اَصحابِ کہف و اَصحابِ قُرآن !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 27 تا 29 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کیریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اتل ما اوحی
الیک من کتاب ربک
لا مبدل لکلمٰتہ ولن تجد من
دونہٖ ملتحدا 27 واصبر نفسک مع
الذین یدعون ربھم بالغدٰوة والعشی یریدون
وجھہ ولا تعد عینٰک عنھم ترید زینة الحیٰوة الدنیا
ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھوٰہ وکان امرہٗ فرطا
28 وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر انا اعتدنا
للظٰلمین نارا احاطبھم سرادقھا و ان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمھل یشوی
الوجوہ بئس الشراب وسائت مرتفقا 29
اَصحابِ کہف کا یہ تاریخی واقعہ توحید کی اُسی سُنہری زنجیر کا ایک سُنہری حلقہ ھے جس سے پہلے ھم نے پہلے اَنبیاۓ کرام کو مُلحق کیا تھا ہوا تھا اور اَب آپ کو بھی مُنسلک کر دیا ھے ، زمانے کے حالات کُچھ بھی ہوں ، زمانے کی روایات کیسی بھی ہوں اور اِن روایات کے راوی کُچھ بھی کہتے پھر رھے ہوں ، آپ نے اِن سب سے کٹ کر صرف اِسی کتاب سے جڑے رہنا ھے جو آپ پر نازل ہوئی ھے ، آپ نے اسی کو کتاب کو پڑھنا ھے ، اسی کتاب کو پڑھانا ھے ، اسی کتاب کو سُننا ھے اور اسی کتاب کو سُنانا ھے کیونکہ یہ وہ آخری اور ناقابلِ تغیر کتاب ھے کہ اَب اِس کتاب کے کسی حرف ، کسی لفظ ، کسی جُملے اور کسی کلمے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ، آپ اِس کتاب کی تعلیم دیتے رہیں گے تو آپ کو اسی طرح ھماری مدد حاصل ہوتی رھے گی جس طرح آپ سے پہلے اَنبیا و اَصدقا کو ھماری مدد حاصل ہوتی رہی ھے اِس لیۓ کہ اِس کتاب کے اَحکام کے سوا آپ کے اور آپ کے اَصحاب کے لیۓ کہیں بھی اور کوئی بھی جاۓ پناہ نہیں ھے ، آپ کے اَصحاب کی استقامت علی الحق بھی اَصحابِ کہف کی طرح ایک مثالی استقامت ھے جو دن کے آغاز سے شب کے آغاز تک اللہ تعالٰی کے اَحکام سُننے کے لیۓ اپنی رُوح و جان کی پُوری شان کے ساتھ حاضر رہتے ہیں ، آپ بھی اِن کے ساتھ شانے سے شانہ جوڑ کر کھڑے رہیں اور ایک لَمحے کے لیۓ بھی اِن کو نظر انداز نہ کریں ، دینِ حق کے دُشمن آپ کو اپنے طرزِ حیات کی طرف مائل کرنے کی پُوری کوشش کریں گے لیکن آپ نے ھمارے کام سے غافل ہونے ، ھمارے کام سے غافل کرنے اور اپنی حد سے گزرنے والے کسی شخص کی بات پر کان نہیں دھرنا بلکہ اُس کی ہر کوشش کو نظر انداز کرکے اپنے اَصحاب و اَحباب کی دل جوئی اور کارِ نبوت کی اَنجام دہی میں مصروف رہنا ھے ، اَب جب کہ قُرآن ایک کتابِ حق کی صورت میں اہلِ زمین کے لیۓ آخری بار نازل ہو چکا ھے تو آپ اعلان کر دیں کہ جس کا دل چاھے اِس کتاب کے اَحکام کو اپنی حیات کے قانونِ حیات کے طور پر اختیار کر لے اور جس کا جی چاھے اِس سے انکار کردے لیکن