مستقبل کے معمار

کبھی اے نوجوان مسلم اے مستقبل کے معمار خود کو پہچان اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفی ہے تیری نسبت ان اسلاف سے ہے جنہوں نے تاج سردارا کو پاؤں میں کچل ڈالا تھا۔ تجھی سے دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا ، تو نے آئین محمدیہ کو دستورِ کائنات بنانا ہے ، اس دور کی ظلمت کو اپنے نورِ صداقت سے مٹانا ہے ۔ تو نے ایسا چراغ بننا ہے جس کی ضوء قلب کفار پر تیر بن کر لگتی ہے ۔ دشمنانِ اسلام کے لیے فولاد اور مسلمان کے لیے بریشم کی طرح نرم بننا ہے۔

لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان مادیت کی دنیا میں مگن ہے ، اسے روحانیت کا ادراک نہیں ۔ مرد قلندر کے اوصاف سے نالاں ہے۔ اللہ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنایا تھا اور اپنے بندوں کو خلیفة الارض بنا کر بھیجا تھا مگر آج کے نوجوان تو روٹی کمانے میں ہی مصروف ہو گئے ، ان کی کمندیں صرف ڈاکٹرانجینئر یا وکیل بننے تک ہی جاتی ہیں ۔ ان کے خیال میں مزدوری کر کے پیٹ پال لینا ہی اصل کامیاںی ہے۔

اصل کامیابی تو یہ تھی کہ ہم حیات و کائنات کے قوانین کی قید چھوڑ کر تسخیرِ کائنات کی تعلیم حاصل کرتے۔ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی حاصل کرتے ، کردار کی پختگی قائم کرتے، وہ درویشی وہ سلطانی وہ قاہری حاصل کرتے کہ ا مریکہ جیسے منعم کو ہم گداؤں کی غیرت کا پاس ہوتا۔ ناکہ ہم ان کی نوکری کرنے میں فخر محسوس کرتے۔

اپنے اسلاف کی طرح جہاں گیر وجہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا بنتے
کیونکہ

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

میں یہ نہیں کہتی کہ ہمیں تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہئے بلکہ میں کہتی ہوں کہ یہ کیسی تعلیم ہے جس کے بند ہونے سے طلبہ خوش ہوتے ہیں یعنی کوئی شوق تماشا نہیں، کوئی ذوق تقاضا نہیں دل ویران ہے جس علم سے وہ تو فتنہ ملت بیضا ہے۔ اغیار کی غلامی کی تعلیم کہاں دیدۂ بینا دے گی ،کہاں ہمارے نوجوان کو وہ شعور حیات دے گی جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتوں ریاضتوں نے اور صحرا نشین صحابہ نے دیا تھا۔ جو اقلام صرف اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے اٹھائے جائیں وہ کہاں جہاد بالقلم کے فرائض نبھائیں گے۔

اسی وجہ سے ہمارے نوجوان کا نظریہ حیات صرف مادی ترقی حاصل کرنا ہے۔ اچھے گریڈ پھر اچھی نوکری، گاڑی گھر اور ایک اچھا ہمسفر اس کی کل کائنات ہے اور جسے نہ ملے وہ خود کشی کرنے چل پڑتا ہے عدم برداشت کا شکار ہوکر۔

نہ بڑوں کا ادب باقی ہے نہ چھوٹوں کی تربیت نہ دل سوز سے بھرے نہ سینوں میں قرآن ہی جاتے ہیں دنیا جہاں کے فلسفے اور قوانین جاننے والے بچے قرآن کو کبھی فہم کے ساتھ پڑھ نہیں سکتے۔ سیرت رحمت اللعالمین سے کسی نے انہیں روشناس نہیں کروایا۔

مسٹر چیپس پڑھ پڑھ کر عجیب بے رنگی، ڈپریشن زدہ زندگی گزار رہے ہیں یقین محکم عمل پیہم کیا بنتے ہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ھیں۔ کوئی باہر سے لیڈر آئے گا جو ان کے قرضے ادا کرے گا کوئی آسمان سے مہدی اتریں گے جو کشمیر کی بیٹیوں کی رداؤں کی جنگ لڑیں گے۔ ان کے سینوں میں تو شورش محشر نابرپا ہوگی۔ وہ ایوبی و قاسمی جیسا جذبۂ جہاد تو اس ویران گلشن میں پیدا نہیں کریں گے جو کمر سے بم باندھ کر ہندوستان کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔ جنہوں نے دین اور دیس کی حرمت کی خاطر اپنی جوانیاں قربان کر دیں،۔ اور کیونکر ہو جب ان کو مدر پدر بنانے میں یہود وہنود کی سالہا سال کی محنت ہے۔ کبھی فرسودہ فلمیں کبھی بے ہودہ ٹک ٹاک کبھی تعفن آمیز سوچ کے مظہر ناول !!! جب یہ رزق ہمارے طائرِ لاہوتی تناول فرماتے ہیں تو ان کی پرواز متاثر کیونکر نا ہو گی؟

اس لیے نوجوانوں کو اغیار کی تقلید چھوڑ کر محتاجی کے کشکول توڑ کر غیرت و حمیت کو اپنانا ہو گا ۔ جذبہ ایمانی کو جلانا ہوگا تاکہ اس ویران صحرا میں بہار آ سکے اور اللہ کا دین غالب آئے۔

یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ،جو روح کو تڑپا دے
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 49441 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.