دَم اور دُم

پاکستان کے اندردندناتے چند شیطان اورمٹھی بھر نادان دوست اس کی سا لمیت ،حمیت اورمعیشت کیلئے ہمارے فطری دشمن سے ہزارگنا" بدتر" ہیں ورنہ آج ہماری ریاست کی حالت اس قدر"ابتر" نہ ہوتی۔ہمارادشمن توہمارے ساتھ دشمنی نبھانے میں حق پر ہے لیکن ہمارے نادان دوست کیوں پاکستان کوکمزورکرنے کیلئے ہلکان ہورہے ہیں۔دشمن کی طرح کوئی نادان دوست بھی قابل رحم نہیں ہوسکتا، ہمیں دشمن کاناطقہ بندجبکہ اپنی صفوں میں دیمک نما عناصرکا محاصرہ اورمحاسبہ کرناہوگا۔ مادروطن کے دشمن تواپنی فطرت سے مجبور لیکن ہمارے اپنے گمراہ عناصرکیوں اپنی اپنی انا کے قلعہ میں محصور ہیں،قومی سیاست میں سرگرم ان شدت پسندوں کی شخصیت کیلئے ریاست کا حال اورمستقبل داؤپرنہیں لگایاجاسکتا ۔آج اندرون وبیرون ملک ان کرداروں کانام ومقام مادروطن اوراس کے قابل رشک اداروں کے" دَم" سے ہے لہٰذاء اگروہ اپنی اوقات میں رہیں تو ہم اہل قلم بھی ان کی "دُم" پر ہرگزپاؤں نہیں رکھیں گے۔جوحضرات ریاست اورریاستی اداروں کی اہمیت سمجھناچاہتے ہیں وہ سراپاپاکستانیت لیفٹیننٹ جنرل(ر) حمید گل کے روشن ضمیر فرزند ارجمند عبداﷲ گل کی صحبت میں بیٹھنا شروع کردیں ،عبداﷲ گل کے قرب سے ان کے قلوب میں مادروطن کی محبت ضروربیدارہوگی ۔"آسمان سے گراکھجورمیں اٹکا "کے مصداق ہمارا محبوب وطن پاکستان "شریف" شعبدہ بازوں کے چنگل سے نکل کر " بدقسمتی سے ـ"شر-آفت"کے علمبردار بلے بازوں،بزداروں اورشعبدہ بازوں کے شکنجے میں آگیاہے ۔میں مسلسل لکھتا آرہا ہوں، "ارباب اقتدارواختیار کی من مانیاں ، بدعنوانیاں قابل گرفت ہیں۔تخت اسلام آباد سے تخت لاہورتک پھیلی بدانتظامی اور انتقامی روش ریاست کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کیلئے بھی زہرقاتل ہے" ۔جس طرح ہمارا پاکستان ایک " بلے باز" کے ـ"پلے "پڑ جانے سے تختہ مشق بناہوا ہے اس طرح ایک طرف ریاستیـ" اداروں" کوسیاسی وانتظامی اشرافیہ کے مذموم "ارادوں "سے خطرہ ہے جبکہ دوسری طرف آئی جی پنجاب انعام غنی پولیس کلچر کوکچرے کاڈھیربنا نے کے درپے ہیں۔چشم تصور سے اس بیمار کی حالت زار دیکھیں جوہرچندماہ بعد کسی نئے نیم حکیم کے ہاتھوں تختہ مشق اورپھرایک دن لقمہ اجل بن جائے۔پنجاب پولیس میں مثبت تبدیلی کیلئے اصلاحات اورانتظامی اقدامات کاتسلسل ناگزیر ہے لیکن بدقسمتی سے پولیس کلچر کا کچومربنانیوالے کوئی اورنہیں اس محکمے کے اپنے لوگ ہیں کیونکہ گھر کے بھیدی کے سواکوئی لنکا نہیں ڈھاسکتا ۔انعا م غنی نے اپنے پیشروآئی جی حضرات کے تجربات اوراپنے مشاہدات سے سیکھنے کی بجائے متنازع اقدامات شروع کردیے۔آئی جی پنجاب کی طرف سے مقدمات میں ملوث ایس ایچ اوزکی معطلی کے احکامات سنے تو مجھے وفاقی وزیرہوابازی غلام سرورخاں یادآگئے ،جس طرح غلام سرورخاں نے پی آئی اے کو"گراؤنڈ "اوراس کے قابل کپتانوں کوبھی بدنام کردیا اس طرح انعام غنی نے بھی پنجاب پولیس کی ابھرتی ہوئی مثبت شہرت اوراس کے مورال پرشب خون ماردیاہے ۔

