پوری دنیا میں آبادی کا رحجان شہروں کی طرف ہے۔ نتیجہ یہ
کہ شہر پھیلتے جا رہے ہیں اوراصل شہر اس پھیلتے ہجوم میں گم ہوتے جا رہے
ہیں۔ پرانا شہر آپ کی قدیم تہذیب کا امین ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے بزرگوں کے
رہن سہن ، اپنے آباکا طرز زندگی، ان کی عمارتوں کے طرز تعمیر اور ان کی
پرانی قدروں کو جاننے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔قدیم شہر اور اس کی
عمارتوں کو محفوظ کرنا اور انہیں ان کی اصلی حالت میں محفوط رکھنا نہ صرف
اس ملک کی معیشت کے لئے بہتری کا باعث ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے سیاح اس قدیم
تاریخ میں جاذبیت محسوس کرتے اور اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں بلکہ دنیا
بھر کی پرانی عمارتیں تاریخی ،سیاسی اور سماجی نقطہ نظر سے اپنا ایک خاص
مقام رکھتی اور قوموں کے لئے وقار کا باعث ہوتی ہیں۔ آج دنیا میں بہت سے
ملکوں نے پرانی عمارتوں کے تحفظ کو قانونی تحفظ دے کر ان کی اصل حالت میں
لانے کی پابندی عائد کر دی ہے۔ دنیا بھر میں عالمی اداروں کے تعاون سے
شہروں کے قدیم حصو ں کو محفوظ کرنے کا عمل جاری ہے۔
لاہور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ
دنیا کا چھبیسواں بڑا شہر ہے۔اس کی ابتدا شاید 1000قبل مسیح میں ہوئی ۔مختلف
ادوار میں لاہور پر ہندو، مسلمان اور سکھ حکمران رہے۔ 1799 میں جب رنجیت
سنگھ نے پنجاب پرقبضہ کیا تو اس نے لاہور کی ساری آبادی کو تیع تیغ کر دیا۔
مردوں کی لاشوں سے لاہور کے بازار بھرے ہوئے تھے اور شہر بھر کی عورتیں
اپنی عزت بچانے کے لئے کنوؤں میں کود کر جان دے گئی تھیں۔ رنجیت سنگھ نے
شہر کو ایک بار نئے سرے سے بسایا۔ شہر کے ارد گرد رہنے والے ارائیں برادری
کے لوگ رنجیت سنگھ کی دعوت پر بڑی تعداد میں شہر میں آ کر آباد ہوئے۔ میرا
ننہیال بھی شاید اسی دور میں لاہور میں آباد ہوا۔شاہ عالم مارکیٹ سے آپ
سیدھے اندرون شہر کے مرکز کی طرف جائیں تو اس سڑک کے آخر پر ایک طرف کشمیری
بازار اور دوسری طرف ڈبی بازار ہے ۔ بالکل درمیان میں شاہ عالم کی سڑک سے
سیدھے ’’حویلی کابلی مل‘‘ کے نام سے ایک معروف محلہ ہے ۔ میری پیدائش اسی
محلے کی ہے۔بڑا پرسکون محلہ تھا۔اس کے کارنر پربائیں طرف رمضان کی شیشے کی
دکان تھی۔ گلی کے اندر بائیں طرف ایک نلکیوں کی دکان تھی جس کے پاس گارمنٹس
کی دیگر چیزیں بھی تھیں۔ چند قدم آگے بائیں طرف ایک ہوٹل اور دائیں طرف
محلہ ’’بلا کبوتر باز‘‘ تھا۔پھر چھوٹی چھوٹی دکانوں کا ایک سلسلہ تھا۔
تھوڑا آگے گلی دو حصوں میں بٹ جاتی تو بائیں طرف موتی بازار تک کوئی دکان
نہیں تھی۔ دائیں جانب والی گلی میں چند گنی چنی دکانیں۔ دونوں گلیوں کے
درمیان میں ہماری حویلی تھی جس کے پندرہ پندرہ فٹ کے گیٹ دونوں گلیوں میں
کھلتے تھے۔ ہماری حویلی کے آخر میں کوڑا پھینکنے کی جگہ تھی جسے بعد میں
لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ آگے گلی پھر دو حصوں میں بٹ جاتی۔ وہیں
انگریزی لفظV پر چھاری کی جنرل سٹور نما دکان تھی جو اس گلی کی شاید سب سے
بڑی دکان تھی۔ وہاں کی چند دکانوں کے بعد ایک طرف گلی بانساوالے طویلے سے
شیرانوالا کوجاتی اور دوسری طرف اعظم کلاتھ مارکیٹ تک۔ دکانوں کے اعتبار سے
یہ دونوں گلیاں بالکل بانجھ تھیں۔
پچھلے ہفتے مجھے اندرون شہر جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے اعظم کلاتھ مارکیٹ
جانا تھا۔ سوچا اپنے محلے سے گزرتا جاؤں۔ مگر یہ کیا۔ محلہ مکمل تبائی کا
شکار تھا۔ بجائے یہ کہ میں اعظم کلاتھ مارکیٹ جاتا، اعظم کلاتھ میرے محلے
میں در آئی تھی۔ڈبی بازار سے شیرانوالا تک کوئی ایک مکان اپنی اصلی حالت
میں نہیں تھا۔ چھوٹے چھوٹے مکانوں کے اندر پندرہ پندرہ دکانیں ۔ہماری حویلی
بھی اب ایک پلازہ کی صورت اختیار کر چکی۔ساتھ والی لائبریری کا نشان بھی
نہیں تھا، میں دیکھ رہا تھا کہ وہاں نہ کوئی پرانا مکان نہ ہی کوئی پرانا
مکین۔ کچھ بھی وہ نہیں رہا۔کوئی لائبریری ، کوئی مجلسی تھڑا، نہ شہر کے
مکینوں کے بیٹھنے والی کوئی دوسری جگہ۔ ہر طرف زیادہ ترکپڑے کی دکانیں تھیں
اورکپڑے کی دکانوں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ان ماکیٹوں نے لاہور کا
کلچر ہی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
حکومت لاہور کو محفوظ کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے ورلڈ بنک کے
تعاون سے ’’ والڈ سٹی آف لاہور‘‘ کے نام سے ایک محکمہ بنایا ہوا ہے جس کا
کام لاہور کو اس تبائی سے بچانا ہے۔مگر وہ محکمہ دکھاوے کے چند کاموں کے
علاوہ کچھ نہیں کرتااس محکمے نے چند عمارتیں اور چند گلیاں کوشش کرکے پرانے
انداز میں بحال کی ہیں۔ سرجن کی گلی کا حال دیکھیں۔ اسے ایک نیا انداز دیا
گیا ہے مگر وہ لاہور کا پرانا انداز بالکل بھی نہیں۔ بہر حال یہ لمبی بحث
ہے مگر اس محکمے کا اصل کام لاہور کو بڑھتی ہوئی مارکیٹوں کی دست برد سے
بچانا ہے ، محفوظ رکھنا ہے جس میں وہ محکمہ بالکل ناکام ہے۔آج پرانے لاہور
کا ہر مکان مارکیٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس تبدیلی میں روکنے کے ذمہ
دارتمام لوگ بجائے نئی وجود میں آتی مارکیٹ کوروکنے کے بڑی دلیرسے لاہور کو
مزید تباہ کرنے میں پوری طرح شریک ہوتے ہیں۔ انہیں لاہور کی بربادی سے کوئی
غرض نہیں۔ آپ نے کوئی مکان گرا کر مارکیٹ بنانی ہے دلیری سے بنائیں۔ پولیس،
بلڈنگ انسپکٹر، ریونیو سٹاف اور لاہور کی حفاظتی کمپنی اپنا حصہ وصول کرکے
آنکھیں بند کر لیں گے۔حکومتی سطح پر بھی ابھی تک شاہ عالمی، اعظم کلاتھ
ماکیٹ، اکبری منڈی اور بہت سی دوسری مارکیٹوں کو لاہور کے قریب کسی بہتر
جگہ منتقل کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش کبھی نظر نہیں آئی۔حکومت کو سوچنا ہو گا
کہ لاہور کو بربادی سے بچانے کے لئے ان مارکیٹوں کا ہٹنا بہت ضروری ہے۔
|