خودکشی کے رجحان کی بڑی وجہ ڈپریشن !

ہر 40سیکنڈ میں دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے:

یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق کے مطابق جتنا زیادہ وقت ہم سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم تنہا محسوس کر سکتے ہیں اور اداسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔لیکن اس کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔سوشل میڈیا انسان کے اصل احساسات کے بارے میں بھی بتا سکتا ہے۔اس تحقیق کی مصنف ملیسا ہنٹ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا عام طور پر معمول سے کم استعمال آپ کو تنہائی اور ڈپریشن میں کمی کی طرف لے کر جائے گا۔یہ نتائج اور اثرات بطور خاص ان لوگوں کے بارے میں بتائے گئے جو اس تحقیق کا حصہ بنے اور بہت زیادہ ڈپریشن کا شکار تھے۔لیکن سوشل میڈیا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔مشیگن یونیورسٹی میں علم نفسیات کے پروفیسر اوسکر یبارا کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر جو ہوتا ہے وہ کم ہی اصل زندگی کی عکاسی کرتا ہے، اگرچہ ہم اس میں مدد نہیں کر سکتے لیکن موازنہ کر سکتے ہیں ‘ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ سوشل میڈیا کے اثرات کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے کہ ایسا ہو رہا ہے لیکن یہ ہوتا ہے۔‘

حکومت سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی جانب سے ایک سمینار25مارچ کو منعقد کیا گیا ۔ تقریب میں صوبہ سندھ میں پانچ برس کے دوران خودکشیوں کے حوالے سے ہوش الربا حقائق پیش کئے۔ تحقیق کے مطابق2016تا2020تک کل 767خود کشی کی کیس رپورٹ ہوئے۔ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں 79، بدین 77، دادو73، میر پور خاص 70، سانگھڑ 66، عمر کوٹ 64، ٹنڈو اﷲ یار40، ٹنڈو محمد خان33،نوشہرو فیروز31،حیدرآباد28،ڈسٹرکٹ ملیر24،کراچی ویسٹ 19،کراچی ایسٹ 12، کراچی ساؤتھ 12، کراچی سینٹرل08، شکار پور23، شہید بے نظیر آباد 18،سجاول 18، جامشورو 14، ٹھٹہ 13،گھوٹکی 12،میٹیاری 10، جیکب آباد 07، قمبر شہداد کوٹ 05،خیر پور 04،لاڑکانہ 03،سکھر03اور کشمور میں ایک خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے ، ذرائع کے مطابق تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے ۔جہاں عزت و غیرت کے نام پر قتل ہونے والے مبینہ واقعات کی پولیس میں رپورٹ نہیں کی جاتی۔سندھ کے بیشتر اضلاع میں 462مرد اور 301خواتین نے خود کشیاں کیں۔ Study of registered case of suicide Aکی پانچ برس پر مشتمل رپورٹ کے مطابق 21سے30برس کے درمیان خودکشی کرنے والوں کی تعداد 57.5%، جب کہ 31سے40سال کے درمیان 24%، بتائی جاتی ہے ۔ شادی شدہ افراد میں 33%افراد میں خود کشی کا رجحان زیادہ ہے۔ شہر کراچی میں 28.3%شادی شدہ جب کہ 21%غیر شادی شدہ افراد نے خود کشی کی۔لاڑکانہ ، سکھر ، شہید بے نظیر آباد میں50فی صد شادی شدہ افراد نے خود کشیاں کیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری علاقوں میں خودکشی کرنے کے رجحان میں اضافہ پایا جاتا ہے۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق صوبہ سندھ میں، پچھلے 5 برس میں 1300 سے زائد افراد نے اپنے ہی ہاتھوں زندگی کا خاتمہکیا۔ عمر کوٹ، تھر اور میرپور خاص میں خودکشی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ، صرف عمر کوٹ، میرپور خاص اور تھر پارکر میں 646 واقعات رپورٹ کیے گئے، خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور خواتین کی ہے، پچھلے ایک سال میں ان تین اضلاع میں 160 افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ جب کہ دس سے15برس کی کم عمر بچوں کی6.1فیصد تعداد نے خود کشی کی ۔

