کہف کا حال اور اہلِ کہف کا اَحوال !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 17 تا 21 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
تری الشمس
اذا طلعت تزٰور عن
کھفھم ذات الیمین واذا
غربت تقرضھم ذات الشمال و
ھم فی فجوة منہ ذٰلک من اٰیٰت اللہ
من یھد اللہ فھو المھتد و من یضلل فلن
تجد لہ ولیا مرشدا 17 وتحسبھم ایقاظا و ھم
رقود ونقلبھم ذات الیمین وذات الشمال وکلبھم باسط
ذراعیہ بالوصید لو اطلت علیھم لولیت منھم فرارا ولملئت
منھم رعبا 18 وکذٰلک بعثنٰھم لیتساء لوا بینھم قال قائل منھم
لم لبثتم قالوا لبثنا یوما او بعض یوم قالوا ربکم اعلم بمالبثتم فابعثوا
احد کم بورقکم ھٰذہٖ الی المدینة فلینظر ایھا ازکٰی طعاما فلیاتکم برزق منہ
ولیتلطف ولا یشعرن بکم احدا 19 انھم ان یظھروا علیکم یرجموکم او یعیدو
کم فی ملتھم و لن تفلحوا اذا ابدا 20 وکذٰلک اعثرنا علیھم لیعلموا ان وعداللہ حق
و ان الساعة لاریب فیھا اذ یتنازعون بینھم امرھم فقالوا ابنوا علیھم بنیانا ربھم اعلم
بھم قال الذین غلبوا علٰی امرھم لنتخذن علیھم مسجدا 21
بالآخر ٹھکانے سے نکل کر ویرانے میں جانے والے وہ نوجوان ایک ایسے غار میں جا پُہنچے جس پر تُم نظر ڈالو تو یوں لگے گا کہ جب سُورج طلُوع ہوتا ھے تو وہ اِس غار کے دھانے سے پہلُو بچا کر دائیں جانب سے نکل جاتا ھے اور جب سُورج غروب ہو تا ھے تو وہ اِس غار کے دھانے کو چھوڑ کر بائیں طرف سے نکل جاتا ھے ، اُس غار کا محلِ وقوع جنوباً اور شمالاً کُچھ اِس طرح پر تھا کہ اُس کا داخلی راستہ تو تنگ تھا مگر اندرونی حصہ بہت کشادہ تھا جس میں دن بھر سُورج کی روشنی اور تمازت نہیں جاتی تھی اور یہ "زندہ دَر غار" ہونے والے اُن نوجوانوں کے لیۓ اللہ کی چشم کشا نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی اور اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ جو شخص اللہ سے رہنمائی چاہتا ھے وہ رہنمائی پاتا ھے اور جو شخص رہنمائی سے اعراض کرتا ھے تو فطرت کے ضابطے اُس سے اعراض کر لیتے ہیں جس کے بعد اُس کو کوئی راہ رَو اور راہبر نہیں مل سکتا ، غار کے باہر منڈلاتے ہوۓ خطرات کے باعث اِن نوجوانوں کی فکری بیداری کا عالَم یہ تھا کہ وہ نیم خواب و بے خوابی کے درمیان بھی ھماری اَنگیخت پر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اِس طرح کروٹ پر کروٹ لے رھے تھے کہ دیکھنے والے کو وہ سوۓ ہوۓ بھی جاگتے نظر آتے تھے اور اُن کا کُتا بھی اُن کو کسی اَچانک خطرے سے آگاہ کرنے کے لیۓ غار کے دھانے پر پَنجے پھلاکر اِس طرح بیٹھا ہو تھا کہ اگر اُن کے غار کی طرف کوئی آ بھی جاتا تو وہ اِس ہیبت ناک ماحول سے خوف زدہ ہو کر فورا بھاگ جاتا ، پھر پہلے جس طرح ھم نے اُن کو حال سے بے حال کر دیا تھا اَب اسی طرح اُن کو اُن کی پہلی حالت پر بحال کر دیا تھا تاکہ وہ اپنے ذہن میں موجُود خطرات و خدشات کے بارے میں ایک دُوسرے