توریت ٢ رمضان کو نازل ہوٰئی


تحریر: شبیر ابن عادل

توریت ”عبرانی“ زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی قانون ہے۔ قرآنی اصطلاح میں تورات سے مراد وہ کتاب ہے جو عبرانی زبان میں بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اس نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی جو پہلی نازل شدہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے تورات وانجیل نازل کی تھی“۔(آل عمران: 4-3)

زمانہ قدیم میں تحریر قلم وقرطاس سے وجود میں نہیں آتی تھی، بلکہ لوہا، پیتل، پتھر، لکڑی پر نقوش کندہ کردیے جاتے تھے، وہی تحریر کہلاتی۔ روئی اور ریشم سے وجود میں آنے والا کاغذ آٹھویں صدی عیسوی میں ایجاد ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی توریت پتھر یا لکڑی کے تختوں پر منقوش تھی۔
پتھر اور لکڑی کی یہ تختیاں انتہائی قیمتی ہوتی تھیں، اس لیے آپ نے لکڑی کا ایک صندوق بنوایا، اسی ایک نسخے کو اس میں محفوظ رکھا، ہر کس وناکس کو براہ راست اس سے استفادے کی اجازت نہیں تھی۔ توریت کے حفظ کے رواج کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کی سرکش طبیعت سے واقف تھے، ان کی طرف سے تحریف توریت کا خدشہ بھی لگا رہتا تھا، چناں چہ موجودہ توریت کی کتاب ”استثناء“ میں ہے:
”جب حضرت موسیٰ اس شریعت کی باتوں کو ایک کتاب میں لکھ چکا اور وہ ختم ہوگئیں تو موسیٰ نے لاویوں سے، جو خداوند کے عہد کے صندوق کو اٹھایا کرتے تھے، کہا کہ وہ اس شریعت کی کتاب کو لے کر خداوند اپنے خدا کے عہد کے صندوق کے پاس رکھ دو، تاکہ وہ تیرے برخلاف گواہ رہے، کیوں کہ میں تیری بغاوت اور گردن کشی کو جانتا ہوں، دیکھو! ابھی تو میرے جیتے جی تم خداوند سے بغاوت کرتے ہو، میرے مرنے کے بعد کتنا زیادہ کروگے؟“ (استثناء، باب: 31، آیت: 24،25،26)
ان حالات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی پیشگی حفاظت کی خاطر دو وصیتیں فرمائیں۔
ہر سات سال کے آخر میں جب اسرائیلی جمع ہوں توریت پڑھ کر سنائی جائے۔
ہر اسرائیلی بادشاہ اس کی ایک نقل اتروا کر اپنے پاس رکھے اور اسے پڑھتا رہے۔
پہلی وصیت سے متعلق ”استثناء“ میں ہے:
”اس صندوق میں توریت رکھ کر اسے بنی لاوی اور اسرائیل کے سب بزرگوں کے سپرد کیا اور انہیں یہ حکم بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ہر سات سال کے آخر میں جب سب اسرائیلی جمع ہوں، تو ان کو توریت پڑھ کر سنانا۔“ (استثناء،31: 9 تا13)
دوسری وصیت سے متعلق ”استثناء“ میں ہے:
”اور جب وہ تخت پر جلوس کرے تو اس شریعت کی، جو لاوی کاہنوں کے پاس رہے گی، ایک نقل اپنے لیے کتاب میں اتار لے اور وہ اسے اپنے پاس رکھے اور اپنی ساری عمر اسے پڑھا کرے، تاکہ وہ خداوند اپنے خدا کا خوف ماننا اوراس شریعت اور آئین کی سب باتوں پر عمل کرنا سیکھے۔“(استثناء،17: 18، 19)
یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ان دونوں وصیتوں کے ساتھ وہی افسوس ناک سلوک کیا جس کااندیشہ اس ضدی اور ہٹ دھرم قوم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہوچکا تھا، چناں چہ حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے خلیفہ حضرت یوشع علیہ السلام نے تو اپنی زندگی میں دوبار اسے پڑھ کر قوم کو سنایا، لیکن اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد تک پڑھ کر سنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی بادشاہ کے لیے دوسرا نسخہ نقل کرانے کا ثبوت ملتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد زمام خلافت حضرت یوشع علیہ السلام کے ہاتھ میں آئی، آپ اکتیس سال تک بنی اسرائیل کے منتظم اور مدبر رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وصیت کے مطابق اسرائیلی اجتماع کو دو بار توریت پڑھ کر بھی سنائی۔ آپ کی وفات کے بعد زمام خلافت حضرت ہارون علیہ السلام کے پوتے حضرت فیخاس بن الیعزر بن ہارون کے ہاتھ میں آئی، جنہوں نے پچیس سال تک قوم کی قیادت فرمائی اور انہیں شریعت پر کاربند رکھا۔ اس تمام عرصہ میں توریت کا صرف ایک ہی نسخہ تھا، جو پہلے حضرت یوشع علیہ السلام کے پاس اور پھر حضرت فیخاس کے پاس رہا، جو یہودیوں کے کاہن اعظم تھے۔ توریت سنبھالنے کا اعزاز اسی خاندان کے پاس تھا۔ عوام کو براہ راست دیکھنے پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت یوشع علیہ السلام کے بعد توریت کی سات سالہ اجتماعی سماعت بھی موقوف ہوگئی۔ حضرت فیخاس کی وفات کے بعد اقتدار کی باگ ڈور ”صور صیدا“ نامی اسرائیلی کے پاس آئی۔ یہ پہلا اسرائیلی قائد تھا جس نے اعلانیہ بت پرستی اختیار کر کے ارتداد اپنایا اور اسی کے عہد اقتدار میں پہلی بار بنی اسرائیل نے اجتماعی طور پر بت پرستی اختیار کی اور مرتد ہوئے۔ اس کے عہد سے لے کر حضرت طالوت علیہ السلام کے عہد تک جو کم وبیش ساڑھے پانچ سو سال کا عرصہ ہے، بنی اسرائیل نے سات مرتبہ اجتماعی ارتداد اختیار کیا۔ مختلف ادوار میں کیے گئے ارتداد کی مجموعی مدت کم وبیش ایک سو چودہ سال ہے، جس کی پوری تفصیل علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ نے ”الملل والنحل“ میں بیان فرمائی۔
ارتدادا کا پہلا دورانیہ آٹھ سا ل تک،دوسرا دورانیہ اٹھارہ سال تک، تیسرا دورانیہ بیس سال تک،چوتھا دورانیہ سات سال تک،پانچواں دورانیہ تین سال تک،چھٹا دورانیہ اٹھارہ سال تک،ساتواں دورانیہ چالیس سال تک رہا۔
سوچنے کا مقام ہے، جو لوگ چھوٹے سے شہر میں قیام پذیر ہوں، ان کے دین کے پیروکار اس شہر کے علاوہ کہیں نہ پائے جاتے ہوں، ساڑھے پانچ سو سال تک انہوں نے تورات کی سماعت موقوف کر رکھی ہو، اس کے حفظ کارواج تھا، نہ درس و تدریس کا، پھر سوا سو سال تک پوری قوم کفر کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتی رہی ہو اس صورت حال میں تورات کے محفوظ ہونے کا تصور کیونکر کیا جا سکتا ہے؟!

مذکورہ عہد کے آخری منتظم حضرت شموئیل اسرائیلی نبی تھے، جو اختلاف روایت کے ساتھ بیس برس یا چالیس برس تک بنی اسرائیل کے منتظم رہے انہوں نے اپنے بڑھاپے میں حضرت طالوت کو (جنہیں اسرائیلی روایت میں ”ساول“کہا جاتا ہے)، اسرائیلیوں کا بادشاہ مقرر کیا،حضرت طالوت حضرت یوسف ؑ کے چھوٹے بھائی بنیامین کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے،بیس برس تک بادشاہی کرنے کے بعد دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے اور زمام اقتدار حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں میں آگیا، جن کی مدت سلطنت چالیس سال تک رہی، آپ کے بعد آپ کے اقتدار کے وارث حضرت سلیمان علیہ السلام ہوئے اور چالیس سال تک اس شان سے بادشاہی فرمائی کہ تا قیامت ان جیسی بادشاہی کا دعوے دار کوئی نہیں ہو سکتا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں پہلی باراس صندوق کو کھولا گیا،جس میں تورات کے محفوظ رکھے جانے کا دعویٰ تھا،لیکن جب اسے کھولا گیا تو اس میں تورات مفقود تھی……،چناں چہ یہود و نصاریٰ کی مزعومہ الہامی کتاب اس حقیقت سے یوں نقاب کشائی کرتی ہے،”اور اس صندوق میں کچھ نہ تھا سوائے پتھرکی ان دولوحوں کے، جن کو وہاں موسیٰ ؑنے حورب میں رکھ دیا تھا، جس وقت کہ خداوند نے بنی اسرائیل سے، جب وہ ملک مصر سے نکل آئے، عہد باندھا تھا“۔(سلاطین،8۔9)
تورات کی زیارت،تلاوت اور سماعت تو صدیوں سے موقوف تھی، اب گمشدگی کا راز بھی کھل گیا۔