راقم کاناقص علم کہتا ہے جو زندگی میں تھانہ کلچر کاحصہ نہیں رہاوہ پولیس کلچر نہیں بدل سکتا۔بی اے ناصر،غلام محمودڈوگر ،اشفاق احمدخان ،ساجدکیانی،شہزادہ سلطان،شہزاداکبر،وقاص نذیر،سلطان احمدچوہدری ، رفعت مختارراجا ، خرم علی شاہ ، افضال احمدکوثر،شارق جمال خان،امیرعبداﷲ خان نیازی اورمحمدنوید سمیت بیشتر پی ایس پی زمین پربیٹھنا اورزمین پرچلناپسندکرتے ہیں لیکن کچھ "پی ایس پی "حضرات پر" پیراشوٹرپولیس" کی اصطلاح صادق آتی ہے۔ پیراشوٹرپولیس کانمائندہ طبقہ اپنے پاس انصاف کیلئے آنیوالے "سائل "کی عزت نفس کو"گھائل "کرتا جبکہ اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کو"بھوت "اور"اچھوت" سمجھتا ہے ۔وہ انعام غنی جوپنجاب پولیس کے ترجمان کی حیثیت سے بری طرح ناکام رہے،کپتان نے انہیں آئی جی پنجاب کاعہدہ "انعام" میں دے دیا ۔انعام غنی جس روز آئی جی پنجاب بنے موصوف اس دن سے سی پی اومیں محصور ہیں اورانہوں نے وہاں سے ہینڈ آؤٹ پرہینڈآؤٹ جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔کپتان کی طرح آئی جی پنجاب کوبھی روزانہ کی بنیادپر سطحی اجلاسوں کی صدارت کرنے اوراپنی میڈیا ٹیم کی مدد سے عوام کوگمراہ کرنے کے سواکچھ نہیں آتا،پچھلے دنوں تبدیلی سرکارنے پنجاب میں ساتویں بار آئی جی کو تبدیل کرنے پرغورشروع کیا تو انتظامی طورپر"آؤٹ" انعام غنی اپنا منصب بچانے کیلئے میڈیامیں مزید "اِن "ہوگئے۔ پنجاب پولیس کی ناکامی اوربدنامی کے باوجود آئی جی پنجاب میڈیا پراپنی گرفت بنائے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں جہاں بھی اجتماعی قتل یابچوں اورخواتین کے ساتھ زیادتی کا کوئی دلخراش واقعہ رونما ہوجائے اس پرسی پی او کے شعبہ اطلاعات کی طرف سے"آئی جی پنجاب نے نوٹس لے لیا" کاایک مستقل ہینڈآؤٹ ایشو تاہم اس میں صرف شہراورمرکزی کردارکانام تبدیل کردیاجاتا ہے۔سی پی او کے ڈی پی آراپنے گھر سے رات گئے آئی جی پی کاری ایکشن میڈیا کوبھجوادیتے ہیں اورکپتان سمجھتا ہے آئی جی پنجاب بہت بیداراور مستعد ہیں۔

آئی جی پنجاب کی موثر میڈیا مہم سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن لاہور سمیت پنجاب کے طول وارض میں ان کی اصلاحات اوراس کے اثرات کاکوئی وجود نہیں ہے۔انعام غنی خیبرپختونخوامیں بحیثیت آئی جی جا نے کے خواہاں ہیں ،پنجاب پولیس کیلئے بہترہوگاانہیں وہاں جانے دیاجائے شاید وہ وہاں ڈیلیور کرسکیں ۔ سابقہ آئی جی حضرات حاجی حبیب الرحمن ، محمدطاہراور شعیب دستگیرتینوں فرض شناس کمانڈر اوروہ بیجاٹرانسفر پوسٹنگ کیخلاف تھے۔حاجی حبیب الرحمن ، محمدطاہراورشعیب دستگیر کے ہرایک" احکام" میں" استحکام " جبکہ ان کی محکمانہ اپروچ میں" دوام" تھا،وہ ہرچندماہ بعدایک نیا تجربہ نہیں کرتے تھے۔ان تینوں میں سے دوکرداروں یعنی محمدطاہراورشعیب دستگیر کوتبدیلی سرکار کا دباؤمسترد اورآبرومندانہ انکار کرنے پرہٹایاگیاتھا۔حاجی حبیب الرحمن ، محمدطاہراورشعیب دستگیر پنجاب پولیس کوکافی حد تک سیاسی مداخلت سے پاک رکھنے میں کامیاب رہے لیکن انعام غنی کاپولیس کلچر کی "تبدیلی" نہیں بلکہ اپنے باصلاحیت ماتحت آفیسرز کے اندھادھند" تبادلے" کرنے پرفوکس ہے۔ زیرک اورانتھک ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصر سمیت پنجاب کے متعدد نیک نام آفیسرز دوسرے اداروں یا صوبوں میں چلے گئے کیونکہ انعام غنی اپنا منصب محفوظ بنانے کیلئے تبدیلی سرکار کو" انکار" نہیں کرسکتے ۔ پولیس کلچر میں دوررس تبدیلی کیلئے بی اے ناصر،غلام محمودڈوگر، اشفاق احمد خان اورمحمدنوید جوکلیدی کرداراداکرسکتے ہیں وہ کوئی اورنہیں کرسکتا،اس سلسلہ میں ریٹائرمنٹ کے باوجود حاجی حبیب الرحمن ،محمدطاہراورکیپٹن (ر)محمدامین وینس کے تجربات اورمشاہدات سے بھی مفیدکام لیاجاسکتا ہے۔