سے پُوچھ تاچھ کرلیں ، تَب اُن میں سے ایک نے اپنے اِن غاردار ساتھیوں سے پُوچھا ، کیا خیال ھے ، تُم نے اِس غار میں کتنا وقت گزارا ھے ، اُنہوں نے کہا کہ ایک دن کا کُچھ حصہ یا پھر پُورا ایک دن ، تاہِم اِس وقت کی صحیح مُدت بارے میں تو اللہ ہی بہتر جانتا ھے ، پھر انہون نے اپنے ایک یارِ غار سے کہا اَب تُم یہ سکہ لو اور پھر باہر نکل کر شہر میں جاؤ اور صورتِ حال جاننے کے علاوہ کھانے پینے کا کُچھ اچھا سا سامان بھی لے آؤ لیکن تُم نے اپنے اَطراف سے بہر طور خبر دار رہنا ھے ، راستے میں اگر کسی سے تُمہارا آمنا سامنا ہو جاۓ تو اُس کے ساتھ نرمی اور ملائمت سے بات کرنا ، پھر اُنہوں نے شہر جانے والے کو مزید تاکید کرتے ہوۓ کہا کہ خبر در ، خبر دار ! اپنی حفاظت کے خیال کو ایک لَمحے کے لیۓ بھی فراموش نہیں کرنا ، اگر تُم دشمنوں کے ہاتھ لگ گۓ تو وہ تُم کو سنگسار کریں گے یا پھر زور زبردستی کر کے اپنے جماعت جَتھے میں شامل کر لیں گے اور اگر ایسا ہو گیا تو ہماری کامیابی ہماری ناکامی میں بدل جاۓ گی لیکن اِن کا وہ ساتھی جب غار سے بازار گیا تو معلُوم ہوا کہ اہلِ غار کا غار میں رہنا ایک آدھ دن کی بات نہیں بلکہ غار والوں کو زندگی کی آغوش میں آۓ اور شہر و بازار والوں کو موت کے مُنہ میں گۓ کئی زمانے گزر چکے ہیں ، ھم نے لوگوں کی آگاہی کے لیۓ تاریخ کا یہ سَچ ایک فکری حقیقت بنا کر ظاہر کر دیا تاکہ انسان جان جاۓ کہ زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد پھر زندگی دینا اللہ تعالٰی کا ایک سچا وعدہ ھے جس نے پُورا ہونا ہی ہونا ھے مگر وہ لوگ موت و حیات کے اِس مقصد کو جاننے اور سمجھنے کے بجاۓ دیر تک اِس بحث میں سرکھپاتے رھے کہ اِس غار پر یاد گار کے طور پر کس طرح کی عمارت بنائی جاۓ یہاں تک کہ اُن کے ایک گروہ کی یہ راۓ مان لی گئی کہ اُس مقام پر ایک مسجد بنا دی جاۓ تاکہ اُس میں آنے والوں کو اَحکامِ اِلٰہی کی تعلیم دی جاۓ !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے مُحولہ بالا پانچ اٰیات سے پہلی آٹھ اٰیات میں ایک مُشرک زمانے کی مُشرک ریاست کے اُن چند مُوَحد نوجوانوں کا ذکر کیا تھا جنہوں نے اپنے زمانے میں بے حد بے اختیار ہونے کے با وجُود اپنے زمانے کے بے حد با اختیار لوگوں کے سامنے اُن کی مُشرک ریاست کے مُشرکانہ مَذہب کا انکار اور اللہ کی توحید اقرار کیا تھا جس کی وجہ سے اُس مُشرک ریاست کے سارے والیانِ ریاست اُن کی جان اور اُن کے ایمان کے دُشمن بن گۓ تھے اور وہ بے یار و مدد گار نوجوان اپنی جان اور اپنا ایمان بچانے کے لیۓ اپنے اپنے شہری ٹھکانے کو چھوڑ کر اِس خیال سے ایک ویرانے کی طرف نکل گۓ تھے کہ اُن کو اُس ویرانے میں رہنے کے لیۓ شاید کوئی ایسا غار مل جاۓ جس میں کُچھ وقت تک وہ اپنی جان اور اپنے کے اِن بااختیار دشمنوں سے چُھپ کر رہ سکیں لیکن اگر قُرآنِ کریم اُن آٹھ اٰیات میں بیان کیۓ گۓ اُس مُفصل