قابل غور اَمر یہ بھی ہے کہ معاشرے میں خودکشیوں کے رجحان کو سندھ کے دیہی علاقوں میں مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے ، یا پھر غربت کو وجہ قرار دی جاتی ہے ۔ ہمارے سامنے دنیا بھر میں کئی چونکانے والے ایسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں کہ ایسی مشہور شخصیات نے بھی خود کشیاں کیں جن کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی نیز انہیں شہرت و احباب کی بڑی تعداد بھی میسر تھی ، لیکن اس کے باوجود ڈیپریشن کی درست تشخیص نہ ہونے کے باعث انتہائی اقدام کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں ، اسی طرح قدامت پسند معاشرے میں غیرت کے نام یا پھر فرسودہ رسم و رواج کے نام پر قتل کئے جانے والے متعدد واقعات کو مبینہ طور پر خود کشی سے جوڑ دیا جاتا ہے ، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ درست تفتیش نہ ہونے یا لاپرواہی کے باعث ایسے کئی قتل کے واقعات کو مبینہ طور پر خود کشی قرار دے کر فائل بند کردی جاتی ہے۔ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی بھی بڑی تعداد خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، ماہر سماجیات کی رائے کے مطابق شادی کا فیصلہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کی ذہنی و تعلیمی مطابقت کو نظر انداز کرتے ہوئے والدین اس خوف سے رشتے طے کردیتے ہیں کہ کہیں اچھا رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔میاں بیوی کے سماجی پس منظر، تعلیم، عمر اور سوچ میں فرق نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی خودکشی پر مائل کردینے والے عوامل ہیں، جہیز کی لعنت سے متاثرہ لڑکیاں بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہوتی دیکھی گئی ہیں ، گذشتہ دنوں ایک نوجوان لڑکی نے اپنے سسرال والوں کی جانب سے جہیز کی مزید مانگ اور طعنوں سے تنگ آکر خودکشی کی اور ویڈیو بنا کر معاشرے کے امتیازی و دوہرے معیار رویئے پر بے نقاب کردیا ۔ہراسانی اور گھریلو تشدد بھی دیگر محرک عوامل میں شامل ہیں۔ جب کہ معاشی تنگی اور دیگر سماجی مسائل بعد کے عوامل ہوتے ہیں۔ آبرو ریزی اور جنسی ہراسانی سے بھی خود کشی کے کچھ واقعات ہوئے ہیں۔

ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان غیرمعمولی حالات میں ہی اپنی زندگی کے خاتمے جیسا انتہائی قدم اٹھاتا ہے۔ خودکشی کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے، جس کی وجہ سے انسان خود کو بے بس اور بے یار و مددگار سمجھنے لگتا ہے۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب بہتری کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو مایوسی میں وہ اپنی زندگی ختم کرلیتا ہے۔ ماہرین ذہنی امراض کا کہنا ہے کہ جدید سماجی ڈھانچے کی بدولت لوگوں پر دباؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن، معاشرے نے اس دباؤ کو ختم یا کم کرنے کے لیے مدد کا کوئی نظام نہیں بنایا۔سماجی طور پر کوئی مدد دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خودکشی جیسا قدم اٹھاتے ہیں۔ ماہرین اس خیال سے بھی متفق نہیں ہیں کہ خودکشی کرنے والے لوگوں کی اکثریت نے غربت کی وجہ سے اپنی جان لی ، عمومی طور پر بنیادی وجوہ میں مرد کا اپنے مسائل کے بارے میں کم بات کرنا قرار دیا جاتا ہے ، ماہرین ضروری خیال کرتے ہیں کہ مردوں کو اپنے مسائل سے متعلق زیادہ بات کرنے کی عادت کو اپنانا چاہیے۔کسی بھی مرد و عورت کا ڈیپریشن کا شکار ہوکر موت کی جانب رجحان پر مائل ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کا اثر انسان کی ذہنی صحت پر ہو سکتا ہے۔

آکسفوڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انھیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔اہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انھیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے،اس حساب سے ہر 40سیکنڈ میں دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔

یہ ریاست کے ساتھ ساتھ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین یا گھروں میں عائلی مسائل کا اجتماعی مسئلہ ہے، خو د کشی ایک بڑا انتہائی اقدام ہے جس کے اثرات سے اُس شخصیت کا پورا خاندان براہ راست متاثر ہوجاتا ہے اور آنے والی نسل میں خود کشی کے رجحان کو توقعت ملتی ہے۔سندھ حکومت نے دیہی و شہری علاقوں میں خودکشی کے بڑھتے واقعات کے نتیجے میں اگاہی کی فراہمی کے لئے ایک مثبت عمل کا آغاز کیا ہے ، سماجی طور پر اہمیت رکھنے والی شخصیات نے ذمے داریوں کے تعین اور سدباب کے لئے لائحہ عمل پر مشاورتی عمل کا آغاز کیا ہوا ہے ، تاہم سرکاری اداروں کا ہر فرد یا اُس کے گھر پہنچنا ممکن نہیں ہوسکتا ، اس کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو انفرادی فرض سمجھ کر ذمے داری اٹھانا ہوگی اور ڈیپریشن کے شکار افراد کو معاشرے کا اہم فرد قرار دے کر، سماجی ذمے داری کو نبھانا ہوگا۔ ہم ریاست یا حکومت پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے ، لیکن حکومت کو ایسے اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے جس کے باعث معاشرے میں ناہمواری پیدا ہوتی ہے ، فرد شدید ڈیپریشن کا شکار ہوجاتا ہے ، مختلف حالات کے سدباب کے لئے اُن اداروں کے مالکان بھی ملازمین کے مسائل کو دیکھیں ، انہیں دباؤ کے حوالے کرنے کے بجائے ایک ایسا ماحول فراہم کریں جس سے وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ترقی کی منازل بھی طے کرے اور درپیش مسائل کو اپنے احباب کے ساتھ شیئر کرنے میں تامل یا بہانے تراشنے سے گریز کرے تاکہ وہ خود کشی کے انتہائی اقدام کا سوچنے سے بھی گریز کرے۔ادارے کو مزید تحقیق اور اسباب کے سدباب کے لئے دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ناگزیر ہے۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 295977 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.