لاہورسمیت پنجاب بھر سے وہ ایس ایچ اوزجومختلف دفعات کے تحت مقدمات میں نامزد ہیں انہیں معطل کرنااورکام کرنے سے روکنا پنجاب پولیس کی بدقسمتی ہوگی ۔میں انعام غنی سے پوچھتاہوں کیا مقدمات میں" نامزدگی" کے بغیرایس ایچ اوز کیلئے ہرطرح کی "حرامزدگی" جائز ہے ۔جوایس ایچ اومجرمانہ سرگرمیوں میں براہ راست ملوث یاشرپسند عناصر کاسہولت کارہو اسے ضرورمعطل بلکہ گرفتارکریں لیکن بوگس مقدمات کی آڑ میں ایس ایچ اوز کو ہٹانا "انتظامی" نہیں بلکہ "انتقامی" اقدام تسلیم کیاجائے گا۔اس طرح تو آصف علی زرداری ،میاں نوازشریف ،میاں شہبازشریف ،صدرمملکت عارف علوی ،وزیراعظم عمران خان اور متعدد وفاقی وصوبائی وزراء بھی مختلف مقدمات میں نامزد رہے جبکہ یوسف رضاگیلانی عدالت سے سزایافتہ ہیں لیکن انہوں نے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ کیلئے صادق سنجرانی کا مقابلہ کیا اوراب موصوف سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں ،انہیں ان کے عہدوں سے کون ہٹائے گا۔کیا آئی جی پنجاب کا"زور"صرف اپنے ماتحت اور"کمزور"ایس ایچ اوز پرچلتا ہے جبکہ مقدمات میں نامزد وزیراعظم کووہ سلیوٹ کرتے ہیں۔ان ایس ایچ اوزکوکس طرح فراموش کیاجاسکتا ہے جو شرپسندعناصرکامقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش اورپولیس کانام روشن کرتے رہے ۔جہاں تک ایس ایچ اوز کیخلاف مقدمات کاتعلق ہے تو ایک" ملزم" کوعدالت سے" مجرم" ڈکلیئرہونے تک کسی قسم کی سزانہیں دی جاسکتی۔میں ایک ڈی آئی جی کوجانتاہوں جورئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ شہری تیمورریاض کے ساتھ پانچ کروڑکے فراڈ میں ملوث ہے لیکن سابقہ ایس پی صدر لاہورنے مدعی کی تحریری درخواست میں سے اس ڈی آئی جی کانام خذف کروانے کے بعدایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دی تھی ۔ایک دوسرے ڈی آئی جی کوبھی جانتا ہوں جس نے عدالت عالیہ اورعدالت عظمیٰ کے احکامات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے ماتحت ایس ایچ او سمیت اس کے ٹیم ممبرز کیخلاف ایف آئی آر کااندراج نہیں ہونے دیاتھا۔ہمارے ہاں بیشتر مقدمات بے بنیاد ہوتے ہیں لہٰذاء محض انہیں بنیاد بناتے ہوئے کسی کامیڈیا ٹرائل کرنایااسے قصوروار تصور کرنا انصاف نہیں ۔ راقم کے شفیق و مہربان حبیب سابقہ آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن نے اپنے دورمیں ایس ایچ اوز کی توندوں میں توازن پرزوردیا توراقم نے اس وقت بھی اس سوچ کیخلاف لکھا تھا کیونکہ ایس ایچ اوزدوڑکرکسی ملزم کوگرفتار نہیں کرتے بلکہ معلومات اورشواہد کی مدد سے ملزم کی گردن دبوچ لی جاتی تھی۔ شرپسندعناصر کیخلاف کریک ڈاؤن کیلئے توندنہیں دماغ سے کام لیاجاتا ہے اوریقیناصحتمند وجود کے بغیر صحتمنددماغ نہیں ملتا لہٰذاء اب مقدمات میں نامزدہونے کی بنیادپرایس ایچ اوز کی معطلی ایک بھونڈا مذاق ہے۔لاہورپولیس کے پاس فاروق اصغر اعوان ،مدثر اﷲ خان ،محمدعتیق ڈوگر،عبدالواحد ،جاویداقبال چیمہ،محمداظہرنوید ،اسد عباس،عمران قمر پڈانہ،علی شیر اورمحمدبشیر کاکوئی متبادل نہیں۔منتقم مزاج آئی جی پنجاب کے فرمان پرمقدمات میں نامزدایس ایچ اوز کوہٹا نے کی بجائے انہیں محکمے کیلئے مزید مفید بنانے سے پولیس کلچر تبدیل ہوگا۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90219 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.