مضمون کے بعد موجُودہ اٰیات میں صرف یہ بتا دیتا کہ بالآخر اُن نوجوانوں کو چُھپ چُھپا کر رہنے کے لیۓ اُس ویرانے میں ایک غار مل گیا تھا اور اللہ تعالٰی نے ایک طویل مُدت تک اُن نوجوانوں کو اُس غار میں زندہ رکھا تھا اور پھر اللہ تعالٰی نے انسان کی آگاہی کے لیۓ انسانی تاریخ کا یہ سَچ ایک فکری حقیقت بنا کر انسان پر ظاہر بھی کر دیا تھا تاکہ انسان جان جاۓ کہ اللہ تعالٰی کا زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد پھر زندگی دینے کا وعدہ ایک سچا وعدہ ھے اور اللہ تعالٰی کے اُس سَچے وعدے نے پُورا ہونا ہی ہونا ھے لیکن قُرآنِ کریم نے اتنی بات کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُس نے اُس غار کا حال بیان کرتے ہوۓ انسان کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھا ھے کہ اگر تُم اُس غار پر نگاہ ڈالو گے تو تمہیں یوں لگے گا کہ جب سُورج طلُوع ہوتا ھے تو وہ اِس غار کے دھانے سے پہلُو بچاکر دائیں جانب سے نکل جاتا ھے اور جب سُورج غروب ہوتا ھے تو وہ اِس غار کے دھانے کو چھوڑ کر بائیں طرف سے نکل جاتا ھے ، اِس غار کا محلِ وقوع جنوباً اور شمالاً کُچھ اِس طرح پر تھا کہ اُس کا داخلی راستہ تو تنگ تھا مگر اندرونی حصہ بہت کشادہ تھا جس میں دن بھر سُورج کی روشنی اور تمازت داخل نہیں ہوتی تھی اور غار کے اِس حال کے بعد قُرآنِ کریم نے مُسافرانِ غار کا یہ اَحوال بھی بیان کیا ھے کہ اِن نوجوانوں کی فکری بیداری کا عالَم یہ تھا کہ وہ نیم و خواب و بے خوابی کے درمیان ھماری اَنگیخت پر دائیں سے بائیں اور بائیں دائیں اِس طرح کروٹ پر کروٹ لے رھے تھے کہ دیکھنے والے کو وہ سوۓ ہوۓ بھی جاگتے نظر آتے تھے اور اُن کا کُتا بھی غار کے دھانے پر پَنجے پھیلا کر بیٹھا ہوا تھا ، یعنی قُرآنِ کریم کے اِس بیانیۓ کے مطابق اُس غار اور اُن کے ساکنانِ غار کی عملی صورتِ حال یہ تھی کہ وہ غار بھی خود کار Automatic بنا دیا گیا تھا ، اُس میں رہنے والوں کی حرکت و عمل بھی ایک خود کار Automativ نظام کے تابع تھی یہاں تک کہ اُن کا وہ کُتا بھی اللہ تعالٰی کے بناۓ ہوۓ اسی خود کار نظام Autosystem پر زندہ تھا ، عُلماۓ روایت نے قُرآنِ کریم کے اِس بیان سے زیادہ سے زیادہ جو علمی و فکری نتیجہ اخذ کیا ھے وہ یہ ھے کہ اَصحابِ کہف کا یہ کُتا اَصحابِ کہف کے ساتھ ضرور جنت میں جاۓ گا لیکن ھمارے خیال میں یہ بات صرف عُلماۓ روایت کے کُتے کو جنت میں لے جانے کی نہیں ھے بلکہ یہ تازہ چیزوں کو تا دیر تازہ رکھنے اور اَجسامِ زندہ کو تادیر زندہ رکھنے کا ایک سائنسی فارمولا ھے جو قُرآن نے دیا ھے اور ہمیں اُمید ھے کہ مُستقبل کے عُلماۓ سائنس اِس پر غور و فکر کر کے قُرآنِ کریم کی اِن اٰیات کے اِس مضمون کو بہتر طور پر بیان کر سکیں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 453982 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More