یہاں کئی تاریخی سوالات اٹھتے ہیں،یہ صندوق بنی ہارون کی تولیت میں تھا اور انتہائی با برکت متصور کیا جاتا تھا، اس سے اس قدر اجتماعی غفلت کیوں کر ممکن ہوئی؟ پھراسے بازیاب کرانے کے لیے بنی اسرائیل نے کیا سرگرمی دکھائی؟اجتماعی ارتداد کے ادوار میں اسے خود اسرائیلی کاہنوں نے ضائع تو نہیں کر دیا تھا؟
یہودی تاریخ اتنے بڑے قومی جرم سے خاموشی سے گزر جاتی ہے اور پھر تین سو ستاون سالوں کے بعد اچانک تورات کی بازیافت ہونے کی خوش خبری سناتی ہے،اس قدر طویل عرصے کی گمشدگی کے بعد کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ یہ وہی تورات ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ ؑپر ناز ل فرمائی تھی اور تحریف و تبدیلی جیسے تمام تغیرات سے محفوظ رہی؟
ہم ان سوالات کو یہیں چھوڑ کر تورات کے متعلق تاریخی حقائق کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل باہمی اختلاف کا شکار ہو گئے، بالآخر سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، ایک گروہ نے یربیعام کو بادشاہ بناکر اس کا نام”اسرائیلی حکومت“رکھ لیا،دوسرے گروہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بیٹے رحبعام کو اپنا بادشاہ بنا کر اپنی سلطنت کا نام ”یہوداہ کی سلطنت“رکھ لیا، پہلی سلطنت کا حلقہ اثر شمال کا علاقہ بشمول شرق اردن تھا اور پایہ تخت سامریہ تھا، دوسری سلطنت کا حلقہ اثر جنوب کے علاقوں میں تھا اور پایہ تخت یروشلم تھا۔
یہودی مؤرخین کے بیان کے مطابق گمشدہ تورات یوسیاہ بادشاہ کے عہدمیں دریافت ہوئی تھی اور یوسیاہ بادشاہ”یہوداہ کی سلطنت“ کا بادشاہ تھا۔
یوسیاہ کے عہد تک سلطنت یہوداہ کی مدت 357سال بنتی ہے، جس میں باایمان رہنے کی مجموعی مدت ایک سو بارہ سال ہے، اس کے علاوہ دو سو پینتالیس سال تک پوری قوم کفروبت پرستی میں مبتلا رہی اس پورے عرصے فقط چار بادشاہ مومن تھے،باقی کافر تھے یا کفر نواز تھے۔ اس کی مکمل تفصیل عہدنامہ قدیم کی کتاب ”تواریخ“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ پھر یوسیاہ کے عہد میں تورات کیسے دریافت ہوئی؟اسے انہیں کی زبانی سنیے!
”اور سردار کاہن خلقیاہ نے سافن منشی سے کہا کہ مجھے خداوندکے گھر میں توریت کی کتاب ملی ہے اور خلقیاہ نے وہ کتاب سافن کو دی اور اس نے اس کو پڑھا، اور سافن منشی بادشاہ کے پاس آیا اور بادشاہ کو خبر دی کہ تیرے خادموں نے وہ نقدی، جو ہیکل میں ملی، لے کر ا ن کارگزاروں کے ہاتھوں میں سپرد کی جو خداوند کے گھر کی نگرانی رکھتے ہیں،سافن منشی نے بادشاہ کو یہ بھی بتایا کہ خلقیاہ کاہن نے ایک کتاب میرے حوالے کی ہے اور سافن نے اسے بادشاہ کے حضو ر پڑھا،جب بادشاہ نے توریت کی کتاب کی باتیں سنی تو اپنے کپڑے پھاڑ دیے اور بادشاہ نے خلقیاہ کاہن اور سافن کے بیٹے ”اخی قام“اور میکایاہ کے بیٹے عکبور اور سافن منشی اور عسایاہ کو،جو بادشاہ کا ملازم تھا، یہ حکم دیا کہ یہ کتاب جو ملی ہے اس کی باتوں کے باے میں تم جا کر میری اور سب لوگوں اور سارے یہوداہ کی طرف سے خداوند سے دریافت کرو،کیوں کہ خداوند کا بڑا غضب ہم پر اسی کے سبب سے بھڑکا ہے کہ ہمار ے باپ دادا نے اس کتاب کی باتوں کو نہ سنا۔“(سلاطین 22:8تا13)
اللہ تعالی نے یہودیوں کو تورات کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی، لیکن انہوں نے اسے ضائع کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،اس لیے قرآن کریم میں ا ن کی مثال گدھے سے دی گئی،جس کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو، لیکن وہ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔
یوسیاہ نے سترہ سال با حالت ایمان حکومت کی اور بالآخر مصری شاہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے، ان کے بعد ان کے بیٹے نے زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لی، اس نے حکومت سنبھالتے ہی کفر اختیار کیا اور بت پرستی کا اعلان کیا، ہارونی کاہن سے تورات لے کر جہاں کہی اللہ کا نام پایا مٹا یا، تین مہینے حکومت کرنے کے بعد شاہ مصر کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔
اس کی جگہ اس کا بھائی ”یہویا قیم“والی ملت ہوا، اس نے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رعایا سمیت کفر کا اعلان کیا،بت خانے تعمیر کرائے، ہارونی کاہن سے کتاب لے کر اسے جلا ڈالا اور اس کا نام و نشان مٹا دیا، گیارہ سال حکومت کر کے یہ مر گیا، اس کے بعد امور مملکت اس کے بیٹے ”یہویاکین“ نے اپنے ہاتھ میں لیے، وہ بھی کافر اور بت پرست تھاتین مہینے حکومت کی تھی کہ بخت نصر خدائی کوڑا بن کر ان پر برسا اور یہ گرفتار ہو گیا، اس کی جگہ اس کا چچا ”متنیابن یوسیاہ“ والی ہوا، وہ بھی مرتد اور بت پرستی میں مبتلا تھا رعایا بھی اس کی پیروکار تھی، اس کی سلطنت گیارہ سال رہی، بالآخر یہ بھی بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔
بخت نصر نے 598ق م یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا، یہودیوں نے کچھ عرصے بعد بغاوت کی، جس کے نتیجے میں بخت نصر نے شہر کو تہس نہس کر دیا، ہیکل کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا سترہزار یہودی قتل ہوئے،باقی ماندہ یہودی، مرد،عورتوں،بچوں کو قیدی بنا کر اپنے ہمراہ عراق لے گیا۔
عموما ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ بخت نصر کے حملے میں ہیکل کے ساتھ تورات بھی نذر آتش ہو گئی،حالاں کہ تورات کو تو یہودی خود اس سے پہلے جلا چکے تھے۔
شاہ بابل اور شاہ ایران کے درمیان جنگ ہوئی، انجام کار ایرانی فاتح سائرس نے 539 ق م بابل پر قبضہ کر لیا، جس نے اسرائیلی قوم کی قابل رحم حالت اور مسکنت دیکھ کر انہیں آ زاد کر دیا، واپس بیت المقدس جانے کی اجازت دے دی، چناں چہ اسرائیلی ایک بار پھر اپنے وطن بیت المقدس پہنچ گئے، قید غلامی سے آزاد ہونے والے ان افراد میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے، جنہیں اسرائیلی لٹریچر میں عزرا نبی یا عزرا کاہن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس طویل عرصے تک تورات کی معدومی کی بناء پر آپ نے تورات کو اپنے حافظے سے ازسر نو لکھنا شروع کیا چناں چہ کتاب عزراہ میں ہے۔
”یہی عزرا بابل سے گیا اور وہ موسی کی شریعت میں جسے خداوند اسرائیل کے خدا نے دیا تھا،ماہر فقیہ تھا۔“(عزرا:7:6)
یاد رہے یہاں ماہر فقیہ کہا گیا ہے، نہ کہ ماہر حافظ، کیٹو اپنے انسائیکلوپیڈیا ببلیکل لٹریچر میں لکھتا ہے۔
”یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ عزرا نے تمام عہد عتیق کو محض حافظہ کی مدد سے ازسر نو تحریر کیا،کیوں کہ ان کتابوں کے تمام نسخے تغافل شعاری کی وجہ سے معدوم ہو چکے تھے۔“یہاں ایک نسخہ کو تمام نسخے بتلانا بھی غلط فہمی میں ڈالنا ہے، اگر ایک سے زائد نسخے ہوتے تو وہ اس قدر قلیل عرصے میں معدوم نہ ہوتے۔
تورات کے مرتب و مدون ہونے کی بناء پر اسرائیلیوں میں آپ کا نام انتہائی احترام سے لیا جاتا ہے،بعض فرقوں نے آپ کی تعظیم میں غلو کرتے ہوئے آپ کو ”ابن اللہ“قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






تتتت��
shabbir ibne adil
About the Author: shabbir ibne adil Read More Articles by shabbir ibne adil: 108 Articles with 112875 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.