تر ہی کیوں نہ ہو اور انسان کی نیت کتنی ہی اَعلٰی سے اَعلٰی
تر اور اَرفع سے اَرفع تر ہی کیوں نہ ہو لیکن حقیقت یہی ھے کہ ایک انسان جب
ایک روایت دُوسرے انسان کو سُناتا ھے اور دُوسرا انسان وہی روایت کسی
دُوسرے یا تیسرے انسان تک پُہنچاتا ھے تو انسان کے اِس نقلِ روایت کے پہلے
چند مر حلوں میں اُس روایت کے سارے اَلفاظ کُچھ سے کُچھ ہو جاتے ہیں اور
پھر نقلِ روایت کے دُوسرے چند مرحلوں میں اُس روایت کا مفہوم بھی کُچھ کا
کُچھ ہوجاتا ھے ، اگر انسان کی سینہ بہ سینہ چلنے والی روایت بالفظ ہی حرفِ
آخر ہوتی تو انسانی تاریخ میں اَصحابِ محمد علیہ السلام کے حافظے پر سب سے
اعتبار و اعتماد کیا جاتا اور قُرآن کی کتابت کی ضرورت ہی پیش نہ آتی لیکن
اللہ تعالٰی کی جس ہستی نے قُرآن کریم نازل کیا ھے اُس ہستی نے انسانی
حافظے پر بھروسا نہیں کیا ھے اور سیدنا محمد علیہ السلام کی جس ہستی پر
قُرآن نازل ہوا ھے اُس ہستی نے بھی قُرآن کو انسانی حافظے پر نہیں چھوڑا ھے
بلکہ اُس ہستی نے اِس کتاب کو لکھنے ، اِس کتاب کو لکھانے ، اِس کتاب کو
سُننے اور اِس کتاب کو سنانے کا ہر امکانی ذریعہ اختیار کیا ھے اور اِس طرح
قُرآن ہی وہ پہلی کتاب ھے جس نے سب سے پہلے انسانی معاشرے میں انسان کی
زبانی روایت کا دروازہ بند کرنے کے بعد اللہ تعالٰی کے اِس تحریری کلامِ
نازلہ کو رائج کیا ھے اور اِسی لیۓ قُرآنِ کریم نے اپنی مُحولہ بالا اٰیات
کے ذریعے انسانی معاشرے میں اللہ تعالٰی کا یہ دائمی قانون نافذ کردیا ھے
کہ قُرآنِ کریم کے نزول کے بعد زمان و مکان میں انسانی روایات کی حکمرانی
ہمیشہ کے لیۓ ختم ہو چکی ھے اور زمان و مکان کے ہر ایک گوشے میں اللہ
تعالٰی کی اٰیات کی حکمرانی ہمیشہ ، ہمیشہ کے لیۓ قائم ہو چکی ھے ، اہلِ
اسلام میں دینِ اٰیات کے مقابلے میں دینِ روایات کا جو سلسلہ قائم ہوا ھے
اُس کے ایک جُھوٹا سلسلہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ھے کہ جس زمانے میں
سیدنا محمد علیہ السلام نے انسان کو قُرآن سُنایا ، پڑھایا ، سکھایا اور
سمجھایا ھے عقلی اعتبار سے اہلِ روایت کی روایات کا زمانہ بھی وہی زمانہ
ہونا چاہیۓ لیکن ھم دیکھتے ہیں کہ عملی اعتبار سے اٰیات کا زمانہ اور
روایات کا زمانہ ایک دُوسرے سے ایک بالکُل ہی مُختلف زمانہ ھے اور دلیل اِس
اَمر کی یہ ھے کہ اہلِ روایت کی معروف روایات کے مطابق وصالِ نبوی کے بعد
جب قُرآنِ کریم کو کتابی صورت میں جمع کرنے کا مرحلہ آیا تو جامعینِ قُرآن
کو قُرآنی اٰیات حجری سلوں پر ، درختوں کی چھال پر اور جانوروں کی کھال پر
لکھی ہوئی ملیں لیکن کسی روایت کے کسی راوی نے کوئی ایک روایت بھی ایسی پیش
نہیں کی ھے جس میں اُس نے یہ دعوٰی کیا ہو کہ اُس کو یہ حدیث شریف فلاں
صحابیِ رسول نے دی تھی جو ایک حجری سِل پر لکھی ہوئی تھی اور فلاں صحابیِ
رسول نے اُس کو فلاں حدیث شریف دی تھی جو اُس صحابیِ رسول نے کھجُور کی
چھال پر تحریر کر رکھی تھی اور فلاں فلاں اَصحابِ رسول نے اُس کو فلاں فلاں
احادیث فراہم کی تھیں جو اُنہوں نے جانوروں کی کھال پر نقش کی ہوئی تھیں ،
آخر انسانی تاریخ کا اِس سے بڑا جُھوٹ اور کیا ہو سکتا ھے کہ سیدنا محمد
علیہ السلام پر جو قُرآن نازل ہوتا تھا اُس کو تو اَصحابِ محمد علیہ السلام
حجری سلوں پر ، بوسیدہ ہڈیوں پر ، درختوں کی چھال اور مُردہ جانوروں کی
کھال پر لکھ کر مِٹی کے مَٹکوں میں ڈال دیتے تھے اور قُرآن کے سوا وہ اپنے
نبی جو کُچھ بھی سُنتے تھے اُس کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا کرتے تھے اور
ظاہر ھے کہ یہ سَچ نہیں ھے ، جُھوٹ ھے اور انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور
سب سے بُرا جُھوٹ ھے ، سُورہِ کہف میں بیان ہونے والا اَصحابِ کہف کا واقعہ
اِن اٰیات پر ختم ہو گیا ھے اور اِس واقعے میں انسان کو رَحمٰن نے یہ پیغام
دیا ھے کہ ہر انسان پر کبھی نہ کبھی ایک مُشکل ضرور آتی ھے اور ہر انسان کو
اُس مُشکل میں ایک حفاظتی کہف Cave کی ضرورت ہوتی ھے اور قُرآن نازل ہونے
کے بعد ہر انسان کا حفاظتی کہف cave صرف اور صرف قُرآن ھے !!
|