اللہ تعالیٰ نے سال میں بارہ مہینے بنائے لیکن ان بارہ
مہینوں میں سے فقط ایک مہینے کو یہ عظمت عطا فرمائی کہ اس کا ذکر اپنی کتاب
لاریب میں کیا۔اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:
"رمضان کا مہینہ وہ(عظیم مہینہ ہے)جس میں قرآن نازل کیاگیا ہے۔"(البقرة، 2:
185)
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے رمضانچالمبارک ذکر رمضان کا نام لے کر
فرمایااور یہ بھی واضح فرمادیاکہ اس مہینے کو جن وجوہات کی بنا پر عظمت ملی
ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب
قرآن نازل فرمائی۔
رمضان کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم ماہ رجب میں ہی ماہ رمضان تک پہنچنےکی دعا فرمایا کرتے تھے۔حضور صلی
اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہوا کرتے تھے:
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَ شَعبَانَ
وَبَلِّغْنَارَمَضَان۔"اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت
عطافرمااور ہمیں رمضان تک پہنچادے۔" (کنزالعمال ،حدیث: 18049)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو ماہ رمضان کا کتنا انتظار ہوتاتھا۔رمضان کی عظمت و شان کے
لیےیہ بات کافی ہے کہ اس مہینے تک پہنچنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم اتنے اہتمام سے دعا فرمایا کرتے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک مہینے کابڑے اہتمام کے ساتھ استقبال
بھی فرمایا کرتے۔ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام سے تین
مرتبہ دریافت فرمایا:"کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال
کر رہے ہو؟"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم!کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:نہیں۔ عرض کیا: کیاکوئی دشمن آرہا ہے؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: نہیں۔ عرض کیا:پھر کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:"بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہل قبلہ کو بخش
دیتا ہے۔"(الترغیب والترہیب،حدیث: 1502)
یعنی نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی دشمن آرہا ہےبلکہ اللہ کا
عظیم مہینہ رمضان آرہا ہے جس کی پہلی ہی رات میں تمام اہل قبلہ کی بخشش و
مغفرت کر دی جاتی ہے۔
اس عظیم مہینے کی آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا
نزول ہوتاہے ۔اس مبارک مہینے کی پہلی ہی رات میں آسمان کے دروازے کھول دیے
جاتے ہیں جہاں سے اللہ کی رحمتوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہتی ہے اور جہنم
کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ۔انسانوں کو شیاطین اورسرکش جنوں کے شر سے
بچانے کے لیے تمام شیاطین اور سرکش جنوں کو قید کردیا جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا:"جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے
ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا
جاتا ہے۔")صحیح بخاری،حدیث:1800)
ایک دوسری روایت میں فرمایا کہ اس مہینے میں اللہ جنت کے دروازے کھول دیتا
ہے۔اللہ تعالیٰ اس مہینے میں اپنے بندوں کو نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے
کے لیے غیبی مدد فرماتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:"جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے توشیطانوں اور سرکش جنوں
کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں ۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پس ان
میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں
پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا
ہے۔اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی!رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں
کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔اورماہ رمضان کی ہر رات یوں ہی ہوتا رہتا
ہے۔"(جامع ترمذي ،حدیث:682)
ایک مقام پر اس مبارک مہینے کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :
"اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا پتا ہوتا تو وہ خواہش کرتے کہ
پورا سال رمضان ہی رہے۔"(صحیح ابن خزیمہ،حدیث:1886)
یعنی ہم رمضان کی کما حقہ قدر نہیں کرتے ۔اگر ہمیں رمضان کی کما حقہ قدر ہو
جائے کہ کس طرح اس مہینے میں رب اپنے بندوں کی بخشش کا اہتمام فرماتا ہے
اور کس طرح اس مہینے میں رب کی رحمتوں کا سیلاب امڈ آتا ہے تو ہم یہ تمنا
کریں کہ پورا سال رمضان ہی رہے اور ہم اسی طرح رب کی رحمتوں سے فیض یاب
ہوتے رہیں۔
جو شخص رمضان کے مہینے میں بھی اپنی بخشش نہ کرواسکےاسےنبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے بڑا ہی بد نصیب انسان قرار دیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : "رمضان المبارک کا مقدس مہینہ
آگیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، دوزخ کے دروازے بند کر
دیےجاتے ہیں اور اس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد نصیب
ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس مہینے
میں بھی بخشش نہ ہوئی تو پھر کب ہو گی؟"(الترغیب والترهیب،حدیث:1492)
بلکہ ایک موقع پر تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل ؑ کی دعا پر
آمین فرما کر یہاں تک واضح فرما دیا کہ جو شخص اس بخشش و مغفرت کے مہینے
میں بھی اپنی بخشش نہ کراسکا تو وہ ذلیل وخوار ہوگیا۔
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا:"منبر کے پاس آجاؤ، ہم آ گئے۔ جب ایک درجہ چڑھے تو
فرمایا:آمین ۔جب دوسرا چڑھے تو فرمایا:آمین۔ اور جب تیسرا چڑھے توپھر
فرمایا: آمین۔ جب اترے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہم نے آج آپ سے ایک
ایسی چیز سنی ہے جو پہلے نہیں سنا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: جبرائیل ؑ میرے پاس آئے اور کہاوہ شخص ذلیل و خوار ہوگیا جسے رمضان
ملا لیکن اسے بخشا نہ گیا ۔ میں نے کہا:آمین۔ جب میں دوسرے درجے پر چڑھا تو
انہوں نے کہا:وہ شخص ذلیل وخوار ہوگیا جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کا نام لیا گیا اور اس نےآپ پر درود نہ بھیجا ۔ میں نے کہا:آمین۔جب میں
تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا:وہ شخص ذلیل وخوار ہوگیا وہ جس شخص کی
زندگی میں اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوگیا اور انہوں نے
اسے (خدمت و فرمانبرداری کے باعث) جنت میں داخل نہ کیا۔ میں نے
کہا:آمین۔"(مستدرک للحاکم،حدیث:7356)
ایک موقع پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےرمضان سے پہلے ایک خطبہ ارشاد
فرمایا جو اس ماہ مبارک کی عظمت و شان کو واضح کرتا ہے ۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک
عظیم الشان اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہو گیا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے
جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کر دیا ہے
اوراس کی راتوں میں قیام کو نفل کردیا ہے۔ جو شخص اس میں قرب الٰہی کی نیت
سے کوئی نیکی کرتا ہے تو ایسا ہی ہے جیسے اس نے دیگر مہینوں میں فرض ادا
کیاہے اور جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں
ستر فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہےاور صبر کا ثواب جنت ہی ہے۔ یہ غم
خواری کا مہینہ ہےاور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔
جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کی افطاری کرائی تواس کے گناہ معاف ہوجاتے
ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ نیز اسے اس (روزہ دار) کےثواب کے
برابر ثواب ملتا ہےاور اس سے اس کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے ہر ایک روزہ
افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا پانی پلانے یا دودھ کا
ایک گھونٹ پلا کر افطاری کرانے والے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس مہینے کا
ابتدائی حصہ رحمت ہے۔ درمیانہ حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی ہے۔
جوشخص اس مہینے میں اپنے ملازم پر تخفیف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا
ہے اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔ اس میں چار کام زیادہ سے زیادہ کرنے
کی کوشش کرو۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے اور دو کاموں کے
بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ جن دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو
راضی کروگے ان میں سے ایک لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اور دوسرا اس
سے بخشش طلب کرنا ہے۔ جن دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ان
میں سے ایک یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ ہے کہ
دوزخ سے پناہ مانگو۔ جس شخص نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کے
کھلایا، اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سےاتنا پانی پلائے گاکہ اسے جنت میں داخل
ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔(صحیح ابن خزیمہ،حدیث:1887)
الغرض رمضان ہی وہ عظیم مہینہ ہے جس کانام قرآن میں مذکور ہے۔اسی مہینے
کویہ شرف حاصل ہے کہ اس تک پہنچنے کی دعائیں ہمارے پیارے آقاحضرت محمد
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔اسی مہینے میں جنت کے دروازے
کھول دیے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین اور سرکش
جنوں کو قید کردیا جاتا ہے۔ یہی وہ عظیم مہینہ ہے جس میں بے شمار انسانوں
کو بخش دیا جاتا ہے۔جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کاثواب
ستر فرائض کے برابر ملتا ہے۔جس میں شب قدر جیسی عظیم رات ہے۔جس میں روزوں
کے ذریعے انسان تقویٰ اور ضبط نفس کی صفات سے متصف ہو جاتا ہے۔یہ رحمتوں
اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے۔یہ رب کی خاص
عنایتوں کا مہینہ ہےاورسب سے بڑھ کر یہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ اور محبوب مہینہ ہے۔
|