کسی نے کیا خوب کہاہے کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں ۔ایسا
ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا تھا۔نہ میں ان کو جانتا تھا اور نہ وہ مجھے اور
میرے خاندان کو جانتے تھے ،درمیان میں ایک وسیع خلیج زبان اور قومیت کی
حائل تھی ،میری بیگم کا تعلق اردو سپکینگ خاندان سے تھا اور ان کے والد
قیام پاکستان کے وقت ، اپنے خاندان کو چھوڑ کر اٹھارہ سال کی عمر میں اکیلے
ہی( یہ خواہش دل میں لیے کہ میں کسی ہندو کی غلامی نہیں کرنا چاہتا) پٹھان
پروا سے ہجرت کرکے بذریعہ ٹرین لاہور تشریف لے آئے ۔جبکہ میرے والد(محمد
دلشاد خاں لودھی) فیروز پور سے اور والدہ کا تعلق فرید کوٹ سے تھا، یہ
دونوں بھی ایک آزاد وطن میں رہنے کی خواہش لیکرپہلے قصور شہر قیام پذیر
ہوئے جہاں 25دسمبر 1954ء کو میری ولادت ہوئی ۔ اسی روز میرے والد کو ریلوے
میں بطور کانٹے والا ملازمت مل گئی ،اس لیے دنیا میں میری آمد کو خاندان کے
لیے خوش بختی تصورکیا گیا ۔مختلف شہروں سے ہوتا ہوا ہمارا خاندان 1964ء میں
لاہور کینٹ قیام پذیر ہوا۔جبکہ میرے سسرالی خاندان اور ہمارے گھر کے درمیان
میاں میرپل ہی حائل تھا لیکن یہ فاصلہ بھی ہم لوگ پیدل ہی طے کرلیاکرتے تھے،
حسن اتفاق سے میں ایک سرکاری ادارے میں بطور سٹینوگرافر ساتویں گریڈ میں
ملازم تھا ،یہی خوبی میرے سسر صوفی بندے حسن خاں کو بھا گئی ۔وہ اکثر کہا
کرتے تھے کہ لڑکے کی نوکری پکی ہونی چاہیے ،بارش ہو ،طوفان ہو،وہاں پکی
تنخواہ تو مل جاتی ہے ،اس لیے جب رشتے کی بات چلی تو زبان اور قومیت کا
مسئلہ بھی حائل ہوا لیکن میرے فوجی سسر کے سامنے کسی کی پیش نہ چل سکی اور
میں 6اپریل 1978ء کی صبح گیارہ بجے دولہا بن کر بارات کے ساتھ سسرالی دہلیز
پر دستک دینے جا پہنچا۔وہ بھی کیا وقت تھا جب نہ عام گھروں میں نہ بجلی ہوا
کرتی تھی اور نہ ہی پینے کاپانی گھر گھر میسر ہوتا۔کہیں کنویں تو کہیں ہینڈ
پمپ کے ذریعے ہی پانی حاصل کیاجاتا ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ دو دن پہلے ہی
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی چونکہ میں بھی اس وقت بھٹو کا
چاہنے والا تھا اس لیے جہاں مجھے اپنی شادی کی خوشی تھی وہاں بھٹو کی
پھانسی کا غم بھی تھا ،نکاح کے بعد دو الگ الگ خاندان ایک ہوچکے تھے اور
رخصتی کے وقت جب دولہن کو میری اکلوتی گاڑی (جسے کسی سے مانگ کر حاصل کیا
گیا تھا )میں سوار کیا گیاتو اس لمحے گاڑی میں موجود ٹیپ ریکارڈر پر انڈیا
کے ایک مشہور گانے کی مدھر آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی ۔اس گانے کے بول
تھے ۔"مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا ۔اگر طوفان نہیں آتا کنارہ مل
گیا ہوتا"۔یہ گیت میرے کانوں میں رس گھول رہا تھا اور میں اپنی ہی مستی میں
گم تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں خود بھی محمد رفیع اور مسعود رانا کی طرح
گانے کا بہت شوقین تھا ۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا اگر میں کوئی بھی کام نہیں
کرسکتا تو ایک اچھا گلوکار ضرور بن سکتا ہوں کیونکہ مجھے اپنی سریلی آواز