خیال رھے کہ اِس نظامِ انصاف کے زمین پر آنے کے بعد انسانیت کے ساتھ ظلم کرنے والوں کی جانوں کو ایک نہ ایک دن عذاب کی وہ آتش گیر وادی اپنے جسم میں سمیٹ کر رھے گی کہ جس آتشیں وادی میں اِن ظالم لوگوں کو پینے کے لیۓ کھولتے ہوۓ تانبے کی طرح کھولتا ہوا وہ پانی دیا جاۓ گا جو اُن کے چہروں کو تیل میں تلی جانے والی مچھلی کی طرح جلا اور جُھلسا کر رکھ دے گا اور یہ اُس بدترین زندگی میں ملنے والا ایک بدترین مشرُوب ہو گا جو اُن کو دیا جاۓ گا !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اَب تک بیان ہونے والی 26 اٰیات اور اُن 26 اٰیات کے 26 بیانات سے یہ بات کُھل کر سامنے آچکی ھے کہ اپنے نام اور اپنے اَحکام کے حوالے سے سُورةُ الکہف کا پیغام یہ ھے کہ جب کبھی بھی کسی انسان پر اُس کی جان اور اُس کے ایمان کے حوالے سے کوئی مُشکل آتی ھے تو اُس کو اپنی جان اور اپنا ایمان بچانے کے لیۓ اُس پناہ گاہ کی ضرورت ہوتی ھےجس پناہ گاہ میں وہ جاۓ تو اُس کی جان بھی بَچ جاۓ اور اُس کا ایمان بھی بَچ جاۓ ، قُرآنِ کریم نے انسان کو اِس طرح کی مُشکل پیش آنے اور اِس طرح کی مُشکل سے اپنی جان اور اپنا ایمان بچانے کے لیۓ انسانی تاریخ کے اُن چند بہادر نوجوانوں کی بہادری کی مثال پیش کی ھے جو انسانی تاریخ میں اِس لیۓ اَصحابِ کہف کے نام سے مشہور ہوۓ تھے کہ اُنہوں نے ایک مُشکل وقت میں ایک مُشکل فیصلہ کر کے ایک کہف cave کو اپنی پناہ گاہ بنالیا تھا اور اُس کہف میں پناہ لے کر اپنی جان اور اپنے ایمان کو بچالیا تھا ، یہ کہف باعتبارِ مقصد کوئی پناہ گاہ نہیں تھی بلکہ باعتبارِ ضرورت پناہ کا ایک استعارہ تھی کیونکہ اِس کہف کا مقصد جَب بھی ہر گز یہ نہیں تھا اور اَب بھی ہرگز یہ نہیں ھے کہ جب بھی کسی انسان پر کوئی مُشکل آجاۓ تو وہ کسی کہف کی تلاش میں نکل جاۓ بلکہ اِس کا مقصد تَب بھی صرف یہی تھا اور اِب بھی صرف یہی ھے کہ جس انسان پر بھی کوئی مُشکل آجاۓ تو وہ اُس مُشکل سے بچنے اور بچے رہنے کے لیۓ اَصحابِ کہف کی طرح اُس مقام کی طرف نکل جاۓ جس مقام پر اُس کو کوئی وقتی یا کوئی دیرپا پناہ مل جاۓ ، کہف اور اَصحابِ کہف کے اِس تاریخی حوالے سے قُرآنِ کریم کے اِس بیان کا پہلا مقصد تو شہرِ مکہ سے شہرِ مدینے کی طرف کی جانے والی اُسی مُجوزہ ہجرت کے لیۓ اہلِ ایمان کو تیار کرنا تھا جس کا سیدنا محمد علیہ السلام کو پہلے سُورةُالاَسرٰی" کی پہلی اٰیت میں حُکم دیا گیا اور اُس حُکم کے بعد سُورةُالکہف میں اَصحابِ کہف کی ہجرت کا یہ تاریخی حوالہ دے کر اُس ہجرت کی متوقع مُشکلات سے آگاہ کیا گیا اور اَب کہف کی اُس علامتی پناہ گاہ کے بعد اہلِ ایمان کی جانی و ایمانی پناہ کے لیۓ یہ تیسرا اور آخری حوالہ دیا گیا ھے کہ اللہ تعالٰی کے اِس آخری نبی کی آخری اُمت کی آخری جانی و ایمانی پناہ گاہ اللہ تعالٰی کی وہ آخری کتاب قُرآن ھے جو محمد علیہ السلام پر نازل ہوئی ھے اور موجُودہ اٰیات میں اسی کتابِ نازلہ کے حوالے سے سیدنا محمد علیہ السلام کو پہلے تو یہ حُکم دیا ھے کہ ہجرت کے بعد زمانے کے حالات کُچھ بھی ہوں ، زمانے کی روایات کیسی بھی ہوں اور زمانے میں چلتی پھرتی اِن روایات کے چلتے پھرتے راوی کُچھ بھی کہتے پھر رھے ہوں ، آپ نے اِن سب سے کٹ کر صرف اور صرف اس کتاب کے ساتھ جُڑے کر رہنا ھے جو اللہ تعالٰی نے آپ پر نازل کی ھے ، آپ نے اسی کتاب کو پڑھنا اور اسی کتاب کو پڑھانا ھے ، آپ جب تک اہلِ زمین کو اس کتاب کی تعلیم دیتے رہیں گے ھم آپ کو اور آپ کے اَصحاب و اَحباب کو اسی طرح عالَمِ غیب سے اپنی مدد فراہم کرتے رہیں گے جس طرح آپ سے پہلے اَنبیاء و اَصدقا کو عالَمِ غیب سے اپنی مدد فراہم کرتے رھے ہیں اور موجُودہ اٰیات میں اِس پہلے حُکم کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو جو دُوسرا حُکم دیا ھے وہ یہ ھے کہ آپ اپنے اَصحاب و اَحباب کو ہر حال میں اپنے ساتھ رکھیں اور ہر حال میں اُن کے ساتھ رہیں کیونکہ آپ کے یہ تابع دار اور فرماں بر دار اَصحاب و اَحباب دن چڑھے سے شب ڈھلے تک اپنی رُوح و جان کی پُوری شان کے ساتھ قُرآن کے اَحکام سُننے اور سیکھنے کے لیۓ حاضر رہتے ہیں اور اِن کی یہ استقامت علی الحق اَصحابِ کہف کی استقامت علی الحق سے بھی زیادہ ھے اور پھر اِن دو باتوں کے بعد تیسری بات آپ سے یہ کہی گئی ھے کہ آپ اپنے زمانے کے تمام انسانوں پر یہ اَمر واضح کر دیں کہ قُرآن عدل و انصاف کا ایک اجتماعی نظام ھے جو اہلِ زمین کی بَھلائی کے لیۓ نازل کیا گیا ھے اور عدل و انصاف ایک محسوس ہونے اور ایک نظر آنے والی حقیقت ھے اور اِس حقیقت کو حقیقت کے طور پر قبول کرانے کے لیۓ کسی کوڑے اور کوتوال کی ضرورت نہیں ھے ، اِس اجتماعی خیر کو جو چاھے اختیار کرلے اور جو چاھے وہ اِس کا انکار کردے ، جو قوم اِس نظامِ خیر کو اختیار کرے گی اُس کا جانے والا وقت ایک حسین وقت اور آنے والا وقت ایک حسین تر وقت ہوگا اور جو قوم اِس نظامِ خیر کو رَد کر دے گی اُس کا جانے والا وقت سنگین اور آنے والا وقت ایک سنگین تر وقت ہو گا لیکن اِس نظام کے اِن حسین یا سنگین نتائج کا دار و مدار اِس بات پر ھے کہ کون سی قوم اِس نظامِ خیر کو عملی طور پر قبول کرتی ھے اور کون سی قوم اِس نظامِ خیر کو عملی طور پر رَد کرتی ھے کیونکہ اِس نظامِ خیر کی کسی قوم کے ساتھ کوئی دُشمنی نہیں ھے اور اِس نظامِ خیر کی کسی قوم کے ساتھ کوئی دوستی بھی نہیں ھے ، یہ نظام ایک سُورج ھے جو انسان اِس سُورج کے سامنے آتا ھے وہ اِس کی روشنی میں نہا جا تا ھے اور جو انسان اِس کے سامنے نہیں آتا ھے وہ تاریکی میں رہ جاتا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455413 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More