ایک دن کی زندگی

عقلمند آدمی کے لئے ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے۔ ہر دن تبدیلی لے کر آتا ہے۔ہر دن نئی باتیں نئے نظارے اور نئی دلچسپیاں لے کر طلوع ہوتا ہے۔اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرے لئے تو آج کا دن بھی کل کی طرح ہی طلوع ہوا ہے،یکسانیت ہے ،کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، تو وہ شخص تسا ہل پسند ہے۔وہ اپنے ذہن کو نئے دلچسپیوں کی تلاش میں صرف ہی نہیں کرنا چاہتا۔وہ ارد گرد پڑی ہوئی بے شمار دلچسپیوں، خوبصورتیوں اور زندگی سے بھر پور لمحوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ورنہ ہر دن ایک نئی سج دھج سے طلوع ہوتا ہے۔وہی انسان خوش رہ سکے گا اور وہی خوش ہوگا جو یقین سے کہہ سکے گا کہ میں مالک ہوں آج کے دن کا ۔ جو یقین کے ساتھ یہ کہہ سکے گا کہ میں کل پہ بھیجتا ہوں لعنت اور میں نے صرف آج کے دن بھر پور زندگی کو بتانا ہے۔ایک وقت میں صرف ایک دن کے لئے زندگی بسر کرنا اتنا مشکل نہیں ہے لیکن اگر ہم صبح بیدار ہوتے وقت سب سے پہلا عہد اپنے آپ سے ےہ عہدکریں کہ میں نے آج کا دن بھر پور گزارنا ہے۔میں نے آج کے دن سے خوشیوں کا رس کشید کرنا ہے۔میں نے گزرے ہوئے کل کی ناکامیوں اور پریشانیوں سے اپنے آج کو بچانا ہے۔ بس آج کے لئے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔یہ سب کچھ کر لینے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا آج ایک روشن اور چمکیلا ہو کر طلوع نہ ہو۔ہم ہمیشہ بہشت کے طلسماتی گلابوں کے متعلق خوابوں میں مبتلا رہتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم اپنی کھڑکیوں سے باہر جو گلاب کے پھول کھلے ہوئے ہیں ان سے لطف اندوز ہوں۔ہم سامنے پڑی ہوئی خوشی سے تو منہ پھیر لیتے ہیں ،لیکن کوسوں دور پڑی ہوئی خوشیوں کے لئے آہیں بھرتے رہتے ہیں۔ہماری زندگی کا مختصر دورانیہ عجیب و غریب ہے۔ بچہ کہتا ہے کہ جب میں بڑا ہو جاﺅں گا تب فلاں فلاں خوشی سمیٹوں گا۔ بڑا لڑکا کہتا ہے جب میں جوان ہو جاﺅں گا تو فلاں فلاں خوشی سمیٹوں گا،اُس بڑی عمر کا شخص کہتا ہے فی الحال میں پریشان ہی رہنا چاہتا ہوں جب میرے بچے جوان ہو جائیں گے اور بڑے بڑے افسر بن جائیں تو میں خوش رہنا شروع کروں گا۔ ملازم کہتا ہے فی الحال میں پریشان ہی رہنا چاہتا ہوں کیونکہ جب میں ریٹائر ہو کر فارغ ہو جاﺅں گا تو میں خوش رہنا شروع کروں گا۔ جب بڑھاپا آ جاتا ہے تو وہ گزرے ہوئے مناظر کو ویسے تناظر میں دیکھتا ہے تو اسے ایک سرد سی لہر وجود میں چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ میں تو دلنشیں لمحے کھو چکا ہوں جو میرے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔وہ ان زندگی سے بھر پور لمحوں کے ضائع ہو جانے پر آہیں بھرنا شروع کر دیتا ہے جن میں وہ جوانی کے دنوں میں رنگ بھرنے سے محروم رہ گیا۔ وہ اہ بھر کر رہ جاتا ہے کہ خوشی کے سامان تو میرے پاس دھرے کے دھرے رہ گئے اور میں ان سے خوشی کشید ہی نہیں کر سکا۔ہم دیر بعد سیکھتے ہیں کہ زندگی ہر دن کے ہر لمحہ اور ہر گھنٹہ میں زندہ رہنے کا نام ہے اور بھر پور طریقے سے زندہ رہنے کا نام ہے۔یہ اتنا پیارا آج جسے ہماری سوچیں دھندلائے بیٹھی ہیں ےہ دن دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔ زندگی دھیرے دھیرے اپنا دامن سمیٹ رہی ہے اور ہم مستقبل کے سبزہ زاروں میں خوشیوں کی تتلیاں پکڑنے میں مصروف ہیں۔

آج کا دن ہمارے لئے بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے اس میں جی بھر کر جینا چاہےے۔ اصول تو یہ ہے کہ آنے والے کل سے لطف اٹھاﺅ اور گزرے ہوئے کل کے لئے آہیں مت بھرو بلکہ اس دن کی غلطیوں کوتاہیوں سے سبق سیکھو۔ ہم میں سے اکثریت کا یہ حال ہے کہ گزرے کل پر ہاتھ ملواور آج کے دن آنے والے کل کے لئے فکرو پریشانی میں مبتلا رہو۔بجائے اس کے کہ ہم آج کے دن کے لطف کو ابھی سے دوبالا کریں،ہم ماضی اور مستقبل کی پرچھائیوں سے اس کے لطف کو ضائع کرتے چلے جاتے ہیں۔بے شک ہمیں بہت سے مسائل سے سابقہ پڑتا ہے اور جنہیں ہم نے حل کرنا ہوتاہے لیکن ان کو ایک ایک کر کے اور اپنے اپنے وقت پر حل کرنا ہوتا ہے، نہ کہ ایک ساتھ۔ہم انہیں ایک ساتھ ذہن پر سوار کر کے اس بوجھ کے نیچے کراہنے لگتے ہیں۔ہم ان مسائل کی تصویریں اپنے ذہن میں اکٹھی کھینچ کر ،ان پر پریشان ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ہم آنے والے کل اور گزرنے والے وقت کو ایک ساتھ اپنے دماغ میں اُٹھا ئے پھرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں جو ہمارا دامن کھینچ کھینچ کر ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، ہم ان سے اپنا دامن کھینچ کر گرتے پڑٹے کسی انجانی منزل کی جانب بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دن کے مسائل ختم اور کل جو فیصلے کرنے ہیں وہ وقت آنے پر سوچیں گے بس ہماری تمام تر توجہ آج پر ہونی چاہیے۔ بھرپور زندگی اپنی تمام تر پریشانیاں کے باوجود صرف اور صرف آج میں ہے۔ جو شخص اپنی تمام تر توانائیوں کو اس نقطہ پر مرکوز کر لیتے ہے کہ’ کاش‘ کاش کاش میں نے ماضی کو ضائع کر دیااُس نے حال بھی ضائع کر دیا۔اس کاش کو تو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا چاہیے۔ اگر ہم آج کے مسائل کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں اور ان پر فتح پالیں تو ہم فاتح ہیں اورفاتح کی سب خوشیاں مفتوح اورباندیاں بن جاتی ہیں۔
Manzoor Qadir Kalro
About the Author: Manzoor Qadir Kalro Read More Articles by Manzoor Qadir Kalro: 8 Articles with 6870 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.