پر بڑا فخر ہوا کرتا تھا۔بہرکیف میں محمد رفیع کے اس گانے میں خود کو ہیرو
تصور کرتا ہوا کن آنکھیوں سے اپنی نئی نویلی دولہن کو چوری چوری دیکھنے کی
کوشش کررہا تھا ،شادی سے پہلے بہت کوشش کی تھی کہ کسی نہ کسی طرح میں ہونے
والی بیگم کو دیکھ لوں لیکن ایک جانب میرا ابا اور دوسری جانب دولہن کا ابا
ہلاکو خاں بن کر درمیان میں حائل تھے۔میری خصوصی طور پر نگرانی کی جاتی تھی
کہ کہیں چھپ چھپا کر میں سسرالی گلیوں میں نہ پہنچ جاؤں ۔لیکن آج تمام حجاب
اٹھنے ہی والے تھے ۔جب میں دولہن کولیکر گھر پہنچا تو قرآن کے سائے میں گھر
کی دہلیز پرہم دونوں کا استقبال کیاگیا ۔ماں سمیت خاندان کی تمام بزرگ
عورتوں نے ہم دونوں کے سرپر اپنا دایاں ہاتھ پھیرکر خوش آمدید کہا ۔پھر ایک
شیشے میں ہم دونوں کو اپنا اپنا چہرہ دیکھنے کا حکم ملا۔بس وہی موقع تھا جب
میں نے اپنا چہرہ دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھوں کا رخ بیگم کے چہرے گاڑے
رکھا۔معمولی جھلک دکھائی دی جو ناکافی تھی۔میں بیگم کے ملنے پر خوش تھا اور
بیگم مجھے دنیا کا مضبوط سہارا سمجھ کر سمیٹی سمٹائی بیٹھی تھی ۔ہمارے گھر
کے جس اکلوتے کمرے کو بیڈ روم کا روپ دیا گیا تھا اس میں پہلے ہی سے اوپر
نیچے چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں جبکہ ہمارے گھر کے باہر ایک بھینس بندھی
ہوئی تھی جو ہر پنجابی خاندان کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ریل کے ڈبے جیسے ہمارے
گھرکو دیکھ کر بیگم پریشان تو ہوئی ہوگی لیکن جب اسے پتہ چلا کہ اس کے نصیب
میں اسی چھوٹے سے ڈبے میں رہنا لکھ دیا گیا ہے تو اسے اوپر والی چارپائی پر
بیٹھا دیاگیا۔زندگی کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا ، میری زندگی جو کبھی
اداسیوں کا گہوارا ہوا کرتی تھی اس میں ہرطرف سے بہار آ چکی تھی ۔یہ بہار
میری بیگم اپنے ساتھ ہی لائی تھی ، میں اپنے والدین کا نکما اور نکھٹو بیٹا
تھا لیکن شاد ی کے بعد نہ صرف میری عزت میں اضافہ ہوا بلکہ خاندان کے اہم
ترین معاملات میں بھی میری رائے پوچھی جانے لگی ،یہ اعزاز اور مقام مجھے
شادی کے بعد ہی ملا ۔پہلے یہ کہہ کر مجھے خاندان کے بڑے بھگا دیتے تھے کہ
بچوں کا کیا کام بڑوں کی باتوں میں ۔اب مجھے خاندان کا سیانا اور معزز ہونے
کا اعزاز حاصل ہوچکا تھا۔بیگم کی اسی محبت کی بدولت اﷲ تعالی نے مجھے ایک
بیٹی اور دو بیٹوں سے نوازا۔رہنے کے لیے اپنا گھردیا ۔اب تینوں بچوں کی
شادیاں ہوچکی ہیں اورمیرے آنگن میں پوتے پوتیاں اور نواسوں کی شرارتیں اور
خوش بوئیں مہکتی ہیں ۔قومیت اور زبان کے فاصلے یکسر مٹ چکے ہیں ۔اب نہ میں
خود کو ٹھیٹ پنجابی کہہ سکتا ہوں اور نہ بیگم خود کو لکھنوی گھرانے کی بیٹی
سمجھتی ہے ۔خاندانوں کے مابین فاصلے مٹ چکے ہیں ،محبتیں پروان چڑھ چکی ہیں
۔ہمارے غم ان کے غم ، ہماری خوشیاں ان کی خوشیاں بن چکی ہیں اور ان کی
خوشیاں اور غم ہمارے ہوچکے ہیں ۔ یہ ہماری شادی کی 43ویں سالگرہ ہے۔جس کو
منانے کے لیے ہمارے بچے اور پوتے پوتیاں بہت پرجوش ہیں۔یہ سب اﷲ تعالی کا
فضل کرم ہے جس نے ہم دونوں بلکہ ہمارے خاندان کو ہر لمحے خوشیوں سے
نوازا۔اس لمحے میں میں تہہ دل سے رب کریم کا شکرگزار ہوں ۔ |